96

امید ہے مٹی کو بڑی میرے ہنر سے /تحریر/عبید الرحمن اوڈھروال سکول چکوال

*فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں۔ *

*موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں*

جنابِ صدر و حاضرین محترم ! السلام علیکم

۔یومِ آزادی کی مناسبت سے آج میری تقریر کا عنوان ہے : *” امید ہے مٹی کو بڑی میرے ہنر سے “* سامعین محترم ! جس روز سے اس قطعہ ارض کو پاکستان کا نام ملا ہے , اس کی تقدیر ہمارے ہاتھوں سے وابستہ ہو چکی ہے ۔ ہم اچھے ۔ ۔ ۔ تو پاکستان اچھا ۔ ہم برے ۔ ۔ ۔ تو پاکستان برا ۔ ہم کامیاب ۔ ۔ ۔ تو پاکستان کامیاب ۔ ہم ناکام ۔ ۔ ۔ تو پاکستان ناکام ۔ اگر ہم آ گے بڑھتے ہیں ۔ ۔ ۔ تو یہ سرزمین بھی ترقی کرے گی ۔ اور اگر ہم پیچھے ہٹتے ہیں ۔ ۔ ۔ تو پاکستان بھی پیچھے چلا جائے گا ۔ اور اگر خدانخواستہ ۔ ۔ ہم ہمت ہار کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ تو اس پاک سرزمین کا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا ۔ الغرض ہم ۔ ۔ ۔ پاکستان سے ہیں اور پاکستان ۔ ۔ ۔ ہم سے ہے ۔ ہم ہیں ۔ ۔ ۔ تو پاکستان ہے ۔ پاکستان ہے ۔ ۔ ۔ تو ہم ہیں ۔ ہماری عزت ۔ ۔ ۔ پاکستان کی عزت اور ہمارا مقدر ۔ ۔ ۔ پاکستان کا مقدر ہے ۔ ۔ ۔*افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر**ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ* *حاضرین مجلس !* آج وطن عزیز گوناگوں مسائل کا شکار ہے ۔ قوم کی اخلاقیات ۔ ۔ ۔ تباہ ہو چکی ہیں ۔ ہمتیں پست , سوچیں سطحی اور جذبے ماند پڑ چکے ہیں ۔ معیشت ۔ ۔ ۔ حالت نزاع میں ہے ۔ سیاست ۔ ۔ ۔ بے یقینی کا شکار ہے ۔ بدعنوانی اور لاقانونیت ۔ ۔ ۔ ہماری طبیعتِ ثانیہ بن چکی ہے ۔ قومی اتفاق و اتحاد ۔ ۔ ۔ پارہ پارہ ہونے کو ہے ۔ ہم باہم ایک دوسرے کو ہی ۔ ۔ ۔ زیر و زبر کرنے پر تلے ہیں ۔ ہر کوئی ۔ ۔ ایک دوسرے کو ۔ ۔ نیچا دکھانے میں جتا ہے ۔ نہ نگاہ بلند ۔ ۔ ۔ نہ سخن دل نواز ۔ ۔ ۔ نہ جاں پر سوز ۔ ۔ ۔ نہ یقیں محکم ۔ ۔ ۔ نہ عمل پیہم ۔ ۔ ۔ نہ محبت ۔ ۔ ۔ نہ صداقت ۔ ۔ ۔ نہ شرافت ۔ ۔ ۔ نہ عدالت ۔ ۔ ۔ نہ خودی ۔ ۔ ۔ نہ خدا ۔ ۔ ۔ الغرض ہم اقبال کے ہر پیغام کو فراموش کر چکے ہیں ۔*وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا**کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا* *میرے عزیز ہم وطنو !* مگر اقبال کی مانند یہ مٹی بھی ہم سے نا امید نہیں ۔ اسے ہماری صلاحیتوں پر پورا بھروسا ہے ۔ یہ اب بھی ہمارے ہنر سے آس لگائے بیٹھی ہے ۔ اسے یقین ہے کہ ایک دن ضرور ۔ ۔ ہم دوبارہ اٹھیں گے ۔ سستی اور بےعملی کو ۔ ۔ ۔ خیر آباد کہیں گے ۔ ایک پرچم تلے اکٹھے ہونگے ۔ قومی ترجیحات کے سامنے ۔ ۔ ذاتی اغراض کو روند ڈالیں گے ۔ ملکی مفاد کو ۔ ۔ ہر صورت مقدم رکھیں گے ۔ محنت ۔ ۔ ہمارا ہتھیار ہو گی ۔ اخوت ۔ ۔ ہماری پہچاں ہونگی ۔ محبت ۔ ۔ ہماری زباں ہوگی ۔ ہم یقیں کی دولت سے ۔ ۔ ۔ مالا مال ہونگے ۔ وطن کی محبت میں ۔ ۔ ۔ سرشار ہونگے ۔ ایمان اتحاد اور تنظیم ۔ ۔ ہمارے اصول ہونگے ۔ اور ہم اقبال کے ان اشعار کی ۔ ۔ ۔ عملی تصویر ہونگے ۔*تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا**خودی کا رازداں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا**ہوس نے کردیا ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو**اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہو جا**خودی میں ڈوب جا غافل یہ سرِّ زندگانی ہے**نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہو جا*

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں