بچوں کی تعلیم و تربیت(قسط نمبر2/تحریر/مولانا محمد افضل کاسی ٹرینر و کالم نگار 70

بچوں کی تعلیم و تربیت(قسط نمبر4/بچوں کو انگلش یا عربی سکھانے کے اصول/تحریر/مولانا محمد افضل کاسی (ٹرینر و کالم نگار)

زبان سیکھنے کے اصول بیان ہو رہے تھے اسی سلسلے میں آج ہم دوسرا اصول ذکر کرتے ہیں زبان سیکھنے کا ایک اصول یہ ہے کہ جب آپ نے بچہ کو جو صحیح خالص ادبی ان پُٹ (سننا اور پڑھنا) دیا تو اب کام یہ کیا جائے کہ بچہ جو بھی آوٹ پُٹ(بولنا اور لکھنا) دے اسے قبول کیا جائے اے بالکل آزاد چھوڑا جائے اور اس کا مذاق اُڑایا جائے اس کی غلطیاں نہ نکالی جائے جیسے بچہ کے بچپن میں ہم نے اسے مم بولنے پر اس کو نہیں ٹوکا تھا بلکہ ہم خوش ہوئے تھے اور بچہ کو توجہ دی تھی اسی طرح یہاں بھی یہی معاملہ کرنا ہے بچہ کے الفاظ پر دھیان نہیں دینا بلکہ الفاظ کی غرض و غایت کو سمجھنا ہے۔
ہمارے معاشرے میں بچہ کو ایک غلط ان پُٹ دیا جاتا ہے اور دوسرا اس کے آوٹ پُٹ کو بھی آزاد چھوڑا جاتا ہے قدم قدم پر اس کی غلطیاں نکالی جاتی ہے اس کے نفس کو مجروح کیا جاتاہے اسی وجہ سے اگر ہم انعام رکھے ایسے شخص کے لیے جس کو نرسری کلاس سے لے پی ۔ایچ۔ ڈی تک کبھی بھی استاد کی طرف سےکسی بے عزتی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تو میرا خیال ہے کہ اس انعام کو جیتنے والا ہمارے پورے ملک میں نہیں ملے گا کیونکہ ہمارے اساتذہ لمحہ لمحہ طلبہ کی عزت نفس کو مجروح کرتے ہیں کبھی مار کی شکل میں کبھی ڈانٹ کی شکل میں وغیرہ وغیرہ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچے پڑھائی سے دل چراتے ہیں اور اپنے آپ کو قید خانے میں بند تصور کرتے ہیں جس کی وجہ سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ نہ کبھی قلم اُٹھاتے ہیں اور نہ ہی کبھی کتاب۔
کسی ماہر تعلیم نے کیا خوب بات کہی ہے کہ پوری دنیا کے لوگ بولنا کیسے سیکھتے ہیں؟ کیونکہ انہیں کوئی بولنا سکھاتے نہیں ورنہ اگر یہ کام بھی ٹیچروں کے ہاتھ میں ہوتا تو ادھی دنیا گھونگھی ہوتی۔
ہمارے ہاں انگلش یا عربی سکھاتے وقت گرائمر پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے حالانکہ اگر ہمارے وطن عزیز کے کسی بورڈ کے ششم جماعت کی انگلش گرائمر کی کتاب اٹھا کر کسی انگریز سے اس کا امتحان لیا جائے تو مجھے سو فیصد یقین ہے کہ وہ فیل ہو جائے گا کیونکہ زبان گرائمر کا نہیں بلکہ وہ تو دماغ کا ایک عمل ہے ایک خاص قسم کا ذوق ہے جو زبان میں اگر کوئی غلطی ہو تو فوراً اشارہ دے دیتا ہے کہ اس میں غلطی ہے جیسے شعراء کے سامنے اگر بے وزن شعر پڑھا جائے تو وہ فوراً بتا دیتے ہیں کہ اس کا وزن ٹھیک نہیں لگ رہا اگر آپ ان سے اس بارے میں کوئی قاعدہ پوچھے تو وہ کہیں گے کہ قاعدہ تو نہیں معلوم لیکن یہ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہا اسی طرح محدثین کرام حدیث کی علت کو اپنے ذوق سے پہچان جاتے ہیں یہی اہل زبان کے پاس بھی ہوتا ہے آپ اُن کے سامنے اگر زبان کے گرائمر کی غلطی کریں گے تو پہچان جائیں گے لیکن اُن کو گرائمر کے قواعد نہیں آتے ہو نگے ہمارے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں بچوں کو زبان سکھانے کی ابتداء ہی گرائمر سے کی جاتی ہے اور انگلش میں Tenses سکھائے جاتے ہیں اور اس پر کئی ماہ ضائع کیے جاتے ہیں جس میں ایسے جملے سکھائے جاتے ہیں(جا چکے ہوں گے، کیا جا چکا ہو گا) وغیرہ وغیرہ۔ ایسے جملے صرف دو جگہ استعمال ہوتے ہیں ایک کلاس روم میں اور ایک پاگل خانے میں۔
اِن پُٹ ایسی کتابیں رکھنی چاہیئے جو کہ ماہر لسانیات کے نزدیک مستند ہو اور لسانیات کے باب میں مستند کتاب وہ ہوتی ہے جو زبان سکھانے کے لیے نہ کھی گئی ہو کیونکہ اس میں بناوٹی زبان ہوتی ہے اور جملے بھی ٹکڑوں میں ہوتے ہیں حالانکہ زبان سیکھنے کے لیے حقیقی دنیا میں جو زبان بولے جاتے ہیں وہی سننے اور پڑھنے چاہیئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں