100

انیسویں صدی کا سخن ور/تحریر/انیلہ افضال ایڈووکیٹ

اگر یہ کہا جائے کہ انیسویں صدی غالب کی صدی تھی تو بے جا نہ ہو گا۔ کسے خبر تھی کہ 27 دسمبر 1797ء کو مرزا عبداللہ بیگ اور عزت النساء بیگم کے ہاں صرف ایک بیٹے کی پیدائش نہیں ہوئی تھی بلکہ اس دن، اس پل، اس گھڑی میں ایک تاریخ نے جنم لیا تھا۔ 72 سال کی حیات پانے والا یہ بچہ آنے والے وقتوں میں صدیوں تک بے مثال ہونے والا تھا۔ نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ مرزا کے آباء و اجداد میں مرزا کے دادا مرزا قُوقان بیگ سمرقند سے ہجرت کرکے مغل شہنشاہ احمد شاہ بہادر کے عہدِ حکومت میں غالباً 1748ء یا 1750ء میں مغلیہ سلطنت میں آ کر آباد ہوئے۔ یہ خاندان حسب و نسب کے اعتبار سے ترک مغل تھا اور تورانی النسل ہونے کے ساتھ ساتھ سمرقند میں آباد ہونے سے اِنہیں سمرقندی ترک بھی سمجھا جاتا تھا۔ غالب کے والد مرزا عبد اللہ بیگ خان ریاست الور میں ملازم تھے اور وہاں 1802ء میں راج گڑھ کے مقام پر ایک جھڑپ میں قتل ہوئے۔ والد کے انتقال کے بعد مرزا غالب اپنے چچا نصر اللہ بیگ کی کفالت میں آگئے۔ 1806ء میں نصر اللہ بیگ کے انتقال کے بعد مرزا اپنے بھائی اور دادی سمیت سرکار کی کفالت میں آ گئے اور سرکار نے 1000 روپے وظیفہ مقرر کر دیا جسے بعد ازاں گھٹا کر 500 روپے کر دیا گیا۔
غالب کی شعرگوئی کا آغاز غالباً 1807ء سے ہوا اور اولین تخلص اسد تھا لیکن بعد ازاں اُنہوں نے ایک اور شاعر میر اَمانی اسد سے کلام کی مشابہت کے بعد اپنا تخلص غالب اختیار کر لیا تاہم شاعری میں کبھی کبھی اسد بطور تخلص کے ملتا ہے۔ 1816ء سے غالب بطور تخلص کے استعمال کرنا شروع کیا جو تا وقت آخر جاری رہا۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔ غالب اردو اور فارسی، ہر دو زبانوں میں شعر کہتے تھے؛ اور نہ صرف شعر کہتے تھے بلکہ وہ ان دونوں زبانوں کے عظیم شاعر تھے۔ غالب کی شاعری نہ صرف اپنے دور کی تہذیبی تاریخ کی ضامن ہے بلکہ اس دور کی روشنی میں امکانات کے نئے دریچے بھی کھولتی ہے۔ غالب نے انیسویں صدی کے تاریخی انقلابات اور سماجی اقدار کی پامالی کا ماتم کرتے ہوئے کہا:
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
ان کی شخصیت کا سب سے روشن پہلو یہ تھا کہ وہ خلق خدا کو صرف انسان کی نظر سے دیکھتے تھے۔ حالات کا ماتم ضرور کرتے تھے لیکن زندگی سے مایوسی کبھی اختیار نہیں کی اور مستقبل پر نظریں جمائے بہتر سے بہتر امکانات کی طرف آگے بڑھنے کی تحریک دیتے ہیں۔ غالب کی شاعری کی بہترین جھلک ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کی شاعری میں نظر آتی ہے۔ غالب کے بارے میں عبادت بریلوی لکھتے ہیں، ”غالب زبان اور لہجے کے چابک دست فنکار ہیں۔ اردو روزمرہ اور محاورے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس کی سادگی دل میں اتر جاتی ہے۔“
عبد الرحمان بجنوری لکھتے ہیں کہ، ”ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ”وید مقدس“ اور ”دیوان غالب“
غالب کی شاعری کی ایک نمایاں خصوصیت ان کا منطقی اور استدلالی انداز بیان ہے۔ اس کی ایک وجہ غالب کا فلسفیانہ مزاج ہے۔ جبکہ دوسری وجہ غالب کا ماحول ہے۔ غالب نے جس دَور میں آنکھ کھولی وہ ایک ہنگامی دور تھا۔ ایک طرف پرانی تہذیب مٹ رہی تھی اور اس کی جگہ جدید تہذیب اور تعلیم اپنی جڑیں مضبوط کر رہی تھی۔ یوں انتشار اور آویزش کے اس دور میں اُن کی شاعری کو مزید نکھار دیا۔ غالب کی شاعری میں نکتہ آفرینی پائی جاتی ہے غالب عام روش سے ہٹ کر چلنا پسند کرتے تھے۔ یہی حال ان کی شاعری کا ہے۔ وہ لفظی کی بجائے معنوی اعتبار سے الفاظ کا چناؤ کرتے تھے۔
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
غالب کو فارسی زبان پر بڑا عبور حاصل تھا۔ اس لیے ان کی شاعری میں فارسی زبان کے اثرات زیادہ ہیں۔ خود فارسی شاعری کے بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ اور فارسی کو اردو سے زیادہ اہمیت دیتے تھے؛ لیکن سیدھے سادے اور ہلکے پھلکے مضامین کو غالب نے فارسی کا سہار ا لیے بغیر رواں دواں اور سلیس اردو میں پیش کیا ہے۔
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

غالب جتنی اچھی شاعری کرتے تھے اتنی ہی شاندار نثر بھی لکھتے تھے۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر نگاری کو بھی ایک نیا اسلوب دیا۔ غالب نے خطوط اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ بقول غالب، انہوں نے مراسلے کو مکالمے کا روپ دے دیا۔ وہ بڑے ہلکے پھلکے انداز میں گہری سے گہری بات کر دیتے تھے۔ ان کے عزیز ترین شاگردوں میں منشی ہرگوپال تفتہ کا نام بھی شامل ہے۔ اپنے ایک خط میں ان کو لکھتے ہیں:

’’11 مئی 1857 کو چند گورے چھت سے چھلانگ لگا کر میرے گھر میں اترے۔ مجھے، میرے بچوں اور چند نیک کردار پڑوسیوں کو پکڑ کر کرنل براؤن کے سامنے لے چلے۔ راستے میں پوچھا مسلمان ہو؟ میں نے کہا آدھا مسلمان! پوچھا- آدھا مسلمان کیسا؟ میں نے کہا شراب پیتا ہوں، سور نہیں کھاتا۔‘‘
1857ء کے انقلابی جذبے کے تحت انھوں نے انگریزوں کی طرف سے ڈھائے گئے مظالم کی تصویر کشی کرتے ہوئے اپنی نثر کے ذریعے بھی خوں ریزی اور بربریت کا ماتم کیا اور کہا کہ:
’’ہائے اتنے یار مرے کہ اب جو میں مروں گا تو میرا رونے والا بھی نہیں ہوگا۔ بچھڑے ہوئے قیامت کو ملیں سو ملیں۔ سو، وہاں کیا خاک ملیں گے، شیعہ الگ، سنی الگ، نیک جدا، بد جدا!‘‘
بقول عبادت بریلوی، “غالب ایک بڑی رنگین, ایک بڑی ہی پر کار اور پہلو دار شخصیت رکھتے تھے اور اس رنگینی، پر کاری اور پہلو داری کی جھلک ان کی ایک ایک بات میں نظرآتی ہے۔“
جبکہ رشید احمد صدیقی فرماتے ہیں کہ، ”مجھ سے اگر پوچھا جائے کہ ہندوستان کو مغلیہ سلطنت نے کیا دیا۔ تو میں بے تکلف یہ تین نا م لوں گا غالب اردو اور تاج محل۔“

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں