97

اے میرے پیارے وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان/تحریر/عروبہ امتیاز خان(کراچی)

تحریر/عروبہ امتیاز خان(کراچی)

السلام علیکم
چند دنوں میں تمہیں معرض وجود میں آئے پچھتر برس گزر جائیں گے۔ اس پون صدی کے عرصے میں تم نے نجانے کتنے مدو جزر دیکھے ہیں۔ بار ہا کتنے مواقع ایسے آئے کہ جب اہلِ جنوں کی پشیمانی، غداروں کی ریشہ دوانی اور اپنوں کی ناتوانی نے ناقابلِ یقین رنگ دکھلائے مگر تم کھڑے رہے۔ چنانچہ میں امید کرتی ہوں کہ کٹھن اور ناموافق حالات کے باوجود تم بخیریت ہوگے کیوں کہ تمہارے دم سے ہی ہماری امیدوں اور خوابوں کے مرغزار میں بہار قائم ہے۔
بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی انتھک محنت، جستجو اور عملِ پیہم سے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت حاصل کرکے علامہ اقبال کے خواب کو تعبیر تو بخش دی۔ مگر افسوس صد افسوس، پھر تمہاری باگ ڈور ایسے حکمرانوں کے ہاتھوں میں آگئی جو مخلص نہ تھے اور انہیں اپنا ذاتی مفاد ہی عزیز تھا۔ انہوں نے تمہیں گزند پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور تمہیں ہر لحاظ سے نقصان پہنچایا۔ مگر تم تو عطیہ خداوندی ہو۔ ان تمام سازشوں کے باوجود تم ہماری جائے امان بنے رہے جہاں ہم فخر سے سر بلند کرکے اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہیں۔
دنیا کے نقشے پر ابھرنے کے آٹھ سال تک تم بغیر آئین کے چلتے رہے۔ ١٩٥١ء کی بات ہے جب تمہارے پہلے وزیراعظم کو تقریر کے دوران گولی مار دی گئی۔ پھر گولی مارنے والے کو بھی گولی مار دی گئی۔ قانون کے دونوں ہاتھ خالی رہ گئے۔سوالیہ نظروں کو جواب دینے والا کوئی باقی نہ رہا۔ ١٩٥٦ء میں پہلا آئیں بنا تو اسے نافذ کرنے سے پہلے منسوخ کر دیا گیا اور پتا ہے ایوب خان نے ١٩٦٢ء میں اپنی مرضی کا آئیں بنایا۔ ابھی تم صحیح طرح چلنے کے قابل بھی نہ ہوئے تھے کہ تمہیں بڑی طاقتوں کے حوالے کر دیا گیا۔کبھی سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدے تو کبھی سرد جنگیں۔ پھر ١٩٧١ء میں جس خطہ زمین کو اس کے باسی اپنا سمجھ کر گھوما کرتے تھے، وہ زمین ان کے لیے غیر اور قفس بنا دی گئی۔ مشرقی پاکستان کی حکومت کا شیرازہ بکھر گیا اور تم دو لخت کر دیے گئے۔ آج بھی ان زخموں سے لہو رستا ہے اور درحقیقت یہ زخم کبھی مندمل نہیں ہو سکتے۔
اللہ تعالٰی نے تمہیں بیش بہا نعمتوں اور وسائل سے نوازا ہے۔ موج اڑاتے دریا اور سمندر، لق و دق صحرا، ہرے بھرے باغات، گھنے جنگل، لہراتی بل کھاتی فصل کی ڈالیاں اور آسمانوں سے باتیں کرتی پہاڑوں کی چوٹیاں شمال سے لے کر جنوب تک تمہارے طول و عرض میں بکھری ہوئی ہیں۔ تمہارے وسیع دامن میں نجانے کتنی قومیتیں آباد ہیں مگر صرف تمہارے دامن میں بسنے کا احساس سب کو اتحاد کی لڑی میں پرو دیتا ہے اور ہم بحیثیت پاکستانی قوم اپنے آپ کو جسد واحد تصور کرتے ہیں۔

اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب تم سے ہے

اس زمیں کا ہر ذرہ آفتاب تم سے ہے

یہ فضا تمہاری ہے، بحر و بر تمہارے ہیں

کہکشاں کے یہ جالے، رہ گزر تمہارے ہیں

آؤ! میں تمہاری پیٹھ پر بسنے والے سب سے بڑے شہر یعنی کراچی کی بات کرتی ہوں۔ یہ تمہارا معاشی حب ہے اور سب سے زیادہ ٹیکس یہی شہر ادا کرتا ہے مگر حکمرانوں نے اس شہر کو بھینس سمجھ لیا ہے۔ بیچارے کراچی والے محنت کرکے اس بھینس کو چارہ کھلائیں اور اس کی دودھ اور ملائی وہ قبضہ گیر، جاگیردار اور وڈیرے وغیرہ چٹ کر جائیں۔ میں حالات کی ستم ظریفی کا شکار اس بدحال شہر کی رہائشی ہوں۔ جب میں تباہ شدہ، مسمار کی گئی عمارات دیکھتی ہوں تو میں سوچتی ہوں کہ اس شہر کے مقدر میں تعمیر کے بجائے کیا صرف تخریب ہی لکھا ہے۔ کیا یہ سرخ پیکوں سے مزین دیواریں بھانت بھانت کے عاملوں کی دکانوں کی تشہیر کا ذریعہ ہیں یا یہ دیواریں کسی فکری و علمی آماجگاہوں کا مضبوط حصار بن سکتی ہیں۔ کیا سڑکوں پر دندناتے ان بہروپیوں اور ٹھگوں کو کیفرکردار تک پہنچانے والا کوئی ہے یا ان کی باقاعدہ سرپرستی کی جا رہی ہے۔ کیا سڑکوں، حب ڈیم اور واٹر ٹینکر میں جمع پانی کبھی ہمارے نلکوں میں آسکتا ہے۔ مردم شماری میں اس شہر کی آدھی آبادی کو نگل کر اس کے حقوق پر ڈاکہ مار دیا جاتا ہے تو کیا اس شہر کو کبھی اس کا جائز حق مل سکتا ہے یا کراچی والے اس بے بسی کو اپنا مقدر تسلیم کر لیں۔

اے میرے دیس کے لوگو! شکایت کیوں نہیں کرتے؟

تم اتنے ظلم سہہ کر بھی بغاوت کیوں نہیں کرتے؟

تمہیں میری باتیں یقیناً مایوس کن محسوس ہو رہی ہوں گی مگر ہم پاکستانیوں کی گھٹی میں حبِ وطن پلا گیا ہے۔ ہم تمہارے پاسبان ہیں اور تمہاری مٹی میں جانباز شہیدوں کا خون شامل ہے۔ تم ہماری امانت اور مقدس زمین ہو۔ اگر ہم نے تمہیں گنوا دیا تو ہماری شناخت مسخ ہو جائے گی۔ لہذا ہم نے تمہاری حفاظت کی قسم کھائی ہے کیوں کہ راہ تُو، رہرو بھی تُو، رہبر بھی تُو، منزل بھی تُو۔ ہم جوانوں کا خون ہماری رگوں میں جوش مارتا اور ہمیں حق پر ڈٹ جانے کے لیے ابھارتا ہے۔ ابھی اس جواں خون کو خواب غفلت سے نکلنے کی دیر ہے مگر جب یہ سویا ہوا شیر جاگے گا تو یہ اپنی جدوجہد سے دشوار گزار راہوں کو سر کر لے گا اور کامیابی کے تمام میدانوں میں تمہارا نام اول پر ہوگا۔
اس یومِ آزادی ہم عہد کرتے ہیں کہ تمہارے وجود میں آنے کا مقصد جو ہمارے اذہان سے محو ہو چکا ہے، اسے ازسرنو تازہ کریں گے اور اس کی تجدید کریں گے۔ ہم تمہیں اسلام کا حقیقی قلعہ بنائیں گے اور اس مقصد کی تکمیل کی خاطر اپنا تن، من، دھن الغرض سب تمہارے لیے قربان کر دیں گے۔
اگرچہ کانٹے ہیں راہوں پہ بکھرے ہوئے
پا برہنہ چلو نوک پرخار پر
اک تماشہ زندگی یوں ہی سہی
رقص کرتے چلو تیغ کی دھار پر

والسلام
ایک محبِ وطن
عروبہ امتیاز خان

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں