134

ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا/تحریر/حفیظ چوہدری

حضرت ابو بکر صدیق ؓکی بیٹی حضرت عائشہ صدیقہؓ:۔
والدہ بھی صحابیہ ہیںان کا نام زینب مگر مشہور نام اْم رومان ہے خاندان قریش،والد، صحابہ کے سردار، دادا بھی صحابی، بھائی بھی صحابی،آفتاب نبوت کو طلوع ہوئے چوتھا، پانچواں سال تھا کہ، اس عظیم روح نے پاکیزہ جسم میں آنکھیں کھولیں،گھر میں پہلا سبق’’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کا پڑھا۔ خود بھی پاک،والد بھی پاک اور خاوند کا تو کیا پوچھنا ایسی سعادت کہ جس کی بلندی کا تصور بھی محال لگتا ہے،عرش سے حکم آیا اے نبی کریم ﷺحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمائیں۔ نکاح مکہ مکرمہ میں ہوا اور رخصتی مدینہ منورہ میں 2؁ھ میں ہوئی، اور اٹھارہ سال کی عمر میں پھر اکیلی ہو گئیں کہ،حضر ت آقائے مدنی دنیا سے پردہ فرما گئے۔اللہ تعالیٰ جس پر مہربان ہو تو دنیا کے عام قوانین اْس کے لئے تبدیل ہو جاتے ہیں، اتنے مختصر سے عرصہ میں اتنا اونچا مقام اور اتنا اونچا علم حاصل ہوا کہ بڑے بڑے صاحب علم’’صحابہ کرام ؓ ‘‘ اْن کے درپر علم کی روشنی حاصل کرنے حاضر ہوتے، 57؁ھ میں تریسٹھ سال چند ماہ کی عمر میں دار فانی سے اْس طرف کوچ فرماگئیں جہاں جانے کا اْن کو شدّت سے انتظار تھا،کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا لکھوں اور کیا چھوڑوں؟،وہ احادیث اور روایات جن میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کے فضائل ہیں۔ سبحان اللہ! عجیب دلکش اور ایمان افروز موضوع ہے۔ وہ آزمائشیں اور تکلیفیں جو ہماری مقدس ماں جی نے اپنی زندگی میں دیکھیں. اللہ اکبر، عزم و ہمت اور ایمان کی عجیب داستان ہے،وہ خصوصیات جن میں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا کوئی بھی شریک نہ تھا، یہ ایک روح پرور مستقل موضوع ہے،اور اہل علم نے دل کھول کر اس پر لکھا ہے. وہ نعمتیں جو حضرت عائشہ صدیقہؓ کی برکت سے اْمت مسلمہ کو نصیب ہوئیں۔ یہ بھی ایک مستقل علمی اور روحانی بحث ہے، حضرت امّاں عائشہ صدیقہؓ کا تذکرہ بھی اجر و ثواب اور رحمت کے نزول کا ذریعہ ہے۔حضرات صحابہ کرام ؓ تو ایسے باذوق اور صاحب بصیرت تھے کہ اپنے ’’ہدایا‘‘ سنبھال کر رکھتے کہ اْس دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کریں گے جس دن آپ حضرت عائشہؓ کے گھر پرہوں گے،مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ کو زیادہ خوشی ہو، دو جہانوں کے تاجدار کی انتہائی زیادہ محبت جس اہلیہ کو نصیب ہوئی وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تھیں۔
پھر تو دنیا میں بڑے بڑے ٹھاٹ دیکھے ہوں گے؟،تین تین دن تک گھر میں فاقہ رہتا تھا، اور خیبر کی فتح سے پہلے تو پیٹ بھر کر کھجوریں بھی نہیں ملتی تھیں، ہاں یاد رکھنا! اتنے اونچے مقامات اور فضائل ایسے ہی نہیں مل جاتے،ان مقامات کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور پھر جو خوشی اور شکر کے ساتھ یہ بھاری قیمت ادا کرتے ہیں وہی اصل کامیابی اور اونچے مقامات حاصل کرتے ہیں،آج ہم میں سے کئی اس فکر میں گْھلتے ہیں کہ اْن کے بعد اْن کی بیویاں اور اولاد آرام اور عیش کی زندگی گزاریں، مگر یہاں دیکھیںحضرت آقا مدنی اپنی اہلیہ سیدہ عائشہؓ کو وصیت فرما رہے ہیں۔
’’ اے عائشہ! اگر آخرت میں بھی میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو تو بس دنیا میں اتنا سامان اپنے لئے کافی سمجھنا جتنا ایک سوار کا سفر کے دوران توشہ ہوتا ہے اور مالداروں کی صْحبت سے دور رہنا اور اْس وقت تک اپنا کپڑا استعمال کرتی رہنا جب تک اْس پر پیوند نہ لگ جائیں‘‘(سنن ترمذی)۔
غور کریں نصیحت کون فرما رہے ہیں،اور کس کو فرما رہے ہیں؟، ہائے کاش ہم بھی اس نصیحت کو دل میں بٹھائیں تو’’حْبّ دنیا‘‘کے عذاب سے نجات ملے ،آپ سے پوچھا گیا کہ، لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟. ارشاد فرمایا: عائشہ سے اور اْسی ’’عائشہ‘‘ کو حکم کہ مالداروں کی صحبت سے بچنا، دنیا میں زیادہ سامان جمع نہ کرنا، اور کوئی کپڑا اْس وقت تک نہ چھوڑنا جب تک پیوند نہ لگ جائیں یہ ہے کامیابی، سرفرازی کا راز، اوریہی ہے اصل خیر خواہی اور محبت ہے، غور کریں آج ہمارے ہاں کامیابی کا معیار کیا ہے؟ ۔
اللہ تعالیٰ نے اْمت مسلمہ کو حضرت عائشہ صدیقہؓ کے ذریعے کئی نعمتیں عطاء فرمائیں،آپ کی برکت سے جھوٹا بہتان لگانا ایک ایسا جرم ٹھہرا جس پر حدجاری ہوتی ہے، شکّی مزاج اور بددماغ لوگ جب چاہتے ہیں کسی کی عزت پر انگلی اٹھا لیتے ہیں، مگر اب اْن کے سر پر 80 کوڑوں کی ضرب لٹک رہی ہے. تیمم کا حکم بھی ایک غزوے سے واپسی پر حضرت عائشہ صدیقہؓ کا ہار گم ہوجانے کے واقعہ پر نازل ہوا،اسی طرح اور بہت سی برکات اور نعمتیںہیں۔اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں عائشہؓ کو بہت اونچے، وافر، مفید اور مثمر علوم عطاء فرمائے، آپ تفسیر اور حدیث کے ساتھ ساتھ علم الفرائض یعنی علم میراث میں خاص مہارت رکھتی تھیں،فقہ کے علم میں آپ کا کوئی مدّ مقابل نہیں تھا۔
حضور اقدس ﷺکے اکثر نکاح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد ہوئے مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رسول اللہ سے محبت میں ہر آئے دن اضافہ ہی ہوتا چلا گیا، کیا یہ ممکن ہے؟. بعض نکاح تو خود ان کی سرپرستی میں ہوئے اورانہوں نے اپنی نئی سوکن محترمہ کو اپنے ہاتھوں سے تیار فرمایا،اسے کہتے ہیں محبت اور اسے کہتے ہیں ایمان اور دینداری کہ،اللہ تعالیٰ کے کسی حکم سے دل میں شکایت پیدا نہ ہو،اور نہ ہی اس دنیا کی کسی چیز یا شان کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا جائے،رسول اللہﷺ کے تمام نکاح دین کے لئے تھے، اسلام کے لئے تھے اور اْمتِ مسلمہ کے لئے تھے، جب ان مبارک نکاحوں پر غور کیاجائے تو دل محبت رسول سے روشن ہونے لگتاہے ،ہر نکاح میں دین کا نیا فائدہ،ہر نکاح میں اْمت کا نیا فائدہ شامل ہوتا ہے ، آپ کا نفس مبارک تو اس قدر پاکیزہ اور نورانی تھا کہ آج تک بلکہ قیامت تک جس نفس میں بھی کوئی خیر، روشنی اور پاکیزگی ہے وہ رسول کریم ﷺکے پاکیزہ نفس کے فیض سے آتی ہے.اس لئے اگر کسی بد باطن کے دل میں آپ کے کثرت نکاح پر کوئی سوال آتا ہے تو وہ اْس کے اندر کی اپنی گندگی ہے،سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اْمت میں نکاح عام ہو اور بے حیائی کا ہر دروازہ بند ہو، یہ ایک ایسا فائدہ ہے جو اگر کسی معاشرے کو نصیب ہو جائے تو آسمان والے بھی اس معاشرے کو رشک اور محبت سے دیکھتے ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ بعثت کے چوتھے سال پیدا ہوئیں ، آپ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی صاحبزادی ہیں جو اول المومنین ہیں، اور ان کی والدہ ماجدہ ام رومان بھی اولین مومنات میں سے ہیں، ازواج مطہرات میں سے یہ شرف تنہا انہیں کو حاصل ہے کہ ان کے والدین ان کی پیدائش سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پرایمان قبول کرچکے تھے ۔
حضور علیہ السلام سے نکاح
آپ نے جس طرح حضرت خولہ کوحضرت سودہ ؓ کے بارے میں فرمایا تھا کہ تم ہی میری طرف سے پیام ان تک پنچائو، اس طرح حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں بھی ان ہی کو مامور فرمایا کہ تم ہی ان کے والدین کو میری طرف سے پیام پہنچائو۔ چنانچہ وہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے مکان پر پہنچیں، لیکن اتفاق سے وہ اس وقت موجود نہیں تھے، ان کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہؓ کی والدہ ماجدہ ام رومان موجود تھیں، خولہ نے مبارکباد دیتے ہوئے ان کی بیٹی عائشہ ؓ کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کا ذکر کیا۔ انہوں نے سن کر بڑی خوشی کا اظہار کیا کچھ دیر کے بعد حضرت ابوبکرؓ بھی آگئے۔ حضرت خولہؓ نے ان کے سامنے بھی ان کی بیٹی عائشہ ؓ کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیام کی بات کہی، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا کہ ’’کیا عائشہ کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نکاح ہوسکتا ہے؟‘‘ حالانکہ وہ ان کے بھائی کی بیٹی ہے، حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے یہ بات اس بنیاد پر فرمائی کہ عربوں میں جس طرح پہلے منہ بولے بیٹے کی حیثیت حقیقی بیٹے کی تھی اسی طرح منہ بولے بھائی کی حیثیت حقیقی نسبی بھائی جیسی ہوتی تھی اور اسی طرح اس کی بیٹی سے نکاح کو جائز اور درست نہیں سمجھا جاتا تھا، جس طرح حقیقی نسبی بھتیجی سے نکاح کو درست اور جائز نہیں سمجھا جاتا تھا۔
حضرت خولہؓ نے حضرت ابوبکر ؓکی یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ وہ اسلامی بھائی ہیں،نسبی بھائی نہیں ہیں، اس لیے ان کی بیٹی عائشہ ؓسے میرا نکاح اللہ کی نازل فرمائی ہوئی شریعت میں جائز اور صحیح ہے، اگر بالفرض وہ میرے حقیقی نسبی بھائی ہوتے تو ان کی بیٹی سے نکاح کرنا میرے لیے جائز اور درست نہ ہوگا۔حضرت خولہؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جواب پہنچایا تو فطری طور پر ان کو بڑی خوشی ہوئی، لیکن اس بارے میں ایک رکاوٹ یہ تھی کہ حضرت عائشہؓ کی نسبت بچپن ہی میں جبیرابن مطعم سے ہوچکی تھی اور اس نسبت کو ایک طرح کا معاہدہ سمجھاجاتا تھا، اس لیے انہوں نے اخلاقی طور سے ضروری سمجھا کہ جبیر کے والد مطعم سے بات کر کے ان کو اس کے لیے راضی کرلیں، تاکہ میری طرف سے معاہدہ کی خلاف ورزی اور عہد شکنی نہ ہو، اس بارے میں گفتگو کرنے کے لیے وہ جبیر بن مطعم کے مکان پر پہنچے ،یہاں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ یہ بعثت نبوی کا گیارہواں سال تھا، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی دعوت اسلام، اور اس کو قبول کرنے والوں کے ساتھ کفار مکہ کی دشمنی انتہائی درجہ کو پہنچ چکی تھی حضرت ابوبکرؓ نے مطعم کے مکان پر پہنچ کر اپنی بات شروع کی، اور کہا کہ میری بیٹی عائشہؓ کے بارے میں تمہارا اب کیا خیال ہے؟ اس وقت مطعم کی بیوی قریب ہی بیٹھی ہوئی تھیں، انہوں نے اپنی بیوی کو مخاطب کر کے کہا کہ تم بتائو تمہاری کیا رائے ہے؟ ۔اس نے کہا کہ میں نہیں چاہتی کہ اب وہ بچی عائشہ ہمارے گھر میں آئے، اگر وہ آئے گی تو اس کے ساتھ اسلام کے قدم بھی ہمارے گھر میں آجائیں گے، اور ہم اپنے باپ دادا کے جس دین پر اب تک چل رہے ہیں اس کے نظام میں گڑ بڑ ہوجائے گی۔ مطعم کی بیوی کا یہ جواب سن کر حضرت ابوبکر ؓنے مطعم سے کہا کہ ًتم بتائو تمہارا فیصلہ کیا ہے؟ اس نے کہا تم نے میری بیوی کی بات سن لی میری بھی یہی رائے ہے۔ حضرت ابوبکرؓ مطمئن ہوکر واپس تشریف لائے، اورحضرت خولہؓ سے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلا لائو وہ گئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے اور اسی وقت حضرت عائشہ سے آپ نکاح ہوگیا۔
ازواج مطہرات میں سے صرف انہیں کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ صغر سنی یعنی قریبا 9-10 سال(حضورﷺسے نکاح کے وقت بعض سیرت نگاروں اورمورخین نے حضرت عائشہ ؓ کی عمر اس سے زیادہ بھی بیان کی ہے) کی عمر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت و رفاقت اور تعلیم و تربیت سے مستفید ہوتی رہیں، اسی طرح چند اور سعادتیں بھی تنہا انہیں کے حصہ میں آئیں جن کا وہ خود اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ ذکر فرمایا کرتی تھیں۔ فرماتی تھیںکہ تنہا مجھے ہی یہ شرف نصیب ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد نکاح میں آنے سے پہلے سے ہی آپ کو خواب میں میری صورت دکھلائی گئی اور فرمایا گیا کہ یہ دنیا اور آخرت میں آپ کی ہونے والی زوجہ ہیںاور آپ کی ازواج میں سے تنہا میں ہی ہوں جس کا آپ کی زوجیت میں آنے پہلے کسی دوسرے کے ساتھ یہ تعلق اور رشتہ طے نہیں ہوا، اور تنہا مجھ ہی پر اللہ تعالیٰ کا یہ کرم تھا کہ آپ جب میرے ساتھ ایک لحاف میں آرام فرما ہوتے تو آپ پر وحی آتی، دوسری ازواج میں کسی کو یہ سعادت میسر نہیں ہوئی اور یہ کہ میں ہی آپ کی ازواج میں سے آپ کو سب سے زیادہ محبوب تھی اور اس باپ کی بیٹی ہوں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھے اور یہ شرف بھی آپ کی ازواج میں سے مجھے ہی نصیب ہے کہ میرے والد اور میری والدہ دونوں مہاجر ہیں اور یہ کہ بعض منافقین کی سازش کے نتیجہ میں جب مجھ پر ایک گندی تہمت لگائی گئی تو اللہ تعالیٰ نے میری برائت کے لئے قرآنی آیات نازل فرمائیں جن کی قیامت تک اہل ایمان تلاوت کرتے رہیں گے، اور ان آیات میں مجھے نبی پاک ﷺطیب کی پاک بیوی طیبہ فرمایا گیا، نیز اس سلسلہ کی آخری آیت میں’’ اولٰئک لھم مغفرتہ و رزق کریم‘‘ فرماکر میرے لئے مغفرت اور رزق کریم کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے بیان فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اے عائشہ یہ جبرائیل ہیں جو تم کو سلام کہلوارہے ہیں تو میں نے عرض کیا وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ ان پر بھی سلام ہو اور اللہ کی رحمت ہو۔
جس حجرہ میں دنیا و آخرت کی زوجہ رسول اکرم سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا قیام پذیر تھیں، اس کی لمبائی چوڑائی چند ذرائع پر محیط صرف ایک کمرہ کی صورت میں تھا، دیواریں خام اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے بناکر اوپر گارا لگادیا گیا تھا، چھت بھی کھجور کی شاخوں اور پتوں سے بنائی گئی تھی، بارش سے محفوظ رکھنے کے لئے اس چھت کے اوپر کمبل ڈال دیئے گئے تھے اور دروازے کو پردے کے لئے ایک کمبل سے ڈھانپ دیا گیا تھا اس سے متصل ایک بالا خانہ تھا جسے مشربہ کہتے تھے۔
گھر کا کل اثاثہ ایک چارپائی، ایک چٹائی، ایک بستر، ایک تکیہ جس میں چھال بھری تھی، آٹا اور کھجور رکھنے کے لئے ایک دو برتن، پانی کا ایک برتن اور پانی پینے کے لئے پیالہ سے زیادہ نہ تھا، کئی کئی راتیں گھر میں چراغ نہیں جلتا تھا۔یہ تھا امت مسلمہ کی ماںاورنبی آخرالزماں کی لاڈلی زوجہ سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کا گھرانہ ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں