تحریر/مولانا محمد عرفان اللہ اختر
اسلام نے استاذ کو بہت بلند مقام عطا کیا ہے، استاد کی عزت و تکریم اسلامی تر بیت کا ایک اہم حصہ ہے۔ استاد ہونا ایک بڑی نعمت اور عظیم سعادت ہے ۔ استاذ کو بہت زیادہ عظمتوں سے نوازا ہے۔ معلم انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استاذ کی محبوبیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ ” لوگوں کو بھلائی سیکھانے والے پر اللہ، اس کے فرشتے، آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں رحمت بھیجتی اور دعائیں کرتی ہیں۔“ (ترمذی شریف)
رحمۃ للعالمین، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رسالت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلّم کا منصب عطا فرمایا گیا۔ چناںچہ حضور اکرم ؐ نے فرمایا ’’ میں بطور معلّم (استاد) مبعوث کیا گیا ہوں۔“ (ابنِ ماجہ)
مفسر قرآن حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ معارف قرآن کے لیے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر جاتے تو ان کا دروازے پر دستک نہ دیتے بلکہ خاموشی سے ان کے انتظار کرتے حتی کہ وہ اپنے معمول کے مطابق باہر آتے۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ بات گہراں گزری۔ ایک دن کہنے لگے” آپ نے دروازہ کیوں نہ کھٹکھٹایا، تاکہ میں باہر آجاتا اور آپ کو انتظار کی زحمت نہ اٹھانا پڑتی۔“ آپ نے جواب میں فرمایا ” عالم کا اپنی قوم میں مقام ایسا ہی ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام امت میں اور بے شک اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کے بارے میں فرمایا ( اے دروازہ بنوت پر آوازیں لگانے والو) اگر تم صبر کرتے یہاں تک کہ میرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود باہر تشریف لاتے۔ “
اساتذہ کی قدر اور ان کے لیے دعائیں کرنا اپنی ہی کی ترقی کا باعث ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر اپنی حیثیت کے مطابق اپنے اساتذہ کا خیال بھی رکھیں، کیوں کہ یہ وہ ذات ہے کہ جس نے بے غرض ہوکر آپ کو ایک بلند مقام پر پہنچایا ہے۔آپ کاان کے لیے کچھ کرنا، اس عمل کا نعم البدل تو نہیں ہوسکتا، البتہ ان کی دعاؤں کا موجب ضرور بن سکتا ہے۔صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جو مقام حاصل ہے اس کا سبب معلم کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور حد درجہ ادب ہے۔ ان مقدس ہستیوں کی زندگی پڑھ کر اساتذہ کرام کے ادب کا طریقہ بخوبی سیکھا جاسکتا ہے۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔(تعلیم المتعلم)
حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم استاذ سے اتنا ڈرتے اور ان کا اتنا ادب کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں۔ حضرت یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے محدث تھے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ محدثین کا جتنا احترا م وہ کرتے تھے اتنا کرتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو استاد کی قدر نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا۔ (تعلیم المتعلم )
حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’میں ہر نماز کے بعد اپنے استاد اور اپنے والد کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہوں۔ میں نے کبھی بھی اپنے استادِ محترم کے گھر کی طرف اپنے پائوں دراز نہیں کیے، حالاں کہ میرے گھر اور ان کے گھر کے درمیان سات گلیوں کا فاصلہ ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مجلس درس بڑی باوقار ہوا کرتی تھی.تمام طلبہ ادب سے بیٹھتے.حتی کہ ہم لوگ اپنی کتابوں کا ورق بھی آہستہ الٹتے تاکہ کھڑکھڑاہٹ کی آواز بلند نہ ہو.
شیخ العرب و العجم حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا گیا کہ باوجود اتنے بڑے منصب پر فائز ہونے کے اپنے استاد شیخ الھند حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر کا پانی اپنے سر پر اٹھا کر لے جاتے تھے۔ ( آداب المتعلمین)ہر طالب علم کو چاہیے وہ استاذ کی عزت و تکریم کو اپنے اوپر لازم سمجھے،استاذ کے سامنے زیادہ بولنے کے بجائے انکی باتوں کو بغور سماعت فرمائیں.
خاتم النبیین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معلّم کو انسانوں میں بہترین شخصیت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ”تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سیکھائے۔“ (بخاری شریف)
معلمِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جب حضرت جبرائیل امین علم حاصل کرنے بیٹھتے تو باادب اپنےزانو سمیٹ کر بیٹھتے۔حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اس طرح بیٹھتے تھے جیسےسرپر کوئی پرندہ بیٹھاہو۔استاذ کا ان کے دلوں میں یہ مقام تھا۔
استاذ کو معاشرے میں انتہائی اہم رتبہ اور روحانی والد کا درجہ حاصل ہے اوراساتذہ کی عزت و تکریم ہم سب پر واجب ہے۔ دنیا میں انہی قوموں نے ترقی کی بلندیوں کو چھوا ہے جنہوں نے اساتذہ کو عزت و تکریم کی ہے۔