انٹرویو حکیم شاکر فاروقی 53

انٹرویو استاذ حکیم شاکر فاروقی/ مرکزی رہنما اسلامک رائٹرز موومنٹ پاکستان

ادبی دنیا میں ابھرتے ہوئے نام جناب حکیم شاکر فاروقی صاحب سے دلچسپ انٹرویو*

 *محترم و مکرم قارئین! حوصلہ رائٹرز فورم، وقتاً فوقتاً نئے اور ابھرتے ادباء کے تعارف کے لیے ان سے گفتگو کرتا رہتا ہے۔ ہمارے آج کے مہمان جناب محترم عبدالصبور شاکر فاروقی صاحب ہیں۔ آپ کا شمار اسلامک رائٹرزموومنٹ کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ آپ اسلامک رائٹرز موومنٹ پاکستان کے ترجمان رسالے ماہ نامہ پیغام قلم کے چیف ایڈیٹر اور ڈیزائنررہ بھی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف اخبارات “انسانی حقوق نیوز کراچی، جہان قلم اور زاویہ نیوز مانچسٹر” میں ادارت کے فرائض بھی سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ بہ یک وقت مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں اور اپنے ہنر کا لوہا منوا چکے ہیں۔ آپ کا تعلق پاکستان کے مردم خیز علاقے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہے۔ آپ  عالم دین، معلم، گریجویٹ، ڈیزائنر، اسلامی سکالر، طبیب، شاعر اور متعدد کتب کے مصنف بھی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت کم عرصے میں آپ نے شاعری میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے۔ آپ کے متعدد کلام یوٹیوب کے مشہور چینلوں سے نشر ہو چکے ہیں۔ آپ *البیان اکیڈمی آن لائن* کے تحت مختلف کورسز کروارہے ہیں، جن سے استفادہ کرنے والے طلبہ و طالبات تحریر کے میدان میں جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ مثلا کالم نگاری کورس، اعتکاف کورس، علم النحو کورس، وزن شاعری کورس، انٹرویو سیکھیں، کہانی نویسی اور آسان اردو سیکھیے کورس بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ *البیان گرافکس* اور *البیان دواخانہ* کے بھی بانی ہیں۔ 

گزشتہ دنوں ہم نے ان سے چند سوالات پوچھے، جن کا جواب انہوں نے خندہ پیشانی سے دیا۔ ہمیں ان سے سیکھنے کو بہت کچھ ملا اور ان کی زندگی کے کئی پوشیدہ پہلوؤں سے آگاہی بھی ہوئی۔ آپ کسی بھی قسم کے تعارف محتاج نہیں، بلکہ ہمیں ان کے بارے میں لکھنے میں ڈر لگ رہا ہے کہ کوئی جملہ ان کی شان شایان نہ ہوا تو؟؟؟

اب ہم سے زیادہ نہیں لکھا جارہا ان کے بارے میں تو آپ خود ہی پڑھیں اور اپنی قیمتی آراء اور حوصلہ افزائی سے نوازیں… امید ہے کہ آپ کو یہ گفتگو پسند آئے گی۔ اللہ تعالیٰ اس نوجوان ادیب کی عمر، علم اور عمل میں برکت عطا فرمائے آمین۔

ظہیر ملک: سب سے پہلے آپ کا شکریہ کہ آپ نے بندہ کی عزت افزائی کے لئے چنا… بہت بہت شکریہ… ہمارے قارئین آپ کا پورا نام جاننا چاہتے ہیں۔

شاکر فاروقی: یہ نام میرے چھوٹے چچا جان جنہیں ہم پیار سے “چاجی” کہتے ہیں، یعنی قاری جمیل احمد جاذب رحمہ اللہ نے رکھا۔

میرے دادا جان کا نام عبدالغفور تھا، ان کے نام سے جوڑ کر عبدالصبور رکھا گیا۔ شاکر تخلص بھی میرے بچپنے میں انہوں نے ہی رکھا تھا۔ قلمی نام “شاکر فاروقی” میں نے انھی کے مشورے سے رکھا۔ “فاروقی” کا لفظ ہماری کاسٹ “قریشی فاروقی” سے لیا گیا ہے۔

ظہیر ملک: آپ کب پیدا ہوئے اور آپ کا تعلق کس علاقے سے ہے؟

شاکر فاروقی: میری تاریخ پیدائش 15 اگست 1985 ہے۔ ضلع خانیوال کے نواح میں واقع ایک قصبے کچاکھوہ میں پیدا ہوا۔ آبائی علاقہ وہی ہے لیکن اب کافی عرصہ سے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے مضافات میں مقیم ہوں..

ظہیر ملک: اپنے خاندانی پس منظر بارے کچھ بتائیں۔

شاکر فاروقی: میرے والد صاحب کا نام محمد عُزَیر ہے (غلط فہمی کی بنا پر کچھ لوگ عزیز پڑھتے ہیں)

مجھے اپنے والدین کی صحبت نہیں مل سکی، میں بچپن سے ہی اپنے چچا جان کے پاس آ گیا تھا، والد صاحب دنیا سے رخصت ہو گئے۔ باقی ہر بندے کے جذبات اپنے والدین سے جیسے ہوتے ہیں، میرے بھی وہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں پل پل سکون عطا فرمائے آمین۔

ظہیر ملک: ادب سے لگاؤ کیسے پیدا ہوا؟ اور آپ کے ادبی استاذ کون تھے ان کی نصیحت کیا تھی؟

شاکر فاروقی: جیسا کہ میں نے عرض کیا، مجھے ادب سے شغف دلانے میں میرے چچا جان رحمہ اللہ کا بڑا ہاتھ تھا، انہی نے بچپن سے میری انگلی پکڑی اور ادبی راہوں سے متعارف کرایا۔ تعلیم و تربیت، نونہال، پھول، جگنو، ساتھی وغیرہ جیسے بچوں کے رسالوں اور ٹارزن، عمرو عیار، وغیرہ جیسے کرداروں سے متعارف کروایا۔ میں نے بہت چھوٹی عمر میں “دیوتا” پڑھی تھی۔ چچا جان رحمہ اللہ چھوٹی سے چھوٹی تحریر اور کامیابی پر بھی دل کھول کر میری تعریف اور حوصلہ افزائی فرماتے۔ وہ مجھے اکثر نصیحت فرماتے:

“بیٹا! کوئی بھی کامیابی کسی کے کندھوں پر سوار ہو کر حاصل نہ کرنا، بلکہ اسے اپنے زور بازو کے ذریعے کمانا… اس طرح ملنے والی کامیابی تمہیں سچی خوشی دے گی۔”

ان کے بعد استاذ محترم مولانا انور غازی صاحب سے نثر نگاری، بھائی عبدالوہاب سحر قاسمی صاحب اور مولانا اسامہ سرسری صاحب سے شعر کہنا سیکھا۔

ظہیر ملک: آپ اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں ہمارے قارئین کو بتائیں۔

شاکر فاروقی: میں نے درس نظامی کیا ہے۔ عصری تعلیم ایم اے بی ایڈ ہے، فاضل الطب والجراحت کا چار سالہ کورس رازی طبیہ کالج، گوجرہ سے کر رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ “انور غازی اکیڈمی” سے صحافت کورس بھی کیا ہوا ہے۔ کمپیوٹر سکلز میں باقاعدہ کوئی استاد نہیں، البتہ تحصیل کمالیہ کے معروف ڈیزائنر جناب ضیاء ساجد صاحب کو اس معاملے میں رہنما مانتا ہوں۔

ارشاد اکیڈمی سے پروگرام مینجمنٹ کورس بھی کر رکھا ہے۔

ظہیر ملک: اپنے مشاغل اور ذریعہ روزگار کے بارے میں کیا بتانا پسند کریں گے؟

*شاکر فاروقی: میرا ذریعہ روزگار تدریس، گرافکس ڈیزائننگ اور طب ہیں۔ فیس بک پر میرا ایک پیج Shakir online designing shop کے نام سے موجود ہے۔ لیکن سٹرایکس کی بنا پر اب وہ میری دسترس میں نہیں ہے۔ اب Hakeem Shakir Farooqi کے نام سے سوشل میڈیا پر موجود ہوں۔ اسی نام سے تمام ایکٹیویٹیز سرانجام دیتا ہوں۔

ظہیر ملک: اعلی کار کردگی پر ملنے والے ایورڈز و اسناد کے بارے میں کہتے ہیں..

شاکر فاروقی: مجھے ایوارڈ لینے کا شوق بالکل بھی نہیں ہے… کیوں کہ اصل چیز کام ہے۔ اگر کام کرنا نہیں آتا اور گھر میں ایوارڈز کی منڈی لگی ہوئی ہے تو کیا فائدہ؟ اگر کام آتا ہے تو بغیر کسی ایوارڈ کے بھی دنیا ہمیں یاد رکھے گی۔ چنانچہ دوست تقریبات میں بلاتے ہیں، لیکن تنہائی پسند طبیعت اور تدریسی مصروفیات سفر کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے اکثر معذرت کر لیتا ہوں۔ اس کے با وجود اسلامک رائٹرز موومنٹ پاکستان کی جانب سے “ابوالحسن علی ندوی ایوارڈ” اور “خدمات ادب ایوارڈ” سے نوازا گیا ہے۔ اس کے علاوہ “اردو ڈائجسٹ” اور اسلام آباد کی ایک سرکاری تنظیم کی جانب سے “اعزازی اسناد” بھی دی گئی ہیں۔

ظہیر ملک: آپ کو ادبی زندگی کی پہلی خوشی کب ملی اس بارے میں کہتے ہیں؟

شاکر فاروقی: مجھے سب سے زیادہ خوشی تب ملی تھی، جب میں دوسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ پندرہ سکولز کے مابین مضمون نگاری کا مقابلہ منعقد ہوا تھا… مجھے اعزازی انعام کے طور پر کچی پنسل دی گئی تھی۔ اسے پا کر مجھے یوں لگا تھا جیسے میں نے ہفت اقلیم کی دولت حاصل کر لی ہو۔

اس کے علاوہ پانچویں جماعت میں میں نے اٹک کی جانب ایک سفر کیا تھا، میں نے اسے سفرنامے کی صورت میں کاغذ پر اتارا تھا، میرے ایک رشتہ دار (جو اب ماشاء اللہ میرے بچوں کے ماموں ہیں) نے اسے پڑھ کر تحفے میں روشنائی والا سام سنگ پین دیا تھا۔ وہ آج بھی میری یادوں کا حسین حصہ ہے۔ وہ پین میرے پاس کئی سال رہا، پھر چوری ہو گیا۔ جس کا مجھے آج بھی قلق ہے۔ سنہری رنگ کے اس پین سے میں نے بلاشبہ سینکڑوں صفحات لکھے۔ کاش! مجھے وہ پین پھر سے ڈھونڈ کر لا دے۔

ظہیر ملک: آپ کو کس طرح کی تحریریں پسند ہیں اس بارے میں کہتے ہیں؟

شاکر فاروقی: مجھے ہر اچھی تحریر اچھی لگتی ہے، خواہ کسی موضوع پر ہو۔ شاید اسی لیے مجھے ہر طرح کے حلقے میں پسند کیا جاتا ہے۔ باقی زیادہ تر مجھے وہ تحریریں اچھی لگتی ہیں جن میں زندگی کے تجربات بیان کیے گئے ہوں جیسے سفرنامے، آپ بیتیاں، انٹرویو اور رپورتاژ وغیرہ۔

ظہیر ملک: آپ کے پسندیدہ موضوعات کیا ہیں؟

شاکر فاروقی: مجھے مسلمانوں کے زوال پر عموماً اور اہل پاکستان کی حرکات پر خصوصاً بہت تنگ دلی محسوس ہوتی ہے۔ میں چاہتا ہوں ہم سچے مسلمان اور پاکستانی بن جائیں تو وطن عزیز کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ اخلاق، اعمال اور قائد کے فرمان “ایمان، اتحاد اور تنظیم” مجھے ان موضوعات پر لکھنے کی شدید خواہش ہے، لیکن اب تک نہیں لکھ سکا۔ اسی طرح اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے وطن عزیز میں الحاد اور مغرب پرستی کا زور دیکھتا ہوں تو شدید قلق ہوتا ہے لیکن اس پر بھی ابھی تک نہیں لکھ سکا۔ اس پر نہ لکھ سکنے کی وجہ کچھ معروضی حالات ہیں۔

ظہیر ملک: محترم شاکر صاحب! آپ اپنے دوستوں کے بارے میں کہتے ہیں؟

شاکر فاروقی: میری تنہائی پسندی کی وجہ سے میرے دوست بہت کم ہیں…

پھر بھی ہر شعبے میں الگ سے دوست ہیں۔ مثلاً ادب میں حفیظ چوہدری صاحب، اسامہ قاسم صاحب، عنصر عثمانی صاحب اور امداد اللہ طیب صاحب جگری یار ہیں۔

بچپن کا کوئی دوست میرے رابطے میں نہیں ہے۔ جسے لنگوٹیا کہا جا سکے۔ البتہ ہائی سکول لائف کے تین چار دوستوں سے رابطہ ہے۔

یہ نہیں کہ مجھے دوستی کرنی یا نبھانی نہیں آتی، الحمد للہ! اللہ تعالیٰ نے مجھے اس میدان میں خوش قسمت بنایا ہے، بلکہ ایک دو دوستوں کی وجہ سے کچھ آزمائشوں کا شکار بھی رہا لیکن جواب میں بے وفائی کے سوا کچھ نہیں ملا۔

شاید اسی لیے اب مزاج بدل گیا ہے، اب دوستی ایک حد تک اچھی لگتی ہے۔

ظہیر ملک: شاکر صاحب! آپ کی ازدواجی زندگی شروع ہوچکی ہے، تو اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ ہمارے قارئین آپ کی زندگی کے یادگار واقعات سننا چاہتے ہیں۔

شاکر فاروقی: الحمدللہ! شادی شدہ ہوں، تین بچیاں اور ایک بچہ بھی ہے۔ شادی کی تاریخ دلچسپ ہے، یعنی 10 10 10، دس اکتوبر سن دو ہزار دس…

الحمد للہ ہماری آج تک لڑائی نہیں ہوئی (ہلکی پھلکی چپقلش تو ویسے بھی پیار بڑھاتی ہے)

بیگم صاحبہ سے مکمل ہم آہنگی ہے۔ یہ ہم آہنگی خود بخود پیدا نہیں ہوتی، اس کے لیے شروع سے ہی گائیڈ لائن دینی پڑتی ہے۔ دوسرے فریق کے جذبات و خیالات اور پسند و ناپسند کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایثار کا جذبہ نہ ہو تب بھی یہ رشتہ کچے دھاگے کی طرح ہر وقت ٹوٹنے کے خدشے سے دوچار رہتا ہے۔ کنوارے لوگ شادی کو محض کھیل تماشا سمجھتے ہیں جب کہ درحقیقت یہ ایک اضافی ذمہ داری ہوتی ہے، جسے نبھانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اس رشتے کو نبھانا بھی باقاعدہ سیکھنا پڑتا ہے… اب یہ والدین پر ہے کہ وہ اپنے بچوں کو شادی سے پہلے سکھا دیں یا پھر بچوں کو خود شادی کے بعد سیکھنا پڑے۔

*ظہیر ملک:* *آپ کی شادی کا کوئی دلچسپ واقعہ؟*

شاکر فاروقی: یوں تو بے شمار واقعات ہیں لیکن پہلا واقعہ پہلے دن ہی پیش آ گیا۔ جب ہم بارات لے کر گھر آئے تو گھر کی خواتین مہمانوں میں مصروف ہو گئیں، رشتہ دار خواتین دلہن کے پاس بیٹھ گئیں… کرتے کراتے رات کے گیارہ بج گئے اور سب لوگ اپنے اپنے بستر پر جانے لگے۔ ابھی تک کسی نے دلہا دلہن سے کھانے کا نہ پوچھا تھا۔ حتی کہ ہمیں انتظار کرتے کرتے رات کا ایک بج گیا۔ میں باہر نکلا تو اکثر لوگ یا تو سو گئے تھے یا سونے کی تیاری میں تھے۔ میں نے باجی کو بلا کر پوچھا کہ ہمیں ابھی تک کھانا کیوں نہیں ملا؟ وہ حیرانی سے منہ کھولے کھڑی کی کھڑی رہ گئیں، سارے گھر میں ڈھنڈیا پڑ گئی۔ کھانا ختم ہو چکا تھا. لہٰذا ہم نے سالن کی بجائے اچار سے روٹی کھائی۔

اس کے بعد کئی بار ہمیں اچار سے روٹی کھانی پڑی لیکن الحمد للہ بیگم صاحبہ نے کبھی گلہ نہیں کیا۔

ظہیر ملک: اپنی ادبی تخلیقات کے بارے میں کچھ بتائیں؟

شاکر فاروقی: میری چار کتب شائع ہو چکی ہیں۔  جب کہ مضامین ایک ہزار سے زائد….. تین سو سے زائد اخبارات و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ چند ایک کتب زیر تالیف ہیں۔ کچھ طبع بھی ہو چکی ہیں، چند ایک کے نام درج ذیل ہیں:

📌 غفلت، اسباب و علاج

📌 قوانین علم صرف

📌 میت کے لیے مسنون دعائیں

📌 نشان منزل 1 (کالموں کا مجموعہ)

📌 سفرنامہ حج (زیر ترتیب)

📌 30 قرآنی قصے

ظہیر ملک: اپنی پسندیدہ کتب اور مصنفین کے بارے میں بھی کچھ بتائیں۔

شاکر فاروقی: دس کا عدد شمار کرنا مشکل ہے کیونکہ مجھے ہر فن کی چار پانچ کتب کم از کم ضرور پسند ہیں۔

پھر بھی اہم ترین!

مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا آسان ترجمہ قرآن، 

سید مناظر احسن گیلانی کی “امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی”

ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی تاریخ دعوت و عزیمت، انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کے اثرات اور “پا جا سراغ زندگی”

ڈاکٹر عبدالحی عارفی رحمہ اللہ کی اسوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم 

مفتی محمد احمد کی تعارف تہذیب مغرب اور فلسفہ جدید

پیر ذوالفقار نقشبندی صاحب کی “لاہور سے تا خاک بخارا و سمرقند”

زاہد صدیق مغل کی مقالات تفہیم مغرب 

اشفاق احمد کی زاویہ

واصف علی واصف کی قطرہ قطرہ قلزم

ممتاز مفتی کی لبیک

قدرت اللہ شہاب کی شہاب نامہ

انور غازی صاحب کی صحافت ایسے سیکھیں

ابن جوزی کی ذم الہوی (اس کا اردو ترجمہ مل جاتا ہے۔

محی الدین نواب کی دیوتا

سلیمان منصور پوری صاحب کی رحمۃ للعالمین

اے حمید اور اشتیاق احمد کے سارے ناول

عبدالماجد دریا بادی اور شیخ زکریا رحمہ اللہ کی آپ بیتیاں 

شبلی نعمانی کی الفاروق 

وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ

ظہیر ملک: ہمارے قارئین کرام کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

شاکر فاروقی: جو بھی پڑھیں، دل سے پڑھیں… وقت گزاری یا ذہنی تفریح کے لیے پڑھنے کا فائدہ بہت کم ہوتا ہے…

نیز ہر کتاب مت پڑھیں… پڑھنے سے پہلے ایک مرشد بنائیں، پھر سب اسی کے مشورے سے پڑھیں… اس طرح آپ کا بہت سارا وقت ضائع ہونے سے بچ جائے گا اور فکری آلودگی بھی پیدا نہیں ہوگی۔

اور جو لکھیں اس کا خلاصہ اپنے الفاظ میں کہیں ضرور محفوظ کریں تاکہ بوقت ضرورت کام آئے… آج کل حافظے کمزور ہونے کی وجہ سے ذہن سے تحریر محو ہو جاتی ہے

ظہیر ملک: ماشاءاللہ آپ کی ادبی زندگی بہت وسیع ہے تو اس زندگی میں پیش آنے والا کوئی واقعہ؟

شاکر فاروقی: کئی  دلچسپ واقعات پیش آئے

نمبر 1، حفیظ چوہدری صاحب سے دوستی۔۔۔

نمبر 2، اردو ڈائجسٹ کے انعامی مقابلہ میں میری آپ بیتی کا نہ صرف شامل ہونا بلکہ پہلے نمبر آنا… میرے لیے حیرت و استعجاب سے کم نہیں تھا… میں اپنے آپ کو اس قابل ہی نہیں سمجھتا تھا کہ مقابلے میں حصّہ لوں، چہ جائیکہ اول انعام… اس کا کریڈٹ میرے برادر نسبتی سمیع اللہ حامد صاحب اور عنصر عثمانی صاحب کو جاتا ہے جنہوں نے مجھے حصہ لینے پر مجبور کیا۔

میں نے تحریر لکھ کر رکھ لی اور شرم کی وجہ سے کسی کو دکھائی ہی نہیں۔ عنصر بھائی نے مجھے غصے بھرا فون کیا اور خوب ڈانٹا کہ آپ کیوں اپنے آپ کو ہلکا سمجھتے ہیں؟ نکمے نکمے لوگ ادب کے ٹھیکے دار بنے ہوئے ہیں اور آپ جیسے بلاوجہ کی شرم کا تمغہ سینے پر سجائے گھروں میں دبکے ہوئے ہیں… اتنی ڈانٹ (پیار بھری) سن کر مجھ میں حوصلہ پیدا ہوا۔

دوسرا واقعہ ایک کہانی کا ہے… میں نے ایک انعامی مقابلہ کے لیے لکھی۔ دو ماہ بعد جواب ملا کہ آپ کی کہانی انتہائی ناقص ہے، لہٰذا مزید محنت کر کے دوبارہ لکھیں اور اگلے مقابلے میں حصہ لیں۔

میرا دل ٹوٹ گیا۔ کچھ عرصہ بعد میں ایک موضوع پر گوگل سرچ کر رہا تھا تو ایک تحریر سامنے آئی جس کے الفاظ مجھے مانوس سے لگے۔ میں نے وہ لنک کھول لیا… دیکھا تو حیران رہ گیا… وہ کہانی تھی اور میری ہی تھی… مصنف کے طور پر بھی میرا ہی نام لکھا ہوا تھا… البتہ عنوان اور اختتامیہ میں تبدیلی تھی۔ مجھے آج تک سمجھ نہ آ سکا کہ وہ ناقص کہانی کیسے ویب سائٹ تک پہنچی؟ البتہ یہ شکر کرتا ہوں کہ اسے میری ہی ملکیت رہنے دیا گیا…

ظہیر ملک: پہلی تحریر شائع ہونے پر کیا مشکلات پیش آئیں؟

شاکر فاروقی: الحمد للہ میری کوئی تحریر آج تک ریجیکٹ نہیں ہوئی… الا یہ کہ رسالے یا اخبار کی پالیسی سے ہٹ کر لکھی گئی ہو… ایک بار میں نے ایک کہانی لکھی “آزاد سنگھ” یہ کہانی 14 اگست کے پس منظر میں تھی۔ میں نے پھول میں بھیجی تو انہوں نے کہا، واقعات کا تانا بانا حقیقی دنیا سے تعلق نہیں رکھتا… پھر نونہال میں بھیجی تو مسعود برکاتی مرحوم کا محبت بھرا فون آیا کہ “بیٹا! کہانی بہت اچھی ہے، کہیں بھی جھول نہیں لیکن یہ بچوں کے رسائل کے لائق نہیں… اس لیے کسی بڑے ادبی رسالے میں بھیجو، فورا لگ جائے گی… پھر میں نے” بچوں کا اشتیاق “میں بھیجی تو عظمی عروج عباسی صاحبہ نے نہ صرف اسے شائع کیا بلکہ علی اکمل تصور صاحب کی تنظیم نے اسے انعام بھی دیا۔ بعد میں یہی کہانی میں نے “دلیل ڈاٹ پی کے” اور ایک دو دیگر سائٹس پر بھی دیکھی ہے۔ جو الحمد للہ میرے ہی نام سے ہے، 

ظہیر ملک: حوصلہ رائٹرز فورم کے بارے میں شاکر فاروقی صاحب کیا کہتے ہیں؟

شاکر فاروقی: بھائی یسین صدیق صاحب سے سوشل میڈیا پر آتے ہی یاد اللہ ہو گئی، انوکھی کہانیاں میں ان کی کہانیاں شائع ہوتیں تو شوق سے پڑھتا… جب انہوں نے حوصلہ کا سنگ بنیاد رکھا تو مجھے بھی شرکت کی دعوت دی… میں نے بہت جگہ اپنی ٹانگیں پھنسائی ہوئی ہیں جن کی وجہ سے معذرت کر لی… اگرچہ حوصلہ کے ترجمان ماہ نامہ کا پہلا ٹائٹل میں نے ہی بنایا تھا لیکن نجانے کیوں ریجیکٹ کر دیا گیا؟

اب افسوس ہوتا ہے کہ اس وقت باقی مصروفیات ذرا کم کر کے شامل ہو جاتا تو نہ صرف بانیان حوصلہ میں شمار ہوتا بلکہ سیکھنے کو بھی بہت کچھ مل جاتا… اگرچہ یہ موقع اب بھی ہے لیکن اسلامک رائٹرز موومنٹ پاکستان کے ترجمان ماہ نامہ پیغام قلم کی مصروفیت ہلنے نہیں دیتی۔

بہرحال اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حوصلہ رائٹرز کو مزید کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے… یہ واحد تنظیم ہے جو سوشل میڈیا پر اپنے ممبران کو مصروف رکھتی ہے ورنہ کھمبیوں کی طرح اگی ادبی تنظیمیں گفتند، نشستند، برخاستند اور فوٹو سیشن کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ تنظیم پر دو تین لوگوں کی اجارہ داری ہوتی ہے اور بسسس… جب کہ حوصلہ میں ماشاء اللہ بہت سے حضرات و خواتین احسن طریقے سے مصروف عمل ہیں اللھم زد فزد…

ظہیر ملک: آپ کی باتیں سن کر معلومات میں بہت سا اضافہ ہوا۔ ہمیں وقت دینے کا شکریہ 

شاکر فاروقی: آپ کا بھی بہت بہت شکریہ۔ فی امان اللہ۔

*انٹرویو کا وقت اشاعت 2018*

لکھو کے ساتھ لکھو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں