غربت مہنگائی اور بے روز گاری اس وقت ملک پاکستان کے سب سے بڑے مسلے ہیں مہنگائی کا طوفان بدتمیزی لوگوں کی زندگیاں نگل رہا ہے لوگ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں آئے روز اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں آضافہ سے لوگ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں بجلی کے بلوں میں ہوشربا آضافہ کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے جاری ہیں لوگ ہاتھوں میں بجلی کے بل اٹھائے سڑکوں چوکوں چوراہوں پر احتجاج کر رہے ہیں لوگوں کی سوچ سے زیادہ بل بھیج سئے گئے ہیں جس سے لوگ ذہنی اذیت کا شکار ہیں آئے روز لوگوں کی جانب سے بل ادا نہ ہونے سے پیدا صورتحال پر بات چیت ہوتی رہتی ہے جو دل ہلا کر رکھ دیتی ہے چند روز قبل ہی ایک ویڈیو شوشل میڈیا پر گردش کرتی ہوئی نظر آئی جس میں غریب آدمی بجلی کا بل ہاتھ میں لئے بجلی کے کھمبے پر چڑھ گیا اور اس نے ہائی وولٹیج کی تار چھو لئے جس سے ایک دم سے شعلے اٹھے اور چند سینڈ بعد وہ راکھ بن کر زمین پر آن گرا ڈچکوٹ کے قریب نوجوان نے بجلی کا بل دیکھ کر خود کشی کر لی فیصل آباد ہی کے ایک اور نوجوان نے موت کو گلے لگا لیا چار روز قبل آفس موجود تھا کہ ایک دوست اندر داخل ہوا جس کے ہاتھ میں بجلی کا بل تھا وہ گرنے کے انداز میں میرے سامنے بیٹھا تو میں نے اس کی جانب دیکھا وہ ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا میں کہا بھائی خیریت کیا ہوا اس نے بل سامنے ٹیبل پر رکھ دیا بل دیکھ کر میرے طوطے اڑ گئے اکہتر ہزار سے زائد کا بل اف میرے خدایا وہ بولا پچھلے مہینے اد انہیں کر سکا حالات ٹھیک نہیں تھے پھر بیٹی بیمار تھی سوچا اگلے ماہ ادا کروں گا اس ماہ دو ماہ کا بل اور وہ بھی اکہتر ہزار روپے؟میں اٹھا اسے پانی پلایا اور حوصلہ دیا وہ آفس ٹیبل پر بازووں میں سر دے کے نیم بے ہوشی میں چلا گیا اور میں اس کے بارے سوچنے لگا وہ خاندان کا واحد کفیل جس میں دو بیٹے دو بیٹیاں بیوی اور وہ خود مطلب چھ افرار کرایہ کا مکان کرایہ کی چھوٹی سی دوکان جس میں پڑا سامان زیاددہ سے زیادہ پانچ چھ ہزار کا ہو گا سات ہزار مکان کا کرایہ اور چھ ہزار دوجان کا کرایہ مطلب تیرہ ہزار ہر مہینے وہ کرایہ کی مد میں ادا کرتا ہے پھر دوکان کا بل اور اس کے بعد فیملی کے اخراجات آٹا چینی گھی اور دیگر اشیا ضروریہ کے لئے اس کے پاس کوئی وسائل نہیں ہیں ان کے گھر میں شام کو کیسے اور کیا پکتا ہو گا سوچ کے روح کانپ جاتی ہے ایسے خاندان کو اگر بجلی کا بل اکہتر ہزار آئے گا تو وہ خودکشی نہیں کرے گا تو بھلا اور کیا کر کرے گا ایسے بے شمار خاندان ہیں جن کے حالات ایسے یا اس سے بھی بدتر ہیں وہ معاشی طور پر اس قدر مجبور ہیں کہ فاقوں تک نوبت آ چکی ہے اور افسوس کی بات یہ کہ کوئی آس کوئی امید نظر نہیں آ رہی کہ کچھ بہتر ہوگا کوئی ریلیف مل پائے گا کوئی ایکشن لیا جائے گا حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں اور حکمرانوں کی تقاریر سن لیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے انہیں کوئی احساس ہے نہ ان کے پاس ان مسائل کا کوئی حل ہے ہمارے حکمرانوں کے اشیا ضروریہ کے نام بھی یاد نہیں ہونے تو وہ غریب کی مشکلات کو کیا خاک سمجھ پائیں گے امیر کو کیا پتہ غربت کیا چیز ہوتی ہے آ ٹا کیسے اور کس کوالٹی میں مل رہا ہے فاسٹ فوڈ کھانے والے اور آن لائن فاسٹ فوڈ کا آ ڈر دینے ڈیلوری بوائے کو ہزار پانچ سو ٹپ کی مد میں دینے والے کیا جانے غریب تندور پر لائن میں لگا کبھی پیسے گن رہا ہوتا اور کبھی خاندان کے فرد وہ دو کی بجائے فی کس ایک روٹی کھا لیتا ہے بھوکا رہ لیتا ہے کہ شام کو پھر نا جانے ملے گی یا نہیں آٹا گھی چینی کی قیمتیں سن کر غریب ویسے مر چکا ہے حال ہی میں چینی مافیا کے گٹھ جوڑ سے چینی کی قیمتیں دو سو سے سوا دو سو تک جا پہنچی یہ بھی مافیا اور حکومتی عہداروں کا ایک حربہ ہے کمیشن کی غرض سے پہلے مافیا کو آزادی دی جاتی ہے جب وہ ریٹ بڑھا لیتے ہیں چیزیں نایاب ہو جاتی ہیں تو ایک دم سے سوئی ہوئی حکومت جاگ اٹھتی ہے کاروائی چھاپے پکڑ دھکڑ شروع کر دی جا تی ہے پریس کانفرنس کر کے مافیا کے خلاف کریک ڈاون کیا جاتا ہے اور پھر کیا ہوتا ہے ڈیڑھ سو کلو والی چینی جب سوا دو سو تک چلی جاتی ہے حکومت اپنی اعلیٰ کارکردگی کی بنا کر ریٹ کم کر کے ایک سے ستر ایک سو پچھتر تک محدود کر کے پاکستان کی باشعور عوام کو نہائت عمدگی سے بے وقوف بناتے ہوئے بیس تیس روپے فی کلو کا چونا لگا دیا جاتا ہے اور حکومتی نمائندے یہ کریڈٹ کئی سالوں تک اپنے نامہ اعمال میں لکھا دکھاتے رہتے ہیں کہ فلاں دور میں چینی بحران پر ہم نے قابو پاتے ہوئے عوام کو بیس سے تیس روپے کا ریلیف دیا حالنکہ کہ انہوں نے مافیا کے ساتھ مل کر عوام کو بیس سے تیس روپے کا چونا لگایا ہوتا ہے اور مافیا سے ڈیل میں الگ سے مال پانی کمایا جاتا ہے رلیف کا مطلب تو یہ تھا کہ چینی گھی آٹا سمیت اشیا ضروریہ کا ریٹ اصلی حال میں بحال کرتے ہوئے غریب کو انصاف دیا جائے اور ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے انہیں عوام کے سامنے بے نقاب کیا جائے مگر یہاں کئی دیہائیوں سے غربت نہیں غریب مکاو پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے غریب خاندانوں کا جینا مشکل نہیں ناممکن بنا دیا گیا ہے ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت پر الزمات لگاتے ہوئے ملکی وسائل پر ہاتھ صاف کرتی ہے اور چلی جاتی ہے حکومتی وزرا کی جائیدادیں اور بنک بیلنس میں ہزار گنا آضافہ ہو جاتا ہے اور ملک ہر سال قرض میں ڈوبتا جا رہا ہے کوئی بھی سیاسی پارٹی ملک سے مخلص نظر آتی ہے نہ اس عوام سے جس کے ووٹ سے وہ ایوان تک پہنچتے ہیں منتخب نمائندے سب سے پہلے اسی حلقہ کی عوام سے منہ موڑتے ہیں جس حلقہ کی عوام نے انہیں منتخب کر کے ایوانوں تک پہنچایا ہوتا ہے حکومت میں جانے کے بعد نہ عوام یاد آ تی ہے نہ ہی حلقہ کے مسائل جونہی اقتدار کی مدت ختم ہوتی ہے ملکی مسائل ترجیح بنیادوں پر یاد آنے لگتے ہیں حکومتی وزرا کی خامیاں ترتیب سے گنوائی جاتی ہیں ستر سالوں سے یہی فلم چل رہی ہے دیکھنے والی عوام ختم ہوتی جا رہی ہے مگر کچھ بدلتا نظرنہیں آ رہا،

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل