86

افسانہ/تھیا تھیا/از قلم/انیلہ افضال ایڈووکیٹ

یہی تو کوتاہی تھی۔ میں نے محض عبادات کو رب تک پہنچنے کا راستہ سمجھا۔ میں نے سب سے پہلے اپنی ذات کو سنوارا، میں نے توبہ کر لی تھی۔ جھوٹ ، چغلی، حسد ، جلن اور بغض جیسے قبیح گناہوں سے بچنے کے لیے میں نے لوگوں سے ملنا جلنا ترک کر دیا۔ جب جب کسی سے ملتا، کسی نہ کسی طرح گناہ کا ارتکاب ہو جاتا۔ میں تارک الدنیا ہو گیا، میں نے وظائف کی تعداد بڑھا دی۔ میں نوافل میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے لگا۔ مجھے ثواب تو شاید مل رہا تھا مگر رب تک نہیں پہنچ پا رہا تھا۔ میں فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل بھی ادا کر رہا تھا مگر حقوق سے بیگانہ تھا۔ ماں باپ کے حقوق، بہن بھائی، بیوی بچوں کے حقوق، دوستوں ، عزیزوں ، ہمسائیوں اور رشتہ داروں کے حقوق، اور تو اور میں اپنے وجود کے حقوق بھی ادا نہیں کر رہا تھا۔ میں نے گھر بار چھوڑ دیا، جس معاشرے کا مجھ پر قرض تھا وہ معاشرہ ہی چھوڑ دیا۔ اور یہاں ا گیا۔

وہ ڈھول کی تھاپ پر محو رقص تھا۔ رنگ برنگے کپڑوں کا گھاگھرا نما چولا، گلے میں بڑے بڑے منکوں کی کئی مالائیں، بال، جو نجانے کتنے سالوں سے تراشنا تو دور دھوئے بھی نہیں گئے تھے، اب الجھ کر جٹاؤں کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ پیروں میں گھنگرو اور پیٹ پر ایک بیلٹ کی صورت میں بندھی ہوئی چھوٹی بڑی گھنٹیاں ڈھول کے تھاپ کے ساتھ سر ملا رہے تھے۔ وہ آنکھیں بند کئے رقص کر رہا تھا۔ قریب دو گھنٹے کے بعد جب ڈھول والا ڈھول پیٹ پیٹ کر تھک گیا تو مجنون کا رقص تھما۔ وہ بے حال ہو کر زمین پر گر گیا۔ وہ بے سدھ پڑا تھا۔ لوگ اس کے گرد جمع تھے۔ کوئی اس کے گلے کی مالاؤں کو چھو کر ہاتھ آنکھوں کو لگا رہا تھا، تو کوئی کمر سے بندھی گھنٹیوں میں نروان ڈھونڈھ رہا تھا۔ اس کا سینہ دھنکنی کی طرح پھول اور پچک رہا تھا۔ ذرا سانس بحال ہوئی تو اس نے آنکھیں کھولیں۔ ایک ہجوم کو خود پر جھکا دیکھ کر اس نے ایک چنگھاڑ ماری اور اٹھ کھڑا ہوا۔ دونوں ہاتھ پھیلا کر اپنے پیروں پر گھوم گیا۔ لوگ گھبرا کر پیچھے ہٹ گئے۔ کسی نے کہا سائیں جی کو جلال آ گیا ہے۔ لوگوں میں کھسر پھسر شروع ہو گئی۔
سائیں جی جلال میں ہیں، جو مانگنا ہے مانگ لو، کسی نے کہا۔
سائیں جی! ایک عورت دوپٹے کی جھولی بنا کر آگے بڑھی۔
چلی جا، خبردار جو میرے قریب بھی ائی، ساس کی برائیاں، نند اور دیورانی کی غیبتیں کر کے آجاتی ہیں، دعائیں کروانے۔ جا چلی جا! دعائیں کروائی نہیں جاتیں، دعائیں لی جاتی ہیں۔ جا گھر جا، بازاروں اور مزاروں میں بھٹکنے والیاں کبھی سکھ نہیں پا سکتیں۔ رب کی حکم عدولی کر کے سائیں کے پاس دعا کے لیے آئی ہے۔ جا اپنے سر کے سائیں کو راضی کر، سکھ پا جائے گی۔
    میں بھی اسی مجمعے میں کھڑا یہ سب تماشا دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ یہ سائیں، مجنون اور مجذوب کبھی بھی میری سمجھ میں نہیں آئے تھے۔ میرے خیال میں جتنے بھی نکمے، ناکام اور ڈھونگی ہوتے ہیں وہ پہلے تو نشے کی لت میں مبتلا ہوتے ہیں اور پھر ایسی جگہوں کا رخ کرتے ہیں جہاں وہ اپنے نشے کو سوشل سیکیورٹی فراہم کر سکیں۔ درگاہیں اور مزار ایسے لوگوں کی بہترین پناہ گاہ ہوتے ہیں۔ میں اکثر وقت گزارنے کے لیے ایسی جگہوں پر پھرتا ہوں جہاں طرح طرح کے لوگ اور انواع و اقسام کے رویئے مجھے زندگی کا سبق پڑھاتے ہیں۔ لنگر کا شور اٹھا تو ہجوم لنگر بٹورنے میں لگ گیا۔ کچھ دیر بعد میں نے اسے لنگر کھاتے ہوئے دیکھا۔ وہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے چاول کھا رہا تھا۔ اچانک وہ ہنسنے لگا۔ میں نے دیکھا کہ وہ چاولوں سے نکلی بوٹی کو ہاتھ میں لیے کہہ رہا تھا، تو ایک کمزور چوزہ تھا اس لیے مار دیا گیا، اگر طاقتور ہوتا تو زندہ ہوتا، یہ کہہ کر اس نے بوٹی سے گوشت اتار کر قریب ہی پھرتی ہوئی بلی کو ڈال دیا اور ہڈی دھوپ میں اونگھتے ہوئے کتے کی جانب اچھال دی۔ مجھے اپنی جانب متوجہ پا کر بولا، بانٹ کر کھانا مشکل ہے مگر مزیدار ہے۔ میں نے جواب میں ایک مسکراہٹ اس کی جانب اچھالی۔ وہ مجھے دلچسپ لگنے لگا۔ میں آہستہ آہستہ اس کی جانب بڑھا، اس نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا تو میں اس کے قریب جا بیٹھا۔ اس قسم کے کردار ہمیشہ سے میرے لیے دلچسپی کا باعث تھے۔ اور یہ تو ویسے بھی مزار کے احاطے میں بکھرے ہوئے دوسرے فقیروں سے کچھ مختلف تھا۔ یہ ان کی ٹولی سے دور ہی بیٹھتا، اس کے ہاتھ میں چلم بھی نہ تھی، کچھ تو مختلف تھا جو مجھے اس کے قریب لے گیا تھا۔
    گفتگو کا آغاز کرنے کے لیے میں نے اس کا نام پوچھا، تو آسمان کی جانب منہ کر کے بولا، ماں باپ نے تو نام عدنان رکھا تھا مگر مجھے عبداللہ بننا تھا۔
تھا؟؟؟؟ میں نے استہفامیہ انداز میں پوچھا
ہاں، تھا !!!! مگر میں چوک گیا۔
کیسے؟ میں نے ایک اور سوال کیا۔
رب تک پہنچنے کے لیے رب کے راستے پر چل نکلا، اتنا چلا، اتنا چلا کہ رب کہیں پیچھے چھوٹ گیا۔
رب پیچھے چھوٹ گیا؟؟؟؟ میں کچھ نہ سمجھا
ہاں، جب بندہ رب کے بندوں سے ، خالق کی مخلوق سے دوری اختیار کر لیتا ہے تو رب بھی اس بندے سے دوری اختیار کر لیتا ہے۔
تم نے بندوں سے دوری کیسے اختیار  کی؟ میں نے دلچسپی سے پوچھا
کچھ کیا ہی تو نہیں!!! اس نے تاسف سے کہا
کیا نہیں کیا؟؟ میں نے پھر پوچھا
رب نے جو فرائض مجھے تفویض کئے تھے، ان سب سے کنارا کر لیا۔
یعنی تم نے عبادات میں کوتاہی کی؟
یہی تو کوتاہی تھی۔ میں نے محض عبادات کو رب تک پہنچنے کا راستہ سمجھا۔ میں نے سب سے پہلے اپنی ذات کو سنوارا، میں نے توبہ کر لی تھی۔ جھوٹ ، چغلی، حسد ، جلن اور بغض جیسے قبیح گناہوں سے بچنے کے لیے میں نے لوگوں سے ملنا جلنا ترک کر دیا۔ جب جب کسی سے ملتا، کسی نہ کسی طرح گناہ کا ارتکاب ہو جاتا۔ میں تارک الدنیا ہو گیا، میں نے وظائف کی تعداد بڑھا دی۔ میں نوافل میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے لگا۔ مجھے ثواب تو شاید مل رہا تھا مگر رب تک نہیں پہنچ پا رہا تھا۔ میں فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل بھی ادا کر رہا تھا مگر حقوق سے بیگانہ تھا۔ ماں باپ کے حقوق، بہن بھائی، بیوی بچوں کے حقوق، دوستوں ، عزیزوں ، ہمسائیوں اور رشتہ داروں کے حقوق، اور تو اور میں اپنے وجود کے حقوق بھی ادا نہیں کر رہا تھا۔ میں نے گھر بار چھوڑ دیا، جس معاشرے کا مجھ پر قرض تھا وہ معاشرہ ہی چھوڑ دیا۔ اور یہاں ا گیا۔
کب سے ہو یہاں؟.
پانچ چھ سال تو ہو گئے ہوں گے۔
کیا پایا یہاں؟
سزا !!!
سزا؟
ہاں سزا ! اب یہاں اپنے نفس کو سزا دے رہا ہوں، جس نے مجھے بھٹکا دیا تھا۔ ہائے میرا طور جل گیا! اور میں خالی ہاتھ رہ گیا۔ وہ تڑپ اٹھا۔
یہاں کچھ نہیں ملے گا۔ میں نے دھیرے سے کہا
تو کہاں ملے گا؟
تم راستے سے بھٹک گئے ہو سائیں! خالق تک پہنچنے کا راستہ تو مخلوق سے ہو کر گزرتا ہے۔ تم شاہراہ اعظم کو چھوڑ کر پگڈنڈیوں پر بھٹک رہے ہو۔ بھٹکتے ہی رہوں گے۔ ابھی بھی وقت ہے۔ طور جلا ہے، خالق موجود ہے اور اس تک پہنچنے کی شاہراہ بھی۔
لیکن! لیکن دنیا تو دھوکا ہے،
نہیں! دنیا آزمائش ہے۔ اور تم امتحان سے گزرے بغیر ہی کامیاب ہونا چاہتے ہو۔ دنیا میں جتنی قومیں تباہی و برباد ہوئیں ان میں سے ایک بھی اس وجہ سے برباد نہیں ہوئی کہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے تھے، وظائف یا نوافل نہیں پڑھتے تھے۔ ان کی بربادی وجہ حقوقِ العباد میں کوتاہی تھی۔
سائیں کا سر جھکا ہوا تھا۔ شام ڈھلنے لگی تھی۔ دن کے اجالے نے سرمئی چادر اوڑھ لی تھی۔ ڈھول پر تھاپ پڑی تو سائیں تڑپ کر اٹھا۔ وہ رقص کر رہا تھا۔ دیوانہ وار رقص کر رہا تھا۔ مگر اب اس رقص میں مجنونیت نہیں مجذوبیت تھی۔ کمر سے بندھی گھنٹیوں کو نروان مل گیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں