117

ایک عام پاکستانی کی کہانی/تحریر/رانا عدنان شریف

تحریر/رانا عدنان شریف

یہ کہانی میری، آپ کی اور ہر اُس ایک عام پاکستانی کی ہے جو چیخ چیخ کر اپنی محرومیوں کا اظہار کر رہی ہے۔یہ کہانی ہے ہر اُس انسان کی جو سماجی بدحالی، معاشی ابتری،کم مرتبہ ،کم حیثیت اور دہری تحقیر کی وجہ سے سماج سے دھتکارا گیا۔کہتا ہے میرا تعلق کسی امیر گھرانے سے نہیں۔نہ کوئی سیاستدان، نہ سرمایہ دار،نہ تاجر،نہ صنعتکار اور نہ ہی بیوروکریٹ۔بلکہ میرے یا میرے خاندان میں ان سے ملنے والا کوئی نہیں ۔ میں تو انتہائی پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے بہت سے مسائل ہیں۔ پہلا اور سب سے بڑا مسئلہ میری شناخت ہے۔ اور میرا مذہب اسلام ہے مگر میں جن رسم ورواج کا پابند ہوں وہ ہندووانہ ہیں۔ میرے اوپر تو تہذیب و تمدن کے صحیح حقیقت کبھی آشکار ہی نہیں ہوئی۔میں اَن پڑھ نا سمجھ اور جاھل ہوں،حتی کے میرا دین کہتا ہے کہ علم کا حصول بہت بڑی فضیلت ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہمارا ملک نظریہ کی بنیاد ہے لیکن اس نظریہ کا کیا فائدہ جس کا نفاذ نہ ہو سکے۔معاشرتی، سیاسی، سماجی انصاف کا خواب میرے لیے ابھی تک خواب ہی ہیں۔
میرے ملک کو آزاد ہوئے کئ عرصے بیت گئے لیکن ہم آج تک انصاف سے محروم ہے ۔میں ابھی تک آزاد نہیں! نہ ڈھنگ کی ملازمت،نہ روزگار ،نہ کوئی کاروبار، مہنگائی آسمان سے باتیں کرتی ہے۔نہ مکان ،نہ پانی، نہ چھت، نہ علاج نہ تعلیم یہ سب سہولتیں میسر ہی نہیں۔ افسروں، وزیروں ،مشیروں کے پاس میری بات سننے کو وقت نہیں۔ عدم تحفظ کا احساس لمحہ لمحہ ڈستا ہے۔ میری زندگی کو کئ خطرہ لاحق ہیں۔ضرورت کے وقت نہ مجھے قانون کی پناہ ملتی ہے اور نہ عدالت میں انصاف۔حکومتی ادارے پولیس، محکمہ مال، عدالتیں، بلدیاتی ادارے، کسٹم، ایکسائز، ڈاکخانہ واپڈا ،واسا،پی آئی اے،محکمہ صحت اور ایسے ہی کئ محکمہ جات، یہ سب مل کر عام اور مظلوم لوگوں کو آہنی شکنجے میں پِس رہے ہیں۔عام آدمی کو کبھی دین کے نام پر لوٹا جارہا ہے تو کبھی مذہب کے نام پر،حالات کی سفاکی، مسائل کی پیچیدگی اور اہل اقتدار کی سنگدلی۔اب تو ہر عام مظلوم پاکستانی اپنا حق مانگنے سے بھی ڈرتا ہے۔
کافی دن پہلے ایک کتاب نظر سے گزری جس کے مصنف محمد قیوم اعوان ہے۔اس کتاب کے کچھ الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں “دراصل میں دوسرے آدم کی اولاد ہوں جو روٹی کو ترستا ہے اور میرا بھائی کتے کو ڈبل روٹی کھلاتا ہے۔ میں ننگے پاؤں چلتا ہوں اور میرا بھائی اٹالین شوز پہنتا ہے۔ مجھے سواری کے لیے گدھا گاڑی نہیں ملتی میرا بھائی بہترین لگژری گاڑی پر سوار ہے۔ مجھے سرکاری سکول میں داخلہ نہیں ملتا میرا بھائی بیرونی یونیورسٹیوں میں پڑھتا ہے۔ کیونکہ میں ایک عام پاکستانی ہوں، میں اچھوت ہوں، میں ادھوری تخلیق ہوں، اور میرا بھائی صدر ہے، وزیراعظم وزیراعلیٰ ،گورنر ،جج،جرنیل، بیوروکریٹ، سرمایہ دار ہے، ہاں میرا بھائی زرداری ہے، شریف ہے، خان ہے ،گیلانی ہے، قریشی ہے ملک ہے، چوہدری ہے۔ سنا ہے یہ سلسلہ بہت دور تک جاتا ہے”۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں