52

بچوں کی کتابوں کا عالمی دن/تحریر/ از قلم بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد

کسی دانشور کا قول ہے ”اگر کسی ملک کی ترقی کے بارے میں جاننا مقصود ہو تو وہاں پر موجود تعلیمی اداروں کو دیکھ لیا جائے اور اگر وہاں کے تعلیمی اداروں کا معیار اور ترقی پرکھنا ہو تو وہاں کے کتب خانوں کا معیار دیکھ لیں۔ کتب خانے جتنے فعال اور منظم ہوں گے وہاں کے تعلیمی ادارے بھی تعلیم اور تحقیق میں اسی قدر فعال اور منظم ہوں گے جس کا لازمی نتیجہ وہاں کی معاشی اور معاشرتی ترقی کی خوشحالی کی صورت میں ظاہر ہوگا۔”پاکستان میں کتب بینی کے حوالے سے 2021ء میں ایک نجی ادارے کی طرف سے ملک گیر سروے کیا گیا تھا جس کے مطابق کتابیں پڑھنے کی شوقین عوام کی تعداد 19 فیصد ، کتب بینی سے دوری کا اعتراف کرنے والی عوام کی تعداد 73 فیصد اور کوئی جواب نہ دینے والی عوام کی تعداد 8 فیصد تھی۔ ان نتائج سے یہ انداز لگانا ذرا مشکل نہیں کہ ہمارے ہاں کتب بینی کو کس قدر اہمیت دی جاتی ہے۔دنیا بھر میں ہر سال 2 اپریل کو بچوں کی کتابوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جسے (international children book day) بھی کہا جاتا ہے۔یہ دن بچوں کے ایک معروف لکھاری ہنس کرسچن اینڈرسن ( hins Christian Anderson) کا یوم پیدائش ہے۔ 2 اپریل 1805ء کو ڈنمارک میں پیدا ہونے والے اس ڈچ لکھاری نے بچوں کے لیے سینکڑوں کہانیاں، کتب، ناول، سفر نامے اور تصوراتی کہانیاں تخلیق کیں۔ اس لکھاری کی یاد میں ڈنمارک نے 1935ء میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ اسی طرح قازقستان نے بھی بچوں کی خدمات کے اعتراف میں 2005ء میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ ان کی یاد میں اس دن کو بچوں کے ادب میں فروغ کے لیے دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ اس دن بچوں کے رسائل کی نمائش کی جاتی ہے اور کتب میلوں میں بچوں کو سستی کتابیں خریدنے اور مطالعہ کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ بچوں میں مطالعہ یا کتب بینی کی عادت راسخ کرنا کافی مشکل اور محنت طلب کام ہے لیکن ناممکن نہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں کتب بینی کے رحجان میں کمی واقع ہو رہی ہے جس کی بڑی اور اہم وجوہات میں انٹرنیٹ ، موبائل فون، ٹیبلٹ کمپیوٹر، ننٹینڈو پلے اسٹیشن، اور ایکس باکس کا استعمال ہے۔ کتب بینی میں عدم دلچسپی کی سب اہم وجہ بچوں کے ادب کا غیر معیاری اور دلچسپی سے خالی ہونا ہے۔ اس کے لیے بچوں کے والدین ، استاتذہ اور خصوصاً بچوں کے ادباء کے لیے چند اہم ہدایات پیشِ خدمت ہیں:اول تو یہ کہ بچوں کے ذہن میں بڑی حکمتِ عملی اور موقع شناسی کے ساتھ مطالعے میں دلچسپی بڑھائی جائے۔ دوم یہ کہ کتب بینی میں ایسی مقناطیسی کشش پیدا کی جائے کہ بچے کھنچے چلے آئیں۔ بچوں کے پڑھنے کے مواد کو عمل (action) پر مبنی ہونا چاہیے۔ بچوں کو خصوصی طور پر دیو مالائی قصے کہانیوں اور نظموں (rhyme) میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انھیں کارٹون اور سنسی خیز فلمیں ڈرامے بھی بہت لبھاتے ہیں۔ غرض ہر وہ چیز جو رنگوں، موسیقی اور چونکا دینے والے دلکش اور رنگین مناظر پر مبنی ہو بچوں کو فوراً اپنی جانب متوجہ کرتی ہے اسی لیے انھیں سادہ اور سپاٹ مواد پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی لہٰذا وہ آپ کے لاکھ چاہنے کے باوجود کتب بینی کی جانب راغب نہیں ہو پاتے۔ مطالعے میں عدم دلچسپی کی ایک وجہ عدم توجہی بھی ہے۔ بچے ایک ساتھ کئی کاموں میں لگے ہوتے ہیں اس لیے ان کا ذہن بٹا ہوتا ہے۔ یوں انھیں یکسوئی کے ساتھ پڑھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے یہ ترکیب یقیناً کارگر ثابت ہوگی کہ جو مواد کتاب میں دیا گیا ہے اسے آپ اپنے وقتی مزاج کے لحاظ سے منتخب کریں۔ مثلاً اگر آپ کا موڈ کھیلنے کا ہو تو ڈرامہ، والے مواد پر مبنی کتاب یا پھر super islami heroes والی کتاب جو بہادر اور شجاع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، اور تاریخی مشہور جنگ جو شخصیات کے واقعات پر مبنی ہو پڑھنے کی طرف توجہ دیں ۔ دوسری تدبیر یہ ہے کہ کسی مواد کو ٹکڑوں کی صورت میں پڑھا جائے۔ ایک ہی نشست میں پورا نہ پڑھیں اس سے بچے میں دلچسپی اور تجسس کا عنصر پیدا ہوگا کہ آگے کیا ہوگا؟بحثیت سرپرست یا استاد یہ احتیاط اشد ضروری ہے کہ بچوں کو کتاب پڑھنے پر کوئی زور زبردستی یا جبر نہ کیا جائے اور نہ ہی بے جا ضد کی جائے۔ پہلے بچے کو نرمی اور ملائمت سے سمجھائیں مطالعہ کی اہمیت اجاگر کریں پھر آہستہ آہستہ اس راہ پر لائیں تاکہ جب آپ اسے کتاب پڑھنے کے لیے کہیں تو وہ بے زاری کا اظہار کرتے ہوئے جان نہ چھڑائے بلکہ آپ کی بات مانے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ والدین یا ٹیچرز بچوں کی نفسیات اور جذبات کو سمجھے بغیر انہیں پڑھنے کا حکم صادر کرتے ہیں لیکن بچہ ضد میں آکر لاکھ کہنے کے باوجود بھی نہیں پڑھتا جبکہ کتاب پڑھنے کے لیے سب سے پہلے بچے کی ذہن سازی لازمی ہے۔ اب وہ پرانی تہذیب و روایت تو نہیں رہی کہ گھروں میں بچوں کو کتابوں سے محبت کا تیار شدہ ماحول دستیاب ہوتا تھا۔ دؤر جدید میں ٹی وی ، کمپیوٹر، گیمز اور موبائل فون کی موجودگی میں بچوں میں کتب بینی کی عادت ڈالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیوں کہ یہ اس کے دل کا معاملہ ہوتا ہے۔ اس لیے بچوں کو کتاب خوانی کے لیے تیار کرنے سے پہلے ان کی ذہن سازی کرنی ضروری ہے۔ مگر بدقسمتی سےہمارے گھروں میں بچوں کی تعلیم وتدریس سے متعلق فکر تو بہت ہوتی ہے لیکن ان کی ذہنی تربیت پر خاص دھیان نہیں دیا جاتا۔ یہ تربیت انھیں کتب بینی سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ ایسا انتظام کریں کہ بچوں کو سب سے پہلے کتابوں کی سردار قرآن مجید فرقان حمید کی تلاوت ، ترجمہ پڑھنے کی عادت ڈلوائیں۔ ذوق مطالعہ بڑھانے کے لیے سیرت النبی پر لکھی گئی بچوں کی کتابوں کا مطالعہ کروائیں۔ زینہ بہ زینہ مراحل طے کرتے ہوئے گھر میں بچوں کے معیاری اور تعمیری رسائل مثلاً ماہنامہ ذوق و شوق، مسلمان بچے، ہفت روزہ بچوں کا اسلام، جگمگ تارے، ماہنامہ نونہال، ماہنامہ فہم دین، پھول ، تعلیم و تربیت، ساتھی ، بچوں کی دنیا، بچوں کا باغ، جگنو، کرن کرن روشنی ، پیغام اقبال ڈائجسٹ، شاہین اقبال، وغیرہ کے ساتھ ساتھ کچھ اردو انگریزی اخبارات بھی گھر پر لازمی لگوائیں۔ کیوں کہ یہ وہ نامی گرامی رسائل ہیں جو بچوں کے ادب اور ان میں کتب بینی کے فروغ کے لیے عرصۂ دراز سے اپنی خدمات بغیر کسی ستائش و صلہ کے انجام دے رہے ہیں۔ ان رسائل میں شامل مواد بچوں کی ذہنی فکری اور اخلاقی تعمیر کو جلا بخشنے اور انھیں باعمل مسلمان، محبِ وطن اور معاشرے کا ایک کارآمد شہری بنانے میں معاون و مددگار ثابت ہوگا۔ بچوں میں کتب بینی کو فروغ دینے کے بچوں کے ادباء و شعراء اور ناشرین خوب محنت کر رہے ہیں۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں موبائل کی دُنیا سے باہر نکال کر بچوں کو کتابوں کی دُنیا کی سیر کرانے کے عظیم مقصد کو لے کر ہر سال ملکِ عزیز کے چھوٹے بڑے شہروں میں ادارۂ ادب اطفال، چلڈرن لیٹریری سوسائٹی کی جانب سے کتابوں کا میلہ سجایا جاتا ہے۔ اسٹالز پر سجی ڈھیروں کتابیں جن میں سیرتِ طیبہ، حدیثِ مبارکہ، قصص القرآن قصص الانبیاء، اصلاحی اور سبق آموز واقعات پر مبنی کہانیوں کی کتب، سائنس فکشن، جنوں اور پریوں کے دیس کوہ قاف کی سحر انگیز کہانیوں کی رنگ برنگے دیدہ زیب سرورق سے مزین کتب ہر عمر کے بچوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ گو کہ تاریخی، اسلامی، علمی ، ادبی اور تحقیقی کتابوں کے خریدار کم ہیں۔ پھر بھی ان کتب میلوں میں خاصی بڑی تعداد میں بچے شرکت کرتے ہیں وہ سب مسرور ہو کر اپنے پسندیدہ رائٹرز سے آٹو گراف لیتے ہوئے کتابیں خریدتے ہیں، انہیں پڑھتے ہیں اور خوب سراہتے ہیں۔ یقیناً بچوں کے ادباء اس مقصدِ نیک میں کسی حد تک کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ یہ بات حقیقت مصصم ہے اگر بچپن سے ہی بچوں کو معیاری اور تعمیری کتابوں کا شوقین بنایا جائے تو کتابوں سے دوری کا سلسلہ ختم کر کے بچوں میں شوقِ مطالعہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں