131

آہ !! عبداللہ نظامی۔۔۔/تحریر/ روحان دانش

تحریر/روحان دانش

سرخ و سفیدرنگ، تنی گردن، قیمتی پُروقار انگریزی لباس، مختصر اور بناوٹی گفتگو، ایسا ایک تصوراتی خاکہ میرے ذہن میں ابھرا تھا جب مارچ 2020ء کی ایک نیم سرد شام کو چائے پر علی عمران ممتاز نے مجھے ان کی اگلے روز ملتان آمد اور علی کے ہی گھر اُن کے ٹہرنے کی اطلاع دیتے ہوئے ان کا تعارف کروایا۔میں اورعلی عمران ممتاز مارچ میں پھالیہ میں ہونے والی اہل قلم کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے اپنا پروگرام ترتیب دینے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
میں ان سے نام کی حد تک تو عرصے سے واقف تھا کہ بارہا روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں ان کی تحریروں سے اپنی مطالعاتی پیاس کو سیراب کر چکا تھا۔ مگر ذاتی تعارف تو میرا بیرون ملک رہنے کی وجہ سے ملتان شہر کے ادبی و لکھاری دوستوں تک سے بالمشافہ نہ ہو سکا تھا۔
”ماشاء اللہ! “ اب جب علی عمران ممتاز کے توسط سے عبداللہ نظامی بھائیکے کام، بچوں اور بڑوں کے لیے ان کی قلم آرائیوں اور ان کی شخصیت سے واقفیت ہوئی تو اِس غائبانہ تعارف سے میرے مَن میں اُن کی شخصیت کو لے کر مرعوبیت کے ایک احساسنے جنم لیا۔ اُن سے ملاقات، ُان کو ملنے، دیکھنے کا شوق بھی ہو رہا تھا مگر یہ خیال بھی دامن گیر تھا کہ کہاں مجھ سا بے وقعت انسان اور کہاں عبداللہ نظامی سا ملک گیر شہرت کا حامل ادیب!! ”نجانے ان کا رویہ کیسا ہو؟ کیا مجھے ان سے خاص ملاقات کے لیے جانا چاہیے۔“ میں خود سے سوال کر رہا تھا۔
ُُلیہ شہر میں آپ بیک وقت ایک سماجی شخصیت، بچوں کے ادیب، کالم نگار، سرائیکی و اردوزبان کے شاعر، ایک بڑے روزنامے کے نمائندہ اور میگزین انچارج، کئی ایک قومی سطح کی ادبی تنظیموں کے ذمہ دار، ایک ادبی مجلے کے چیف ایڈیٹر۔۔۔ اس پر مستزاد یہ کہ آپ علاقائی سیاست میں ایک قابل ذکر سیاسی حیثیت کے حامل اور جماعت اسلامی کے امیدوار ممبر صوبائی اسمبلی بھی رہے ہیں۔ ”تھوڑا بہت علمی غرور اور حیثیت کا زعم تو ان کا استحقاق بنتا ہے۔“ میں نے خود کلامی کرتے ہوئے اپنے آپ کو اُن سے ملاقات کے لیے تیار کیا۔
”کیا میں کل شام ہی ان سے ملاقات کے لیے آپ کی طرف آ سکتا ہوں؟ اور اگلی صبح تو ویسے بھی ہم لوگ پھالیہ کانفرنس میں شرکت کے لیے سفر پر روانہ ہو جائیں گے، تب انفرادی ملاقات ہو پائے گی نہ اُن سے کوئی علمی استفادہ“ میں نے اپنی اِس اندرونی اضطراری کیفیت کو علی عمران سے پوشیدہ رکھتے ہوئے اور اِس اِستدلال کے ساتھ اپنی خواہش کا اظہار کیا تو علی نے فورا مجھے خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ وہ منتظر رہے گا۔
اگلی شام میں جب علی عمران ممتاز کے دولت کدے پہنچا تو وہاں حقیقتاََسرخ و سفیدرنگ، تنی گردن، قیمتیپُروقار انگریزی لباس، مختصر اور بناوٹی گفتگو والے شخص کی بجائے سانولی رنگت، چوڑی پیشانی، بڑی اور روشن آنکھیوں والے ایک شخص نے میرا اِستقبال کیا۔
آواز و انداز میں عاجزی مگر بلا کی اپنائیت، چہرے پر مسکراہٹ، پر تکلف گفتگو نہ کوئی بناوٹی انداز تکلم، سادہ مگرانتہائی صاف ستھرے قومی لباس میں ملبوس اُس پُروقار شخص نے مجھے دروازے پر بھرپور معانقے اور مصافحے کے ساتھ ”عبداللہ نظامی“ کہ کر اپنا تعار ف کر ایا۔ بیٹھے، کھانا کھایا، چائے پی، گفتگو ہوتی رہی مجھے بالکل یہ محسوس نہ ہوا کہ میری عبداللہ نظامی بھائی سے آج یہ پہلی ملاقات ہے۔ ایک بڑے ادیب اور معروف حیثیت کے حامل ہونے کے باوجود انھوں نے مجھے جو احترام جو عزت دی، آج وہ میرے لیے ایک ناقابل فراموش یاد ہے۔
اسلامی کتب میں امیر المومنین، خلیفہ دوم سیدنا عمر کے قول سے منسوب ایک واقعہ جو تواتر سے نقل کیا گیا ہیجس کے مطابق کسی فرد کی سیرت اُس کے کردار کے لیے گواہی کے طور پر ساتھ سفر کو ایک دلیل مانا گیا ہے اورمجھے دو مرتبہ جناب عبداللہ نظامی شہید کے ساتھ بلکہ ان کی امارت میں بغرض شرکت سہ روزہ قومی اہل قلم کانفرنس پھالیہ سفر اور قیام و طعام کا موقع ملا ہے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سادگی، عاجزی اور مسکراہٹ بس یہی تین عناصر باہم آپ کی ذات تھے۔ میں نے عبداللہ نظامی بھائی کو جہاں ایک بہترین اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والا منتظم پایا، وہیں میں نے انہیں دوستوں کا دوست، اپنے پرائے ہر ایک کا خیر خواہ اور مددگار انسان پایا۔
بڑے بڑے قومی اور عالمی پائے کے ادباء و شعراء تو ان کے دوست و ہم نوا تھے ہی مگر میں نے دیکھا کہ مجھ سے کئی ایک نو آموز اور غیر معروف بھی عبداللہ نظامی بھائی کی مجلس و محفل میں بڑے ہو گئے ہیں۔ وہ نہ صرف نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کرتے، انھیں اعتماد اور تھپکی دیتے بلکہ جہاں جس کو ضرورت ہوتی بھر پور معاونت کرتے۔ بعد ازاں بھی جب بھی رابطہ ہوا، میں نے انھیں بہترین اَخلاق کا حامل ہی پایا۔قلم کا وہ سکندر بلاشبہ ایک مرد قلندر تھا۔
عبداللہ بھائی ! علی عمران ممتا ز نے آپ کے ساتھ پیش آئے اِس اَلم ناک حادثے کا سٹیٹس لگایا تو مَیں فرطِ جذبات میں علی سے ہی ناراض ہوگیا۔ عبداللہ بھائی! میں آپ سے بار بار مِلنا چاہتا تھا، سیکھنا چاہتا تھا، آپ سے بہت سی باتیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔مگر! یہ کیا ہو گیا اچانک سے ؟ اتنی دور چلے گئے آپ اور وہ بھی یوں اچانک ! اب میں آپ کی یادوں کو لے کر ابھی اور لکھنا چاہتا ہوں، دیر تک لکھنا چاہتا ہوں،اور یونہی تصور میں ہی سہی دیر تک آپ سے باتیں کرنا چاہتا ہوں، مگر ہمت ہے کہ ساتھ ہی نہیں دے رہی۔
آہ !! عبداللہ نظامی۔۔۔! کیا لکھوں مَیں مزید ؟ یقیناََ سب کو جانا ہے، اوربے شک ایک مقرر وقت پر ہم میں سے ہر ایک کو اپنے رب کے پاس حاضر ہونا ہے، آپ اور بھابھی جان نے اپنی حاضری لگوا دی ہے۔بقولِ مرزاشوق:
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ، کل ہماری باری ہے
دعا ہے اللہ پاک آپ دونوں کی حسنات کو قبول فرمائے، بشری لغزشوں سے در گزر فرمائے، جنت الفردوس آپ کا مسکن اور آقا ﷺ کی شفاعت آپ کا م نصیب ٹہرے۔ اے اللہ پاک ! تو عبداللہ نظامی بھائی اور بھابی کی قبروں پر اپنی جانب سے انوار نازل فرما، تا حد ِنگاہ آپ کی قبر کو وسعت عطا فرما، ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کر، ان کی آل اولاد کا ولی ہو جا۔ اور ہم سب کے لیے بھی خاتمہ بھی بالایمان اور شفاعت مصطفیٰ ﷺ مقدر لکھ دے۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں