خواب دیکھنا کسے پسند نہیں ہوتا ، رنگوں کو کون ناپسند کر سکتا ہے کہ زندگی نام ہی رنگوں ، خوشبو اور خوابوں کا ہے وہ پورا جہاں اپنے دامن میں سمیٹنا چاہتی تھی سارے رنگ اپنی زندگی میں بکھیرنا چاہتی تھی پھر قدرت نے اسے خوش شکل بھی بنایا تھا خوش رہنے کے لئے یہ وجہ بھی کافی ہوتی ہے کہ لوگ آپ کو پسند کرتے ہیں لیکن اماں اس کی خوبصورتی اور خوش مزاجی دونوں سے جانے کیوں خائف رہتی تھیں
” أَسْتَغْفِرُ اللّٰه أَسْتَغْفِرُ اللّٰه پڑھا کرو لڑکی کتنی بار کہا ہے، کہ اس طرح منہ کھول کے نہ ہنسا کرو“ تابندہ بیگم نے اس کے قہقہے سن کر کہا,
”کیا ہے اماں آپ ہر وقت میری ہنسی کے پیچھے پڑی رہتی ہیں“ ثناء نے منہ بسور کر کہا اور کمرے میں چل دی۔
”کیسے سمجھاؤں اس لڑکی کو“ تابندہ بیگم نےاس کو جاتا دیکھ کر سوچا ۔
اماں بتائیں کیسی لگ رہی ہوں“ ثناء جو کہ اپنے کزن کی شادی پر جانے کے لیے تیار کھڑی تھی، تابندہ بیگم سے پوچھنے لگی۔
”لڑکی کتنی دفعہ کہہ چکی ہوں اس طرح تیار ہو کر باہر مت جایا کرو، بلائیں پیچھے پڑ جاتی ہیں“ تابندہ بیگم نے گبھرا کر کہا۔
”اماں کچھ نہیں ہوتا یہ پرانے زمانے کی باتیں تھیں٬ اب ایسا کچھ نہیں ہوتا، اب جلدی چلیں ہمیں پہلے ہی دیر ہو چکی ہے“ ثناء نے اکتا کر کہا۔
تقریب میں بھی کچھ خواتین نے ستائش اور کچھ نے قدرے حسد سے دیکھا،ثناء لگتی ہی اتنی پیاری تھی کہ جہاں وہ ہوتی وہاں پھر کوئی نہ جچتا ۔
”چلو گھر چلیں“ اماں نے ثناء سے کہاجو کہ اپنی کزنز کے ساتھ باتوں میں مگن بیٹھ تھی ۔
اس نے کچھ کہنے کے کیے لب کھولے„„ مگر تابندہ بیگم نے آنکھوں میں غصہ لیے اٹھنے کا اشارہ کیا۔
”بہت ڈھیل دے دی تمہیں اب میری بات کان کھول کر سن لو، آئندہ تم اس طرح تیار ہو کر کہیں نہیں جاؤ گی، سمجھی“ گھر پہنچتے ہی تابندہ بیگم ایک بار پھر سے غیض و غضب میں آ گئیں۔
”مگر اماں میں نے کیا، کیا ہے“ ثناء نے دکھ سے کہا، جو کہ ابھی تک ششدر کھڑی تھی۔
”بس میں نے کہہ دیا تو کہہ دیا، اب جاؤ جا کہ کپڑے بدلو اور منہ دھو”۔تابندہ بیگم کا غصہ کسی قدر کم نہیں ہو رہا تھا۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا جانے اماں کس چیز سے خوف زدہ تھیں وہ اڑنا چاہتی تھی اور اماں اس کے پر تراش دیتیں ، وہ خواب دیکھنا چاہتی تو اماں کے وسوسے اسے سونے نہیں دیتے باہر قہقہے لگاتی ثناء گھر آکر ایک چلتی پھرتی گڑیا بن جاتی اس کے قہقہے سینے میں کہیں دفن ہو جاتے وہ اکثر سوچتی” یہ زندگی تو نہیں سوچی تھی اس نے “۔
“۔
”کافی دیر ہو گئی ہے، ثناء ابھی تک کمرے سے باہر نہیں آئی، دیکھوں تو“ تابندہ بیگم نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور تسبیح پڑھتے ہوئے ثناء کے کمرے میں گئی۔
مگر کمرے میں پہنچتے ہی تابندہ بیگم کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، آج ان کی برسوں کی کمائی جمع پونجی ایک لمحے میں اجڑ گئی۔ کیسی بےیقینی تھی؟؟؟ ان کا توازن بگڑا اور لڑکھراتے قدموں سے زمین پر پڑی اپنی بیٹی کی لاش کے پاس بیٹھتی چلی گئیں۔
