/تحریر/ عتیق ادریس بٹگرامی
پاکستان میں الیکشن کی آمد کے ساتھ ساتھ سیاسی کھلاڑی “ان ایکشن” ہو جاتے ہیں،الیکشن الیکشن نامی کھیل کھیلنے کے سہارے یا بہانے “سلیکشن “کے منتظر ین کا مسئلہ مگر یہ ہے کہ کچھ طلبگاران اقتدار اپنے ہی پارٹیوں کے لئے “پرفیکٹ”نہ ہونے کی بناء پر”ریجیکٹ”ہو جاتے ہیں،جس کے بعد وہ عوامی اجتماعات کے لئے”ڈائریکٹ “ہوجاتے ہیں،اور بہرصورت “آزاد “امیدوار بن کر اپنی “آزادی “پر کوئی قدغن اور کوئی آنچ نہ آنے دینے کا عزم مصمم کر لیتے ہیں۔
اپنی جماعتوں سے”اعلان بغاوت “یا تو “درجہ عداوت “تک اور بسااوقات “رتبہ شہادت”پر فائز ہونے کا کھلے عام اعلان تو کرنا ہی ہے،مگر کہتے ہیں “رجے پیٹ دی موت بھی چنگی” اس لئے یہ چھوٹے موٹے “امتحانات “ان کے “انتخابات “پر نہ کوئی اثر ڈال سکے ہیں اور نہ ڈال سکتے ہیں ۔
قارئین کرام!!!
جہاں یہ پارٹیاں بذات خود اپنی اپنی “ذات بابرکات “میں ذات پات کے جھگڑوں اور چکروں کی “چکریں “لے رہی ہوتی ہیں وہاں ملک بھر میں بھی انتخابات کے دنوں “حالت جنگ”کا سماں بن جاتا ہے،یوں لگتا ہے کہ ملک پر”ڈاکہ “پڑ رہاہو یا دیس کو لوٹنے “لٹیروں “کا لشکرِ جرار حملہ آور ہو رہا ہو۔
صدر، وزیراعظم سے لیکر ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور تحصیل کمشنر تک کی ساری “مشنری “ڈکیتوں کی راہوں کو بند کرنے اور رکھنے کے لئے پر عزم دکھائی دے رہے ہوتے ہیں۔
اس وطن کے کوچے کوچے کی نکھڑ پر موجود “چور دروازے”بند کرنے کے لئے لاکھوں فوجی اہلکاروں کی خدمات طلب کی جاتی ہے، یہ “فوجی جوان “پہلے مرحلے میں “پرنٹنگ پریسوں “کو سیکورٹی فراہم کرتے ہوتے ہیں تاکہ کوئی “غنڈہ “پریس کو “ایمپریس”کرکے جعلی پیپرز نہ چھاپ سکے۔
اس سلسلے میں ہمارا مفت مشورہ یہ ہوتا ہے کہ فوجی جوان ایک قدم پریس کے باہر تو دوسرا اندر رکھیں تاکہ باہر سے آنے والے “وارداتی”اندر اور اندر والے باہر والوں سے “ہاتھ “نہ کرسکے، اور جوانوں کو اپنا کام دکھانے میں بھی آسانی رہے۔
مزید یہ کہ تمام پولنگ سٹیشنوں کے اندر و باہر بھی پاک فوج کے جوان تعینات ہوجاتے ہیں تاکہ “دھاندلی “کا دھندا بزورِ “ڈنڈا “اپنے من پسندوں کی طرف موڑا جاسکے ۔
عجب ریت اس دیس کی مگر یہ ہے کہ!
جمہوری سیانے ہمیشہ فوج کی سیاست میں انٹری پر” برہم ” بھی ہوتے ہیں اور پھر ان ہی بزرگان کو “مرہم” بھی سمجھتے ہیں، اس لیے ہمارا دل صاحب کہتا ہے کہ جب” سیاست” کی حفاظت ڈنڈے سے کروائی جاتی ہے تو “الیکشن”کے سارے اعمال بھی “ڈنڈے والی “سرکار ہی سے کروائی جائے تاکہ ہار جیت کے “ڈانڈے “کسی اور سے نہ ملائی جاسکے نیز”نہ رہے بانس نہ بجے بانسری”۔
اور یا “انتخابی” نشان ہی الاٹ کیا جائے تا کہ اس گلابی جمہوری تماشے میں “ہم ایک ہیں “
کا نعرہ مستانہ بلند سے بلند تر ہوتا رہے ۔