”سر! بیگم صاحبہ کا فون ہے۔“
”اچھا! بات کراؤ۔“
دوسرے فون کو رکھ کر اشفاق صاحب اپنی بیگم کا فون اٹھاتے ہیں۔
”ہیلو شوقی ڈارلنگ! وہ اباجی کی طبیعت بہت بگڑ گئی ہے ، آپ آفس سے فوراً گھر آجائیں۔“
ایک ہفتے سے آفس جلدی جانے اور رات گئے تک گھر لوٹنے کے چکر میں اباجی سے ملاقات نہیں ہو پا رہی تھی۔ نوکروں سے سرسری سی خیر خبر لے کر وہ اپنی دانست میں مطمئن تھے۔ مگر آج بیگم کی ہنگامی کال پر وہ گھبرا گئے۔
”میں ایک گھنٹے میں پہنچتا ہوں۔“
”شوقی! جلدی آجائیے ، مجھے دس بجے ایک سیمینار میں شرکت کرنی ہے۔ ٹھیک بارہ بجے ایک این جی او کا افتتاح کرنا ہے۔ اس کے بعد ہمارا لنچ ہوگا۔ میں گاڑی لے کر فوراً نکل رہی ہوں برکت بوا اور ریاض ان کے پاس ہیں۔“
ٹریفک جام تھا، آفس سے گھر پہنچتے پہنچتے ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا۔ گھر پر عجیب منظر ان کا منتظر تھا۔ اباجی بستر پر بے ہوش پڑے تھے۔ ہاتھ پاؤں اکڑے ہوئے ، منہ ، ناک اور آنکھوں سے پانی جاری تھا۔ بیچارے تنخواہ دار ملازم بڑے صاحب کی حالت زار پر افسردہ سراپا انتظار کمرے میں ٹہل رہے تھے۔ اشفاق صاحب کو دیکھ کر دونوں کی جان میں جان آئی۔ ”برکت بوا! عباسی کو فون کیا؟“
”جی صاحب! انہوں نے کہا کہ میں کلینک میں مصروف ہوں۔ فرصت ملتے ہی آتا ہوں۔“
اشفاق صاحب نے اپنے فیملی ڈاکٹر عباسی کا نمبر ڈائل کیا اور انہیں تمام مصروفیات ترک کر کے فوراً پہنچنے کی تاکید کی۔ اور پھر ریاض سے بولے: ”اباجی کی طبیعت کب سے خراب ہے؟“
”صبح جب میں نے ناشتے کے لیے بڑے صاحب کو جگایا تو اس وقت ایسے ہی آنکھیں موندے لیٹے ہوئے تھے۔ آپ کا پوچھا، میں نے کہا آپ آفس چلے گئے ہیں۔ اور بیگم صاحبہ؟ میں نے کہا وہ اپنے کمرے میں فون پر بات کرنے میں مصروف ہیں۔“
برکت بوا سے چپ نہ رہا گیا۔ ”صاحب جی! بڑے صاحب تو پانچ چھ روز سے کچھ کھا پی بھی نہیں نہیں رہے تھے میں نے بیگم صاحبہ سے کہا بھی کہ ڈاکٹر صاحب کو بلوا کر دکھا لیں۔ مگر آج کل بیگم صاحبہ بہت زیادہ مصروف ہیں، باہر آنا جانا لگا ہوا ہے۔“
”مجھے کیوں نہیں بتایا؟“
”صاحب جی! پرسوں رات میں نے آپ سے کہا تھا لیکن اس وقت آپ کے دوست احباب آگئے تھے، اور آپ پوری بات سنے بغیر ان کے ساتھ باہر چلے گئے۔“
اشفاق صاحب لاجواب ہو کر چڑچڑے پن سے بولے یہ ڈاکٹر کہاں رہ گیا؟
اسی اثناء میں داخلی دروازے پر دستک ہوئی، ریاض لپک کر دروازہ کی جانب دوڑا۔ ڈاکٹر عباسی ، ریاض کے ہمراہ بڑے صاحب کے کمرے میں داخل ہوئے۔ بے سدھ پڑے اباجی کا اچھی طرح معائنہ کرنے کے بعد ڈاکٹر عباسی بولے: ”زبردست فالج کا حملہ ہوا ہے، تاخیر کے باعث کیس بگڑ گیا ہے فوری طور پر ہسپتال منتقل کرنا ہوگا۔“
اشفاق صاحب کے والد وسیع وعریض کوٹھی کے بڑے کمرے سے بڑے نامی گرامی ہسپتال منتقل ہوگئے۔ سارے بیٹوں کو باپ کے بدن پر فالج گرنے کی اطلاع دے دی گئی۔ پانچ جوان بیٹوں کا باپ سب سے مہنگے ہسپتال کے تمام سہولیات سے آراستہ کمرے میں ڈاکٹرز کے رحم وکرم پر بے یارو مددگار اکیلا تقریباً نیم بےہوشی کی حالت میں پڑا تھا۔ ان کا تمام جسم ماسوائے زبان کے فالج زدہ تھا۔ اس زبان سے بمشکل کبھی اشفاق ، آفاق ، اشتیاق ، نصر اور لاڈلے اسجد کو پکارتے۔ لیکن وہ طوطا چشم فرزند اپنی اپنی زندگیوں میں مست و مگن تھے۔ صرف اشفاق صاحب کو کچھ احساس ذمہ داری تھا کہ ہر دوسرے دن ڈاکٹر سے فون پر خیریت پوچھ لیتے اور یہ کیا احساسِ ذمہ داری نہ تھا کہ دو میل اٹینڈر رکھے ہیں دن رات دیکھ بھال کے لیے۔ اس بات سے قطع نظر کہ بوڑھی ترسی نگاہیں بےچینی سے اپنوں کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ سب کے پاس مصروفیت کے لمبے چوڑے بہانے تھے۔ کسی کو کاروباری سلسلے میں شہر سے باہر جانا تھا۔ کوئی بچوں کے امتحانات کی تیاری میں مصروف تھا۔ کسی کی کوئی میٹنگ اور کسی کے سسرال میں شادی۔ پانچ کڑیل جوانوں کا باپ جس کے مفلوج جسم کا ایک ایک حصہ کان بن کر اپنے بچوں کے قدموں کی آہٹ سننے کے لیے تڑپ رہا تھا۔ مگر بچے باپ کے مشفق سائے سے کوسوں دور اپنا اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔
آخرکار ہسپتال میں منتقل ہونے کے چار دن بعد سب سے چھوٹے لاڈلے بیٹے اسجد کو خیال آیا کہ اباجی ہسپتال میں داخل ہیں۔ سو دفتر سے ہسپتال کا رخ کیا۔
لاڈلے بیٹے کو دیکھ کر فالج زدہ باپ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
”اباجی! آپ کو یہاں کسی قسم کی کوئی تکلیف ہو تو بتائیے، کچھ چاہیے، یہ لوگ آپ کی دیکھ بھال تو ٹھیک کر رہے ہیں نا؟“
”بیٹے! مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ تم آگئے بس یونہی آنکھیں بھر آئیں۔ مجھے چھوڑو یہ بتاؤ دلہن، بچے کیسے ہیں؟“
”اباجی نازنین آتی، مگر اس کی بہن لندن سے آئی ہوئی ہے۔ اسی کی مہمان داری میں مصروف ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اسجد کی زبان لڑکھڑائی تھی بےچارے نے دماغ پر بڑا زور ڈال کر یہ بہانہ تراشا تھا۔
”ایک دو دن میں نازنین کو لے کر آؤں گا۔“ چند ساعت بیٹھنے کے بعد اسجد میاں گھڑی دیکھنے لگے۔ ”اچھا اباجی! چلتا ہوں پھر حاضر ہوں گا۔“ باپ کے کپکپاتے ہونٹ کچھ کہنے کو پھڑپھڑا کر رہ گئے اور کہنے والی زبان سے تیز چلنے والے قدم اپنا کام دکھا گئے۔ اشفاق صاحب اپنے دو بھائیوں آفاق اور اشتیاق کے ساتھ والد سے ملنے آئے۔ چند لمحے ادھر ادھر کی ہانکنے کے بعد واپسی کی راہ پکڑی۔ پھر وہی سناٹا گہری خاموشی۔
بیگم اشفاق اپنی منجھلی دیورانی سے شام کو فون پر کہہ رہی تھیں: ”اباجی کے پاس تین دن سے ہسپتال نہ جا سکی۔ کیا بتاؤں مصروفیت کا عالم۔ سیمینار ، تقریبات نے تو مجھے بالکل دنیا سے بیگانہ کر دیا ہے۔“ دوسری جانب سے دیورانی نے بھی عذر پیش کرنے میں دیر نہ لگائی۔ ”ارے بڑی بھابھی! کیا بتاؤں اپنا حال کچھ اس سے بھی برا ہے۔ کل بہن کی بیٹی کی ڈھولکی تھی۔ صبح ”خواتین کی فلاح و بہبود“ کے جلسے کی صدارت کرنی تھی۔ اب یہ چیزیں بھی ضروری ہیں نا؟ کیا کریں لائف بہت ٹف ہوگئی ہے۔ آج شام نصر کے ساتھ اباجی کو دیکھنے جاؤں۔۔۔ اچھا اللہ حافظ۔“
ایک ہفتے بعد ڈاکٹرز نے ہنگامی کال کی۔ اشفاق صاحب دستیاب تھے سو انہیں بتایا گیا کہ فالج کے باعث ان کے دل گردے پھیپھڑے سب متاثر ہو چکے ہیں۔ آپ کے والد کے لیے یہ 24 گھنٹے بہت بھاری ہیں۔
اشفاق صاحب نے ڈاکٹر کی بات کو سنجیدہ لینے کے بجائے اپنے آئندہ چوبیس گھنٹوں کے شیڈول پر نگاہ دوڑائی اور ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بڑبڑائے: ”اوہ خدایا! کل شام مجھے لاہور کنٹریکٹ پر دستخط کرنے جانا ہے۔“
ڈاکٹرز کی تشویش ناک پیش گوئی کے بعد اشفاق صاحب گھر پہنچے۔ کھانے کی ٹیبل پر اپنی بیگم کو ڈاکٹر کی تشویش بتانے کے بعد اپنے مینجر کو فون کر کے قبر کا بندوست کرنے کا کہہ دیا۔ بھئی آج کل قبرستان میں قبر کے لیے دو گز زمین بھی بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ خیر پیسہ پھینک تماشا دیکھ کے مصداق پیسے سے آپ ہر دنیا کی ہر شے خرید سکتے ہیں۔
چاروں بھائیوں کو مینجر کے ذریعے ٹیلی فون کروا کر مطلع کیا جا چکا تھا۔ کفن تیار کر لیا گیا، قبر کے لیے زمین خرید لی گئی۔ دن گزرا، رات آئی تو قبرستان میں روشنی کے لیے جنریٹر کا انتظام کر دیا گیا۔ ادھر گورکن سمیت کئی لوگ صبح سے رات تک تمام انتظامی امور دیکھ کر حیرت کے سمندر میں غوطے کھا رہے تھے کہ آخر جنازہ ابھی تک کیوں نہیں پہنچا؟
لوگوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ کچھ کا خیال تھا کہ جنازہ بیرون ملک سے آ رہا ہے۔ بہرحال کریدنے پر جو معلومات ملی وہ حیران کن ہی نہیں بلکہ
عبرت ناک تھی۔ کہ جنازہ کہیں باہر سے نہیں آ رہا اور نہ ہی وہ شخص جس کے لیے یہ انتظامات کیے گئے ہیں ”مردہ“ ہے بلکہ ”بقید حیات“ ہے۔ ابھی انتظار کیا جا رہا ہے مرنے کا۔
بیٹوں کی بیگمات کو 24 گھنٹوں کے الٹی میٹم کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنی نہج پر سوچنا شروع کر دیا۔۔ بیگم اشفاق خاندانِ اسحاق کی بڑی بہو تھیں اور تمام انتظامات ان ہی کے شوہر نامدار کر رہے تھے ظاہر ہے آخری روانگی بھی انہی کی کوٹھی سے ہوگی۔ وہ سیدھی مارکیٹ جا پہنچیں۔ نفیس سا سفید براق سوٹ پیس خریدا۔ درزی کے پاس پہنچ کر سوٹ اس کے سپرد کرکے دو تین گھنٹے کے اندر اندر شلوار قمیض سلنے کا آرڈر دیا۔
ہسپتال کے کمرے میں اباجی بستر پر چت لیٹے ہوئے چھت کو تک رہے تھے۔ کمرے میں نرس نے سورۂ رحمٰن کی تلاوت لگا دی۔ قاری کی مسحور کن آواز سن کر وہ بہت بہتر محسوس کر رہے تھے۔
درزی بیگم اشفاق کے کپڑے گھر روانہ کر چکا تھا۔ اور پھر دوپہر سے شام اور شام سے رات گزر گئی۔ انتقال پُر ملال کی خبر سننے کے لیے رواں رواں سراپا کان بنا ہوا تھا ابھی تک کوئی اطلاع نہ تھی۔ جبکہ قبر سے وارڈروب تک کی تیاری ہو چکی تھی۔
ختم شد
