چوریاں اکثر ہوتی ہیں ہم اپنے اردگرد اور سنتے ہیں کہ فلاں جگہ چوری ہوتی ہے۔ یہ بات آپ سے خالی نہیں ہے کہ جس میں چوری کا ذکر کرنے لگا ہوں وہ ادبی چوری یہ کیسے ہوتی ہے آج اس کو بیان کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
سرقہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے “چوری” مشہور پرانے زمانے میں چوری کی اصطلاح رات کو چھپ کر کسی کے گھر سے مال و اسباب کو لینا چوری کہلاتا ہے۔
سرقہ
دوسرے کا مال چھپا کر ناحق سے لینا سرقہ کہلاتا ہے (بحر الرائق،معجم الرائد،معجم الموحد)
پروفیسر انور جمال اپنی تصنیف ”ادبی اصطلاحات” میں سخاؔ دہلوی کی اعلیٰ باتوں کو نقل کرتے ہیں:”سرقہ کی خبر یا تو سارق کو ہوتی ہے یا اس کے خدا کو”؛ یہ بات سو فیصد درست نہیں تو پھر دل کو ضرور لگاتی ہے۔ یہاں چند اصولی شرحوں پر بحث کرتے ہیں :
دنیا کے خیال میں اکثر ایک مضمون ہوتا ہے جو پہلے کسی شاعر نے اپنے شعر میں بیان کیا تھا، اس کے بعد میں کسی سے توارد ہو سکتا تھا۔
اس کی تین رائے ہیں:
1.دورانِ مطالعہ کوئی یا خوبصورت مضمون خیال شاعر نے پڑھا ہے جو اس شعور کے کسی کونے میں محفوظ رکھنے کے لیے ہے۔ اس مضمون کے بعد یاد نہ رہا کہ یہ مضمون کس کا تھا اور شعوری ارادے کے لیے اس کے بغیر مضمون کے بارے میں فکرِ شعر نظم نظم۔
2.اتفاقاً کوئی ایسا خیال قدرتی طور پر بھی شاعر سے ٹپک سکتا ہے، جو اس سے قبل کسی نے باندھا ہے۔
3.ارادتاً کسی کے خیال کو اپنے لفظوں میں بیان کر دیا گیا (یہ سرقہ ہے)۔
سید خالد جامعی صاحب ”سرقہ کی روایت” میں سرقہ کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سرقہ کے دو دوا ہیں:
1- سرقہ ظاہر ہوتا ہے
2-سرقہ غیر ظاہر
ہوتا ہے سرقۂ ظاہر کی قسمیں :
(الف) نسخہ و انتحال۔
ہو بہو کسی شاعر کے شعر کو بنا لینا اور یہ ادب میں بہت بڑا عیب ہے۔
(ب) مسخ و اغارہ
لفظی تبدیلی و بدل سے دوسرے شاعر کے شعر کو بنا لینا۔ اگر دوسرے شعر کی ترتیب پہلے سے بہتر ہو تو سرقہ نہیں ہوتا اور یہ ترقی نہیں ہوتی۔
(ج) عالم سلخ
کسی دوسرے شاعر کے شعر کا مضمون اپنے الفاظ میں ادا کرنے کے لیے بنا۔
سرقۂ غیر واضح کی قسمیں :
سرقہ غیر واضح معیوب نہیں بلکہ اگر اچھا ہے تو مستحسن سمجھا جاتا ہے۔ اس کی متعدد صورتیں ہیں :
(1) دو شاعروں کے اشعار میں معنوی مشابہت کا ہونا۔
(2) ایک شعر میں دعویٰ خاص ہو اور دوسرے شعر میں عام۔
(3) کسی مضمون کو تصرف سے نقل کرنا۔
(4) دوسرے شعر کے مضمون کا پہلا شعر متضاد و مخالف ہونا۔
(5) پہلے شعر کے مضمون میں مستحسن تصرف کرنا اور یہ بہت مستحسن ہے۔
اس سے پتہ چلا کہ آج دور میں کسی کا مضمون یا شعر بعینہ لگا کر اس کو اپنے نام سے شائع کرنا چوری نہیں ہے چوری چھپا کر کی جاتی ہے یہاں تو دن دھاڑے پورے مضمون کا نام چھپوا دیا جاتا ہے۔ چوری کرنے والے سینہ زوری بھی کرتے ہیں بلکہ اگر کہا جائے تو بہتر ہو گا آج کل تو ڈکیٹی کا عام رواج ہو گیا کیا خوب شاعر نے کہا ہے!
رات کا انتظا کون کرے
آج کل دن میں نہیں ہوتا۔
دھاڑے اسلحے سے سج دھج کر دن بیٹھے ہیں اور سب مل کر چلتے ہیں۔ صلح جو انسان اپنی عزت کی خاطر چپ سادھ جانے کے لیے کہتے ہیں کہ ان کو علم ہے اگر مزاحمت کی تو خطرہ ہے۔ اس کام کو روکنا قانون اور اداروں کا کام ہے اور اگر آپ اپنی نگرانی میں یہ سب کریں تو پھر انصاف کس سے مانگیں۔
پاک و ہند میں کتابوں کو چھپوانے کا رواج عام ہے جس میں پبلشر نے مصنف کو لکھا ہے اس کو بچارے کا بہت نقصان ہوتا ہے۔
چوری کا عمل زیادہ تر شاعروں میں گزر جاتا ہے۔ نثر میں بھی موجود ہے۔ شاعر لوگ پورا پورا مصرعہ چرا لیتے ہیں اور نثر والے ہیں اور اس کی قوت کو اخذ کرتے ہیں نثر میں الفاظ اور تبدل سے اور جملہ کی ساخت بدلنے اور تعبیرات دینے اور رنگ سے چوری نہیں کرتے کہ جس کی وجہ سے پڑھتے ہیں۔ کوکل نیا کلام اور انداز بیان سے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی نئی تخلیق شدہ تحریر۔
کسی کتاب کا اقتباس دینا برا نہیں ہے اس کے ساتھ واوین ڈال کر واضح کر دیا جائے جس سے پتہ چلتا ہے۔
جب تک با وثوق طاقت سے یہ علم نہ ہو کہ سرقہ کیا گیا تو اس وقت تک کسی بھی تحریری پر سرقہ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔
قبیح حرکت کہ اہل قلم کا پورا مضمون پورا کر کے اپنے نام سے چھپوا دیا ہے۔
اس کا مقصد آپ لوگوں کو دکھانا اور شاباش سمیٹنا ہوتا ہے اور یہ سب اس عمل پر ہوتا ہے جو اصل میں آپ کے لیے نہیں چاہتے ہیں کہ اللہ نے قرآ ن کریم میں دردناک عذاب کیا ہے۔ اعلان کیا ہے، سورہ آل عمران آیت نمبر 188 میں ہے:”وہ لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس پر بھی ان کی تعریف کی جائے، آپ کو عذاب بری طرح سمجھنا ہے تو دردناک ہے” علامہ ابن عبد البر ؒ ابو عمر کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اس کے علم بردار کو ہر چیز کی طرف اشارہ کیا جائے، امام قرطبی ؒ نے اس کی تفسیر میں یہ بات واضح کر دی ہے کہ اقوال کو۔ قائد اعظم امام نووی ؒ نے کہا ہے کہ علماء کرام کا یہ دستور ہمیشہ رہا ہے کہ وہ اس کو فائدہ پہنچانے کے لیے اس قائل کی طرف سے نشان دہی کرتے ہیں، علامہ البانی ؒ نے دوسرے کی طرف اشارہ کیا۔ بغیر اس کی طرف سے کو چوری قرار دیا، اور اسے شرعا نے کہا۔
سرقہ کی بہت سی تفصیلات ہیں، شریعت میں بعض حدود اور قیود کے ساتھ اس کے ہاتھ تک کی سزا ہے اور اگر وہ ایک ہاتھ پر بھی باز نہیں آئے تو یہ سزا اور حدود دوبارہ جاری کی جائیں گی۔ نہیں کہوں گا کہ اس مضمون میں سرقہ کی جنازی کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے، وہ سب کی حد کے دائرہ میں آتے ہیں، بعض میں تعزیر، اور بعض میں پاکستانی قانون کو سزا سے مقرر کیا گیا ہے۔ لیکن اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ چوری اور سرقہ کی قسم کا بھی ہو یہ اللہ کے سامنے اور لوگوں کو برا سمجھنا اس سے اجتناب کرنا ہے۔
