
لائبریری میں سکوت اور خاموشی کی برف جمی ہوئی تھی۔کتاب اُٹھاتے وقت بھی دل چاہتا تھا ہاتھوں پہ روئ لپیٹی جاۓ۔پاس بیٹھے شخص کی سانسیں اس قدر آن لائن اور لائیو سنائ دے رہی تھیں کہ نتھنوں سے نکلنے والے مالیکیولز اگر سُنی آواز سے گِننا چاہو تو قدرے محال نا ہو۔اسی اثنا میں شاید ہم سے پرانی عداوت و بغاوت کا انتقام لینے کے واسطے کسی نے سٹیل کا ایک چمچ ہماری پسندیدہ کتاب کے ساتھ نمودار دراڑ میں رکھ دیا۔ہم آگے بڑھے ،لپکے،اور اپنی پسندیدہ کتاب کے رخساروں کو کچھ یوں ہتھیلیوں میں دبوچا کہ گویا برسوں کے بچھڑے دو محبوب۔۔لیکن اس رومینٹک سین کا مَرڈر دراڑ میں رکھے اُس چمچ نے کیا جو کتاب سے قبل ہی فراٹے بھرتا فرش پہ جا گِرا ۔۔۔بس پھر کیا تھا ،،چمچ اس درد ناک چوٹ کی تاب نا لاتے ہوئے زور و شور سے چیخنے چلانے لگا اور اس دوران اُس نے وہ وہ نغمات کہہ سناۓ کہ جن کے سرور و لے کو بیان کرنے کے واسطے الفاظ بھی سوری بول کر پتلی گلی نکل گئے ۔۔
لائبریری میں موجود پوری امتِ مسلمہ جو شدت سے غریقِ بحرِ بُک تھی چونک اُٹھی ،کئیوں کے ہاتھوں سے تو کتابیں چھلانگیں لگاتے لگاتے بچیں۔لائبریری ہیڈ صاحبہ بھی ناک کے کندھوں پہ چشمہ رکھے کسی کنوارے مصنف کی کتاب “شادی موجبِ آبادی” پڑھ رہی تھیں کہ یہ پُر ترنم دھماکا سنتے ہی اُن کے چشمے نے ٹیبل پر چھلانگ لگا دی۔لفظ بینی صفحہ بینی میں بدلی۔غصے کی ایک پھوار صاحبہ کے سرخ رخساروں سے نکلتی ہوئی ہم پر آ پڑی ۔ہم نے بنا جنبشِ لب پاؤں اُٹھایا اور چمچ کی گردن پر رکھ دیا اور اس تپش سے رکھا کہ گردن اُدھر،،دھڑ ادھر۔۔
پھر ہم کرسی کی تلاش میں لائبریری کے اندر الیکٹران کی طرح گھومنے لگے ۔چلتے چلتے ایک پراگندہ حال اور قریب المرگ کرسی مل ہی گئ۔آگے بڑھے اور کرسی کی طلب و محبت نے ہمیں بھلا ہی دیا کہ ہم لائبریری یعنی کمرۂِ خاموشاں میں ہیں۔کرسی کو بازو سے پکڑا اور ایک زور دار جھٹکے سے اُسے اپنی طرف ایسے کھینچا جیسے انڈین فلموں میں ہیرو ،ہیروَن کو کھینچتا ہے۔۔۔چرچراہٹ کی ایک خوفناک آواز پیدا ہوئی ۔ہمارے گاؤں میں اکابرین کی ایک بس ہوا کرتی تھی جب اُسے کَس کے بریک لگائی جاتی تو ایسی ہی آواز آیا کرتی تھی۔۔بس پھر کیا تھا لائبریری کی اس قوم کے جزبات پر یہ دوسرا حملہ تھا۔ایک مرتبہ پھر سب نے اپنی نگاہوں اور تیوریوں کے نشتر ہم پر آزماۓ۔لیکن ہم نے اپنے معصومانہ انداز سے سب کو سوری کا ڈوز دے کر شانت کر دیا۔۔۔پھر ہم دنیا سے روگردانی کر کے ورق گردانی کرنے لگے ۔اور ایک مرتبہ پھر لائبریری مردہ خانے کا منظر پیش کرنے لگی۔مردے یہاں بھی تھے اور وہاں بھی فرق صرف یہ تھا کہ وہاں سانسیں نہیں چلتیں،،یہاں وہ چل رہی تھیں لیکن خاموشی قدرے مشترک تھی۔
اب کی بار خاموشی کے اس بُت کو ایٹم بم ہمارے ایک قہقہے نے مارا تھا۔یہ قہقہہ فلک شگاف تو نہیں تھا ہاں چھت شگاف ضرور تھا۔۔ہمارے اس قہقہے نے سکوت کا جنازہ نکالا تو ارداگرد بیٹھے لوگوں کی بے اختیار ہنسی نے اسکی فاتحہ خوانی کی ۔۔ہمارا اب تیسرا اٹیک تھا اور تیسرا اٹیک صحت مند،،تگڑے بندے کو بھی آ جاۓ تو دھڑکنیں بند کر کے اُسے اگلے جہان ٹی۔سی۔ایس کر دیتا ہے۔۔
غرض ہماری شکم دراڑ ہنسی اب بےاختیار تھی۔ لائبریرئن صاحبہ نے بھی اپنی نظریں اب برسوں پڑے،دھول سے اَٹے ڈنڈے پر گاڑ دی تھیں۔اس سے قبل کے ڈنڈوں،جوتوں کی بارش کا آغاز ہوتا ہم گرج چمک دیکھتے ہی کتاب کھلی چھوڑے دروازے کی طرف بھاگے۔بھاگتے بھاگتے ہم نے شیشے کے بند دروازے کو کھُلا سمجھ کر ایک زور دار ٹکر اُسے رسید کی پھر ہینڈل کھینچتے،،گرتے، پڑتے،،دریاۓ ہنسی کے آگے بند باندھتے باہر نکل گئے ۔اب پوری لائبریری قہقہہ گاہ بن چکی تھی۔اور زندہ دلانِ شہر ہنسی سے لُوٹ پُوٹ ہو رہے تھے کہ اتنے میں ایک صاحب آگے بڑھے اور ہماری پسندیدہ کتاب کو اُلٹ کر نام پڑھنے لگے۔۔کتاب کا نام تھا
“”پطرس کے مضامین””
اور ” کتے” والا باب اوپن تھا
تب جا کر سب کو ہماری بے قراری اور اَن لمیٹیڈ قہقہوں کی وجہ سمجھ میں آئ۔۔۔
اب لائبریرئن ڈنڈا بجا کر خاموشی کی چادر دوبارہ بچھا چکی تھی اور ایک بار پھر سب اپنی اپنی کتابوں میں درگور ہو گئے