210

بھادوں کی خوشگوار مہک /تحریر/ عبدالرؤف ملک (کمالیہ)

      بھادوں کی رم جھم ،ٹھنڈی ہوا اور کالی گھٹائیں بچپن سے ہماری کمزوری ٹھہری ہیں جب بھی آسمان پہ کالی گھٹائیں جلوہ گر ہوتی ہیں تو من میں پکوڑے کھانے کے ارمان مچلنے لگتے ہیں۔ میری نظر میں پکوڑوں کی شڑوں شڑوں کسی بَن میں کُوکنے والی کوئل کے سنگیت، کانوں میں رس گھولنے والی کسی مندر میں کھنکھتی گھنٹیوں کی دلآویز چھنچھناہٹ اور کسی ویران حویلی میں طبلے کی ترکٹ سے نکلنے والی “تک دِھن تک دِھن تن دھنا دھنا دِھن تک تنا تنادِھن” سے کہیں زیادہ دلکش اور مسحورکن ہوتی ہے۔ پکوڑوں کی مہک اور مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو جب فضا میں بکھرتی ہے تو چنبیلی، موتیا، یاسمین اور مشک و عنبر کی خوشبو کہیں دور پیچھے رہ جاتی ہے۔

        سچ پوچھیں تو ہمارے شاعروں نے صرف آبشاروں کا شور، جنگل میں بل کھاتی ندی کا سرسراتا ہوا شفاف پانی، سرمئی اور سفید گھٹاؤں کی دلکشی، پھولوں پہ مٹکتی تتلیوں کا رقص، ناچتے مور کے پروں میں سمائے قوسِ قزح کے رنگ، اندھیری رات میں امید کی کرن بنتی چراغ کی مدھم سی روشنی اور چکور کا چاند سے عشق ہی دیکھا ہے برسات میں پکوڑوں کے لطف اور سموسوں کی مہک سے وہ محروم ہی رہے ہیں۔

کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

    کاش یہ شاعر لوگ پکوڑے کی ناک والی محبوبہ کی بجائے پکوڑوں سے عشق کرتے تو آج انکی شاعری پکوڑانہ، سموسانہ پیزانہ اور برگرانہ ہوتی جنکو صرف ادبی لوگ ہی نہیں بلکہ بچے بوڑھے اور نوجوان سبھی پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے اور دن رات یہی گنگناتے رہتے۔

آج موسم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پکوڑانہ ہے بڑا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سموسانہ ہے بڑا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں