ابھی شام کا ہی وقت تھا اور ہر طرف سے بکریوں کے ریوڑ واپس آرہے تھے اس دوران شایان تھل میں موجود ریت کے ٹیلے پر اپنے دوست معراج کے ساتھ موجود تھا ۔ دونوں محو گفتگو تھے ۔ معراج عمر کے لحاظ سے 18 سال کا معلوم ہوتا تھا جب کہ شایان 20 سال کا ۔ دونوں کی سانولی رنگت تھی اور سادہ سا لباس تھا ۔ معراج نہایت سنجیدگی کے انداز میں شایان بھائی شادی کب کر رہے ہو ؟ شایان مسکراتے ہوئے جب مجھے ایک کشمیرن لڑکی ملے گی تب ۔ معراج دوبارہ سے سنجیدگی کے عالم میں یہ کوئی مذاق نہیں ہے ۔ تمہاری کزنوں سے ہی تمہاری شادی ہو گی جیسا کہ تمہارے بڑے بھائیوں کی ہوئی ہے ۔ شایان بات کٹتے ہوئے یہ تو قسمت کی بات ہے لالا جی ۔ اسی دوران شایان کے وٹس ایپ پر ایک نا معلوم نمبر سے وائس میسج آتا ہے ۔شایان میسج سننے لگتا ہے جس میں ایک لڑکی کہہ رہی ہے گل خان ابھی گوشت لے کر نہیں آئے مہمان جانے والے ہیں ۔ شایان اور معراج یہ میسج سن ہنسنے لگے ۔ معراج طنز کے انداز میں کہتا ہے آ گئی تیری کشمیرن ۔ چلو اللہ حافظ پھر ملتے ہیں اب تیرا ایک سمسٹر باقی ہے ناں میں اب تجھ سے ایک سال بعد ملوں گا میں یونان جا رہا ہوں سٹڈی ویزا پر ۔ شایان مسکراتے ہوئے اللہ حافظ ۔
ایک سال بعد اسلام آباد ڈی ایچ اے میں ایک خوبصورت محفل نما گھر کے دروازے کی گھنٹی بچتی ہے ۔ جی کون؟ اندر سے ایک عورت کی آواز آتی ہے۔
جی شایان گھر پر ہے؟ میں معراج ہوں ۔ڈرائنگ روم میں بیٹھا شایان یہ نام سن کر بھاگ اٹھتا ہے اور دروازہ کھولتا ہے دونوں دوست انتہائی جوش و خروش سے ملتے ہیں ۔ دونوں گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر چائے نوش کر رہے ہوتے ہیں ۔ معراج یہ کس عورت کی آواز تھی جب میں آیا ؟ شایان مسکراتے ہوئے تیری بھابھی تھیں ۔ کون سی بھابھی کہاں کی بھابھی توں نے شادی کر لی ؟ شایان یہ وہی گل خان والی کال سے تیری کشمیرن بھابھی بنی ہیں ۔ اس وائس میسج سے ہماری باتیں شروع ہوئی میں اسلام آباد آیا سی ایس ایس کی تیاری کی تو وزارت خارجہ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی جاب مل گئی اور ساتھ تیری کشمیرن بھابھی بھی ۔ ان کے والد بھی وزارتِ خارجہ میں آفیسر تھے وہی سے رشتہ ہوا اور شادی بھی ۔ معراج تم نے ٹھیک کہا تھا سب قسمت کی باتیں ہیں ۔