150

باپ اور بیٹے از ایوان ترگنیف/تبصرہ نگار: علی عبداللہ

علی عبداللہ

روسی ادب پڑھتے ہوئے آپ باقی سب کچھ کیوں بھول جاتے ہیں؟ اس سوال کا جواب مجھے مشہور زمانہ ناول باپ اور بیٹے پڑھتے ہوئے ملا- ایوان ترگنیف کا یہ ناول، دیگر ناولوں کی طرح بے حد طویل اور کرداروں سے بھرپور نہیں ہے، لیکن جیسے جیسے میں اسے پڑھتا گیا ہر کردار ایک ایک کر کے مجھ پر نازل ہوا اور حلول کرتا چلا گیا، بازاروف،ارکادی،پاول،نکولائی، اودینتسووا،کاتیا، وغیرہ ایسے لاجواب اور حقیقت سے قریب تر کردار ہیں، جو ہر عہد کی نسل پر چھاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں-

روسی کلاسیکی ادب انیسویں اور بیسویں صدی کے شروع میں پھلا پھولا- یہ وہ دور ہے جب پشکن،ترگنیف،ٹالسٹائی اور دوستوئیفسکی جیسے لوگ اپنا اپنا شاہکار منظر عام پر لا چکے تھے- ان لوگوں نے ایسے زندہ اور بھرپور کرداروں کو متعارف کروایا تھا جنہیں ہر کوئی اپنے حالات جدوجہد، پریشانیوں اور کوششوں کے باعث انھیں خود میں ڈھونڈ سکتا تھا- ان کرداروں کے جذبات اور احساسات کی حقیقی عکاسی کرنے کی بنا پر یوں لگتا ہے جیسے مصنفین نے اپنی روح ان میں پھونک دی ہو- مزید ان میں تاریخی واقعات، زندگی سے متعلق فلسفہ اور اس دور کے روس کی صورتحال کو بہترین انداز میں اجاگر کیا گیا ہے-

ایوان ترگنیف نے یہ ناول فادرز اینڈ سنز یعنی باپ اور بیٹے 1862 میں لکھا- اس ناول نے اتنی شہرت حاصل کی کہ دنیا کی تقریباً ہر بڑی زبان میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے اور دنیا کی سو عظیم ترین کتب میں یہ شامل کیا گیا ہے- یہ ناول اس دور کے روس کی بدلتی ہوئی حالت کی عکاسی کرتا ہے اور نوجوان نسل کے رجحانات کو واضح کرتا ہے- لیکن یہ اس وقت کے روسی معاشرے کو بھی بیان کرتا ہے جو جدید دنیا ، غم اور مشکلات، زرعی غلامی، جذبات کی طاقت ، خاندانی روایات کو قبول کرتا ہے- یہ کہانی ہے ان دو نوجوانوں، بازاروف اور ارکادی کی، جو یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر واپس لوٹے ہیں اور ان کے اعتقادات آج کے معیارات کے مطابق بہت اچھے ہیں- ان کے مزاج میں تبدیلی کی خواہش، نظام کو ناپسند کرنا، جذبات کو رد کرنا اور سائنس کو اپنانا شامل ہے جو اس دور میں انقلابی اور چونکا دینے والا تھا۔ یہ نوجوان اپنے باپوں کو پرانے خیالات کا مالک سمجھتے ہوئے ان سے اختلاف کرتے ہیں اور انھیں جدیدیت سے دور سمجھ کر ان کو نظر انداز کرتے ہیں- دراصل یہ ناول انکاریت پسندی جسے Nihilism کہا جاتا ہے کے فلسفے پر کھڑا ہے- مصنف نے ناول کے ایک کردار، ارکادی کے ذریعے انکاریت پسندی کے بارے لکھا کہ”یہ کسی عقیدے کے سامنے سر نہ جھکانا اور کسی حکم و فرمان کا تابع نہ ہونا ہے- انکاریت پسند کسی اصول کو اعتقاد تصور نہیں کرتا اور یہی انکاریت پسندی سائنس کی روح ہے- ہر شے کو تشکیک کی نگاہ سے دیکھنا، اسے پرکھنا اور جو شے اس امتحان پر پورا نہ اترے اسے مسترد کر دینا اکثر انکاریت پسند کو ایک منفی روح بنا دیتا ہے-“

بازاروف اس ناول کا اہم ترین کردار ہے جو انکاریت پسند ہے- اور اس کا دوست ارکادی اس سے متاثر ہے- بازاروف خشک مزاج،سنگ دل،کرخت اور لاپروا ہے- وہ کسی بھی شے میں چین محسوس نہیں کرتا- وہ سائنسی تجربات اور مشاہدات میں غرق ایک الگ تھلگ انسان ہے- اسی انکاری فلسفے کی بنیاد پر نوجوانوں اوربوڑھوں میں ایک دیوار حائل ہو جاتی ہے- بوڑھا نکولائی فطرت اورشاعری کے بارے گفتگو کرنے کی کوشش کرتا ہے مگروہ ان نوجوانوں کو سمجھانہیں پاتا اور خود کوان پڑھ محسوس کرتا ہے- بازاروف بوڑھوں کی باتیں سن کر کہتا ہے، “یہ رومانی قسم کے بزرگ لوگ بھی- اپنے اعصاب کو جھنجھلاہٹ اور ہیجان کی حد تک اکسا لیتے ہیں اور قدرتی طور پر توازن بگڑ جاتا ہے-” ان نوجوانوں کے نظریات کے بارے سن کر ایک جگہ بوڑھا پاول اپنے بھائی نکولائی سے کہتا ہے، “ہم یہاں بیٹھے ہیں اور اس کی کوشش کر رہے ہیں کہ جو کچھ ہم نے سیکھا اور پڑھ اور پڑھا ہے، بھول نہ جائیں، اور یہ لو دیکھو! دیکھتے دیکھتے یہ سب دقیانوسی باتیں بن جاتی ہیں اور ہم سے کہا جاتا ہے کہ عقل مند لوگ اب ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنا وقت برباد نہیں کرتے اور سننا چاہو تو سنو کہ ہم خود کوڑ مغز کے سوا اور کچھ نہیں- کیا کیا جائے! معلوم ہوتا ہے نئی پود کے لوگ ہم سے زیادہ عقل مند ہیں-“

جذبات سے دور اور سائنس پر ایمان کا دعوی کرنے کے باوجود ، بازاروف ایک خوبصورت بیوہ کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس کا دوست ارکادی بھی اسی عورت سے محبت کرتا ہے، لیکن درحقیقت ارکادی اس بیوہ اودینتسووا کی بہن سے عشق کر بیٹھتا ہے- چونکہ اودینتسووا ایک آزاد خیال اور ترقی پسند عورت ہے، وہ بازاروف سے محبت کے باوجود خود میں کچھ کمی محسوس کرتی ہے اور بازاروف سے کہتی ہے، ” مسرت کے سلسلے میں ایسا کیوں ہے کہ اس وقت بھی جب ہم کسی چیز کا لطف اٹھاتے ہیں- مان لو جب ہم موسیقی کا لطف اٹھاتے ہیں، یا خوب صورت شام یا اپنے محبوب لوگوں سے گفتگو کر کے لطف اندوز ہوتے ہیں تو ہمارے دل میں پھر بھی یہ ہلکا سا احساس کیوں باقی رہتا ہے کہ ایک بیکراں مسرت جو سچی مسرت سے بھی بڑی ہے،اس سے بھی بڑی جو ہمارے بس میں ہے، ہاں وہ بیکراں مسرت کہیں اور ہے؟ ایسا کیوں ہے؟” اس ناول میں ترگنیف نے عورت کو ایک مضبوط کردار میں پیش کیا ہے، چاہے وہ اودینتسووا ہو یا کاتیا یا پھر فےنچکا، ہر کردار اپنی اپنی جگہ عورت کو با شعور، تعلیم یافتہ اور معاملہ فہم ظاہر کرتا ہے- یہ چیز اس دور کے انگریزی ناولوں میں کمیاب تھی، انگریزی ناول عورت کے اس کردار سے تقریباً ناآشنا تھے- بازاروف کی جوانی میں موت بعض لوگوں کے نزدیک درحقیقت انکاریت پسندی کی موت ہے- مرنے سے پہلے بازاروف اودینتسووا سے کہتا ہے، ” ایسا لگتا ہے کہ مستقبل کے بارے سوچنا بے معنی تھا- موت ایک پرانی کہانی ہے، لیکن ہم میں سے ہر کسی کے لیے یہ نئی بن کر آتی ہے- میں نے اب تک ہار نہیں مانی ہے-“

ناول کے آخر میں ایک بوڑھا، میاں بیوی کا جوڑا، ایک حسرت ناک منظر پیش کرتے ہوئے قبرستان میں نمودار ہوتا ہے اور دھیرے دھیرے چلتے ہوئے ایک بوسیدہ قبر پر کھڑے ہو کر دیر تک آنسو بہاتا ہے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے، جی ہاں وہاں وہ خود کو بازاروف کے قریب محسوس کرتے ہیں اور خود کو اس سے الگ نہیں کر پاتے-

ترگنیف کا یہ ناول باپ اور بیٹے، حقیقی معنوں میں ایک کلاسیک ہے اور یقیناً یہ آج کے دور میں بھی ویسا ہی معنی خیز اور پر اثر ہے جیسا وہ انیسویں صدی میں تھا- اور بازاروف۔۔۔۔لازوال کردار بازاروف جس کے بارے خود مصنف نے کہا تھا کہ، “بازاروف میرے دل کا ٹکڑا ہے ۔۔۔جس پر میں نے اپنا سارا فن،سارا رنگ لنڈھا دیا ہے-” یہ کردار اس وقت کے روس کے رجحانات کا علمبردار ہے، اور مصنف نے کہا تھا کہ اس ناول میں پیش کردہ خیال کو پورے طور پر صرف دوستوئیفسکی سمجھ سکا تھا- بیزار نسل کا نمائندہ، متشکک اور لبرلزم کے کھوکھلے پن کو سمجھنے والا بازاروف لمبے عرصے تک قاری کے ذہن کو اپنے حصار میں قابو رکھتا ہے- بک کارنر جہلم سے شائع شدہ ایک خوبصورت اور فکر انگیز ناول جو نوجوان نسل کو ضرور پڑھنا چاہیے-ناول کے مترجم انور عظیم ہیں- بہترین طباعت اور عمدہ سرورق کے ساتھ یہ شاندار ناول دیر تک ذہن کے گوشوں میں موجود رہتا ہے-

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں