بے حسی و نااہلی کا سیلاب سب کچھ بہا لے گیا‘اے خدا رحم فرما
موقع پرستوں نے اپنی اولادوں کو حرام کھلانے کیلئے اس قدرتی آفت کو بھی ”رحمت“سمجھ لیاخوفناک سیلابی ریلے کو بڑھتا دیکھ کر پانچوں بھائی چیخ وپکار کے ساتھ رونے لگے مگر کوئی مدد کو نہ آیا، سیلاب کی ان بے رحم موجوں سے بچ جانے والے بے بس و لاچار مدد کیلئے نظریں جمائے بیٹھے ہیں، زمیں اتنی تنگ ہوچکی کہ دفنانے کیلئے خشک جگہ تک نہیں بچی، کھانے کو ایک روٹی تو کیا پینے کیلئے پانی تک نہیں
سر ندیم نظر/ایڈیٹر/ مشرق سنڈے میگزین لاہور
اگر درد تحریر ہوتا تو آج لفظوں کے جنازے اٹھتے
ہر آفت کے بعد ایک بڑی آفت‘ہر مصیبت کے بعد ایک بڑی مصیبت‘ہر تکلیف کے بعد ایک نئی تکلیف ۔ابھی عوام مہنگائی ‘بجلی کے بلوں اوربڑھتی پٹرول کی قیمتوں کی اذیت سے باہر نہیں نکلے تھے کہ ایک نئی آفت سر پر آن پڑی۔زندگی ایک ایسے دوراہے پر آکھڑی ہوئی ہے کہ نہ جیا جارہا ہے اور نہ خودکشی کی جاسکتی ہے مگرحالات کے ماروں کو اس قدرتی آفت نے ماردیا ہے۔جن کے اپنے اس سیلاب کی نذر ہوگئے وہ بھی جیتے جی مرگئے ۔کسی کا باپ گیا‘کسی کی ماں‘کسی کی بیوی‘کسی کا شوہر‘کسی کی بہن‘کسی کا بھائی تو کسی کے بچے اس بے رحم موجوں کی نذر ہوگئے۔یہ دن ‘یہ وقت‘یہ لمحے کسی قیامت سے کم نہیں۔پورا پاکستان اس درد سے گزررہا ہے۔سوشل میڈیا سیلابی ریلوں میں بہہ جانیوالوں کے نوحوں سے بھرا پڑا ہے۔درد بھی اب درد سے چیخ رہا ہے۔گزشتہ روز سوشل میڈیا پر آنیوالی ویڈیوز نے دل دہلا دیا۔میرے وطن کے بے بس ‘لاچار عوام کی مدد کیلئے اللہ سے چیخ و پکار اور آہیں سن کربے ساختہ آنسو رواں ہوگئے۔
بے حسی و نااہلی کا سیلاب سب کچھ بہا لے گیا۔ایک سیلابی ریلا لاکھوں خواب ایک لمحے میں روندھ کر آگے بڑھ گیا۔وہ لوگ جو پورے سال کا راشن گھر میں رکھے سکون کی زندگی کے متلاشی تھے‘محنت مزدوری کرکے آنیوالے سال کیلئے اناج اکٹھا کررہے تھے‘اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے دن رات ایک کررہے تھے ‘آج ایک وقت کا کھانا تو کیا ایک ایک نوالے کو ترس رہے ہیں۔اپنوں کو کھونے کی تکلیف کیساتھ زندہ بچ جانیوالوں کی بھوک مٹانے کی فکر انہیں اندر ہی اندر موت کے منہ میں لیجارہی ہے۔تکلیفوں‘مصیبتوں‘اذیتوں کے نوحے لکھتے لکھتے الفاظ ختم ہونے کو آئے مگر آفتوں کا یہ سلسلہ دراز ہی ہوتا جارہا ہے۔کسی کا کہنا ہے کہ اللہ ہم سے ناراض ہے۔پہلے کورونا نے تباہی مچائی‘بھوک ‘افلاس اور غربت میں اضافہ ہوا‘اپنے ہی اپنوں کے ڈر سے چھپ چھپ کر جینے پر مجبور ہوئے اور اب سیلاب نے ایسی تباہی مچائی کہ اپنوں کو ہی اپنے سامنے مرتے دیکھنا پڑا۔یہ قدرتی آفات ایسے ہی نہیں آجاتیں۔اس میں ہمارے ان حکمرانوں اور مفادپرستوں کا بھی قصور ہے کہ جنہوں نے پچھلے سیلابوں سے کچھ نہ سیکھا‘ہیلی کاپٹروں پر گئے‘دورے کئے‘اشیائے خورونوش اوپر سے پھینکیں اور ”فرض“ادا کرکے واپس ہولئے۔ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے۔کبھی کسی نے ایسی آفتوں سے بچنے یا انکا مقابلہ کرنے کیلئے نہیں سوچا۔اگر کالا باغ ڈیم ہی بن جاتا تو بہت کم نقصان ہوتامگر ہوا وہی جو پہلے ہوتا آیا ہے۔دورے‘امداد‘اظہار افسوس اور بس۔
اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت 70فیصد پاکستان مکمل یا جزوی طور پر سیلاب کی زد میں ہے۔2لاکھ 18ہزار گھر مکمل اور 4لاکھ 50ہزار گھر جزوی تباہ ہوچکے ہیں۔20لاکھ ایکڑ فصلیں تباہ ہوچکیں‘کپاس کی 90فیصد فصل ختم ہوگئی۔ایک ہزار سے زائد اموات اور ڈیڑھ ہزار سے زائد لوگ زخمی ہیںجبکہ 8لاکھ مویشیوں کا خاتمہ ہوچکا۔وہ کسان جو اپنی فصلوں کی اپنی جان سے زیادہ حفاظت کرتے ہیں ‘اپنی اولاد سے بھی زیادہ انکا خیال رکھتے ہیں اپنی آنکھوں کے سامنے ان اجڑتے کھیتوں کو دیکھ کر انکی کیا حالت ہوگی ؟کوئی درد دل رکھنے والا ہی اس تکلیف کو سمجھ سکتا ہے۔ہماری ”بے حسیاں“اس حدوں کو چھورہی ہیں کہ ہم اب بھی نہیں بدلے‘موقع پرستوں نے اپنی اولادوں کو حرام کھلانے کیلئے اس قدرتی آفت کو بھی اپنے لئے ”رحمت“جانتے ہوئے ‘وہ اشیاءجو متاثرین کیلئے لوگ اپنی استطاعت کے مطابق وہاں بھیجنا چاہتے ہیں ‘ دوگنی قیمت پر فروخت کرنے لگے ہیں۔لعنت ایسی کمائی پر‘خدا کی لعنت ایسے لوگوں پر جو بے حسی کی ایسی سٹیج پر پہنچ چکے ہیں کہ ”شیطان“بھی انکی ”حرکتیں “دیکھ کر شرما جائے۔
ایسا عالم کہ لرز اٹھتی ہے بنیادِ حیات
ایسا منظر کی رگ سنگ پھڑک پڑتی ہے
(عنبرین خان)
بالکل ایسے ہی وہاں سے آنیوالی ویڈیوز دیکھ کر روح کانپ اٹھتی ہے‘دل لرز جاتا ہے۔ایک ویڈیو میں دیکھا کہ کوہستان کے پانچ بھائی طوفانی سیلابی ریلے میں پانچ گھنٹے زندگی اور موت کے درمیان جھولتے رہے۔ان نوجوانوں نے ایک چٹان پر چڑھ کر اپنے آپ کو سیلابی ریلے سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی مگر پانی کی سطح اور بہاﺅ بڑھتا ہی گیا۔سوشل میڈیا پر ویڈیو آئی تو ہر ایک نے صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے وہاں مدد کیلئے ہیلی کاپٹر بھیجنے کی اپیلیں کیں۔ہیلی کاپٹر جاتے کیسے؟وہ تو اپنے اپنے ”صاحبوں“کو مرتے لوگوں کے آسمان سے ”نظارے “کروارہے تھے۔علاقہ مکینوں نے اپنی مددآپ کے تحت رسیاں پھینکنے کی بہت کوشش کی مگر ہر کوشش بے سود رہی۔لوگ بے بسی ولاچارگی کے عالم میں ان بھائیوں کو دیکھ کر کلمے پڑھ رہے تھے جبکہ وہ پانچوں بھائی حسرت و آس بھری نگاہوں سے کبھی آسمان تو کبھی سیلابی ریلے کو دیکھتے نظر آتے ‘نہ آسمان سے کوئی مدد آئی ‘نہ زمین سے کوئی مدد مل سکی۔خوفناک سیلابی ریلے کو بڑھتا دیکھ کر پانچوں بھائی چیخ وپکار کیساتھ رونے لگے مگر کوئی مدد کو نہ آیا۔مدد کو کیسے کوئی آتا؟ٹھیک اسی وقت ایک سیاسی خاندان کی تصویر اور ویڈیو بھی منظر عام پر آئی جو کینیڈا میں نیاگرا فال کے پاس کھڑے آبشاروں کے مزے لیکر ہنس رہے تھے۔ہمارا ملک اتنا بھی غریب نہیں کہ اسکے پاس پانچ جانیں بچانے کیلئے ایک ہیلی کاپٹر ہی نہ ہو۔ہم تو اتنے امیر ہیں کہ دوران کرکٹ میچ بارش کی وجہ سے گراﺅنڈ کو سکھانے کیلئے بھی ہیلی کاپٹر استعمال کرتے ہیں۔ذرا سوچئے !کیا گزری ہوگی اس ماں پر جس کے پانچ لعل اس دنیا سے اسکی آنکھوں کے سامنے چلے جائیں‘کتنے سپنے ‘کتنی خواہشیں ان پانچ گھنٹوں میں گھٹ گھٹ کر دم توڑتی ہونگی‘کتنے آنسو‘کتنی آہیں ‘کتنی دعائیں اس ممتا کے دل سے نکلی ہونگی۔
معافی چاہتا ہوں آج الفاظ نہیں ملے
درد لکھ دیا ہے ‘محسوس کرلیجئے گا
سیلاب کی ان بے رحم موجوں سے بچ جانے والے ہمارے بے بس و لاچار لوگ نظریں جمائے بیٹھے ہیں کہ کوئی آئیگا‘انہیں بچائے گا‘انکی سنے گا۔ابھی تو وہ گاﺅں‘وہ دیہات بھی ہیں جہاں کسی سوشل میڈیا یا کسی بھی میڈیا کو رسائی حاصل نہیں‘جنکا اس دنیا سے ہر طرح کا رابطہ کٹ چکا ہے یا یوں کہہ لیں کہ دنیا کا ان سے ”واسطہ“کٹ چکا ہے۔ان غریبوں پر زمیں اتنی تنگ ہوچکی کہ دفنانے کیلئے خشک جگہ تک نہیں بچی۔کسی نے بتایا کہ ایک باپ نے اس طوفانی بارش کی وجہ سے مرنے والے اپنے ننھے معصوم بچے کو شاپنگ بیگ میں ڈال کر دفنادیا۔کتنا تکلیف دہ منظر ہوگاجسے لکھتے وقت بھی میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ایسے واقعات سن کر اور دیکھ کر کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔کس دل سے ‘کس جگر سے ‘کس حوصلے کیساتھ لوگ اپنوں کو سیلاب میں بہتے اور مرتے ڈوبتے دیکھ رہے ہونگے۔مائیں بین کررہی ہیں‘باپ سسک رہے ہیں۔ان کی نظریں سوال کررہی ہیں کہ آخر کیوں؟اس کیوں کا جواب ہمارے حکمرانوں کوبروز قیامت ضرور دینا ہوگا کہ انہوں نے ڈیم کیوں نہیں بنائے‘اسکی طرف توجہ کیوں نہیں دی‘کرسی کے کھیل سے باہر کیوںنہیں نکلے‘سیاست کی شطرنج میں اپنے اپنے گھوڑوں کو اپنے اپنے مفادات کیلئے کیوں استعمال کرتے رہے؟ایسے بہت سارے ”کیوں“ہیں جن کا جواب یقینا انہیں اپنے رب کے حضور پیش ہوکردینا ہوگا۔بروز قیامت ان کے گریبان ہونگے اور سیکڑوں بلکہ ان لاکھوں لوگوں کے ہاتھ ہونگے جو انکی ”سیاست کی بھینٹ“آج چڑھ گئے۔
کوئی مسیحا ادھر بھی دیکھے
کوئی تو چارہ گری کو اترے
افق کا چہرہ لہو میں تر ہے
زمیں جنازہ بنی ہوئی ہے
آج بھی وقت ہے ‘آگے بڑھیں ‘اپنی سیاست کو بھلا کر قدم سے قدم ملا کر نکلیں‘یہ وقت ہے اخوت کا‘رواداری کا‘انصار کا ‘یہ وقت ہے واقعی میں ایک پرچم کے سائے تلے ایک ہونے کا۔یہ وقت ہے خود کو ثابت کرنے کا‘اپنی آخرت سنوارنے کا‘خوف خدا کا۔کیوں نہ ہم ان کے غم کو سانجھا جانیں‘اس مشکل وقت میں انکا ساتھ دیں‘انہیں بھی زندگی جینے کا حق دیں‘انکا سہارا بنیں۔یہ وطن ہمارا گھر ہے ‘آئیں عزم کریں‘آگے بڑھیں ‘اپنے گھر کیلئے ‘گھر کے لوگوں کیلئے ۔جو لوگ کچھ نہیں کرسکتے وہ کم ازکم دعا تو کرسکتے ہیں ۔بے گھر ہونے والے افراد کی ایک بڑی تعداد یا تو عارضی طور پر لگائے گئے خیموں میں مقیم ہے یا کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہے۔
آئیں مل کر دعا کریں کہ اے اللہ!اپنے پیارے حبیب حضرت محمد کے صدقے ہمارے کبیرہ و صغیرہ گناہوں کو معاف فرمااورہمیں دنیا و آخرت کی تمام مصیبتوں و آفتوں سے اپنی پناہ میں رکھ۔تمام سیلاب زدگان کی غیبی مدد فرمااور ہم سب کو انکی مددکرنے کی توفیق عطا فرما(آمین)کیونکہ اب دعائیں ہی آخری سہارا ہیں۔آخر میں موجودہ تکلیف دہ صورتحال پر شہزاد نیّرکا ایک نوحہ ملاحظہ کیجئے۔
پانی پانی کے اِک شور میں کتنی چیخیں ڈوب گئیں
پہلے کچھ آوازیں ابھریں آخر سانسیں ڈوب گئیں
کون سِدھائے بپھرا پانی، کون اُسارے مٹّی کو
دریاؤں پر پشتے باندھنے والی بانہیں ڈوب گئیں
پانی کا عفریت اچھل کر شہ رگ تک آ پہنچا تھا
بچے جس پر بیٹھے تھے اس پیڑ کی شاخیں ڈوب گئیں
پتھر کوٹنے والے ہاتھوں میں بچوں کے لاشے تھے
شہر کو جانے والی ساری ٹوٹی سڑکیں ڈوب گئیں
بربادی پر گریہ کرنے کی مہلت بھی پاس نہ تھی
آنسو بہنے سے پہلے ہی سب کی آنکھیں ڈوب گئیں
بستی میں کہرام مچا تھا، آدم روزی مانگ رہا تھا
”رازق، رازق“ کہتے کہتے سب کی نبضیں ڈوب گئیں
نیّر جگ کی اونچ نیچ نے پانی کا رخ موڑ دیا
تیری مل تو وہیں کھڑی ہے،میری فصلیں ڈوب گئیں