تحریر/ثوبیہ قیصر
ہمارے ملک کے عوام کو تین طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے وہ جنہیں انگریز جاتے جاتے ہمارے لیے اپنی یاد کے طور پر چھوڑ گئے اور اب وہ اپنی زبردست انگریزی سے لوگوں پر دھاک بٹھاتے نظر آتے ہیں۔ دوسرا طبقہ غالب اور میر تقی میر کا جانشین ثابت ہوا ہے جو لڑتے جھگڑتے بھی ایسی زبردست اردو استعمال کرتے ہیں کہ لوگ عش عش کر اٹھیں۔ مگر ان دو طبقات کے بیچ ایک تیسرا طبقہ بھی پایا جاتا ہے جنہیں نہ انگریزوں نے اپنے ساتھ لےجانا مناسب سمجھا اور نہ ہی یہ بیچارے غالب کی وراثت میں حقدار ٹھہرے۔ اب کبھی یہ انگریزی کی ٹانگیں توڑتے نظر آتے ہیں تو کبھی سرِ عام اردو کا وحشیانہ قتل کرتے پائے جاتے ہیں۔ اس طبقے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ شاعری بھی ایسی کمال کرتے ہیں کہ اگر میر تقی میر حیات ہوتے تو ان کی شاعری سن کر ایک بار پھر وفات پا جاتے۔ یہ لوگ “breakfast” میں انڈہ جب کے دوپہر کے کھانے میں “rice and curry” تناول فرماتے ہیں۔ ابھی چند روز قبل ہماری عزیز سہیلی نے ہمیں کھانے پر مدعو کیا۔ جب میٹھے کی باری آئی تو میں نے تجسّس میں مبتلا ہو کر اس سے پوچھا کہ کیا بنایا ہے میٹھے میں۔ محترمہ کا جواب کچھ یوں تھا:
Milk and rice pudding garnished with” .”pistachios and almonds
ان کا جواب سن کر کوئی ویسٹرن ڈش معلوم ہوئی مگر جب یہ “ویسٹرن ڈش” ہمارے سامنے حاضر کی گئی تو سمجھ آیا کے جنابِ عالیہ کا اشارہ “کھیر” کی طرف تھا۔ کھانے کی تو چلو خیر تھی لیکن ایک روز کراچی کی ایک مشہور شاہراہ سے گزر ہوا جس کے اطراف کی دیواروں پر شہر کو صاف رکھنے کے حوالے سے اقوال درج تھے۔ ایک سطر کچھ یوں تھی “اپنے شہر کی شاعراؤں کو صاف رکھیں۔” کافی دیر غور و فکر کرنے اور شہر سے شاعراؤں کا کنکشن جوڑنے کے بعد سمجھ آیا کے شاہراؤں کے ہجّے غلط لکھے گئے ہیں ۔
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
پہلے وقتوں میں جب موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولیات باآسانی دستیاب نہیں تھیں تو کہا جاتا تھا کہ املا اور تلفظ بہتر کرنے کے لیے نیوز چینل اور اخبارات کا سہارا لیا جائے۔ لیکن اب وہاں بھی اردو کے ساتھ ایسا حشر کیا جاتا ہے کہ توبہ۔ ہمارے جیسے لوگ جن کی زندگی ٹی ویپر خبریں سنتے گزرتی ہے کےلیے ے بات خاصی مایوس کن ہے۔ کچھ روز قبل ہم نے ٹی وی پر ایک نیوز کاسٹر کو کہتے سنا:
“پاکستان میں پیٹر ولیم کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں!”
ذرا دیر کو تو ہمارے دل نے دھڑکنے سے انکار کردیا۔ مانا کہ معاشرے میں بہت سی برائیاں موجود ہیں لیکن یہ انسان فروشی کب سے شروع ہوگئی کہ جناب پیٹر ولیم کی قیمت بڑھ گئی؟ مگر جب ٹکر پر لکھی تحریر پڑھی تو سانسیں بحال ہوئیں۔ موصوفہ “پیٹرولیم” (“Petroleum”) کو “پیٹر ولیم” (“Peter William”) پڑھ رہی تھیں۔ اس صورتِحال پر رئیس امروہوی کی نظم کا ایک شعر بلکل کھرا اترتا ہے:
کہہ دو کہ نہ شکوہ لبِ مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
آخر میں ایک سنجیدہ نقطے کی جانب توجہ مبذول کرانا چاہوں گی کہ اردو زبان ایک ایسا انمول اور خاص تحفہ ہے جسے ہمارے بڑوں نے بہت پیار اور چاہت سے ہمارے سپرد کیا ہے۔ اب اس ورثے کی حفاظت ہماری ذمےداری ہے۔ قومیں وہی سرخرو ہوتی ہیں جو اپنی زبان پر فخر کرتی ہیں۔ اپنی زبان بولنے میں نہ شرمائیں، نہ جھجھکیں کہ یہ آپ کی پہچان ہے۔
بقول داغ دہلوی:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے