تحفظِ حقوقِ ماورائے صنف قانون کی شقوں پرایک نظر
مولانا ڈاکٹر محمدجہان یعقوب
اس قانون کی دفعہ 3میں کہا گیا ہے:
’’ایک’ماورائے صنف ہستی‘کو یہ حق حاصل ہو گا کہ اُسے اس کے اپنے خیال یا گمان یا زعم (Self Perceived) کے مطابق خواجہ سرا تسلیم کیا جائے ‘‘۔
تبصرہ:یعنی اس سے قطع نظر کہ وہ پیدائشی طور پر مردانہ خصوصیات کا حامل تھا یا زنانہ علامات کا؟ وہ اپنے بارے میں جیساگمان کرے یا وہ جیسا بننا چاہے، اس کے اس دعوے کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
ذیلی سیکشن2میں کہا گیا ہے :
’نادرا‘ [قومی رجسٹریشن اتھارٹی] سمیت تمام سرکاری محکموں کواس کے اپنے دعوے کے مطابق اُسے مرد یا عورت تسلیم کرنا ہو گا،اور اپنی طے کردہ جنس کے مطابق اُسے ’نادرا‘ سے قومی شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، چلڈرن رجسٹریشن سرٹیفکیٹ وغیرہ کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی‘‘۔
تبصرہ:اس دفعہ کے سقم کو دُور کرنے کے لیے کسی کی غیر واضح صنف کے تعین کو باقاعدہ طبی معائنے سے مشروط کر کے ہی شناختی کارڈ کا اجرا ہونا چاہیے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس قانون کی یہ شق مغرب میں ’ایل جی بی ٹی گروپ‘ کے مقاصد کی تکمیل کا سبب بنتی ہے۔کیونکہ اصولی طور پر تو کسی شخص کی پیدایش کے وقت جنسی اعتبار سے جو علامات ظاہر ہوں ،انھی کے مطابق ان کا جنسی تشخّص مقرر کیا جانا چاہیے ،لیکن اگر کسی کا دعویٰ ہو کہ بعد میں فطری ارتقاکے طور پر کسی کی جنس میں تغیر آگیا ہے ،تو اس کا فیصلہ طبی معائنے سے ہونا چاہیے ،نہ کہ اسے کسی شخص کے ذاتی خیال یا گمان یا خواہش پر چھوڑ دیا جائے۔ جیساکہ اس قانون میں کہا گیا ہے اور یہی عالمی سطح پر ’ایل جی بی ٹی گروپ‘ کا ایجنڈا ہے اور اسے مغرب میں پذیرائی مل رہی ہے ۔)
دفعہ4ذیلی دفعہ ’ہ‘ میں کہا گیا ہے:
’’ہرطرح کے سامان ،رہائش گاہ ، خدمات ، سہولتوں، فوائد ،استحقاق یا مواقع جو عام پبلک کے لیے وقف ہوتے ہیں یا رواجی طور پر عوام کو دستیاب ہوتے ہیں ، ’ماورائے صنف‘ کے لیے اُن سے استفادے یا راحت حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی ‘‘۔آگے کہا گیا ہے: ’’ماوراے صنف‘ کے لیے خصوصی جیل خانے ، حفاظتی تحویل میں لیے جانے کے مقامات وغیرہ الگ بنائے جائیں ‘‘۔
تبصرہ:آپ نے غور فرمایا: جیل خانے یا Confinement Cells (حفاظتی حراستی مراکز) تو خواجہ سرائوں کے لیے الگ ہوں، لیکن عام پبلک مقامات تک اُن کی رسائی کسی رکاوٹ کے بغیر ہو۔
مثلاً: کوئی مردانہ خصوصیات کا حامل خواجہ سرا ہے تو وہ بلاتردد زنانہ بیت الخلائیں اور غسل خانوں وغیرہ میں جا سکتا ہے،اس کے نتائج وعواقب خودسمجھ لیں!
تعجب ہے!
ایک طرف مردوزن کی تمیز کے بغیر عوامی مقامات پر کسی رکاوٹ کے بغیر رسائی کا مطالبہ اور دوسری طرف خصوصی جیل اور حفاظت خانوں کا مطالبہ!
کچھ سمجھے؟!!
ماوراے صنف‘ کے لیے وراثت میں حصے کی مناسبت سے قانون کی دفعہ5کی ذیلی دفعہ 3 میں کہا گیا ہے:
(الف): ’’۱۸ سال کی عمر کو پہنچنے پروراثت میں مرد خواجہ سرا کے لیے مرد کے برابر حصہ ہوگا ‘‘
(ب): ’’زنانہ خواجہ سرا کے لیے عورت کے برابر حصہ ہو گا ‘‘۔
(ج): ’’وہ خواجہ سرا جو مذکر اور مونث دونوں خصوصیات کا حامل ہو یا اس کی جنس واضح نہ ہو، تو اُسے مرد اور عورت دونوں کی اوسط کے برابر حصہ ملے گا۔
(د) : ۱۸سال سے کم عمر ہونے کی صورت میں اس کی جنس کا تعیُّن میڈیکل افسر طے کرے گا۔
تبصرہ:اسلام میں وراثت کےس اتھ عمر کاکوئی تعلق نہیں،۱۸ سال یا اس سے زیادہ عمر یا کم از کم عمر کے وارث کا وراثت میں حصہ ایک ہی ہے۔یہاں تک کہ اگر مُورِث کی وفات کے وقت کسی وارث کی عمر ایک دن یا چند دن تھی ،تو وہ بھی اپنی صِنف کے اعتبار سے برابر کا حصے دار ہو گا۔
اس لیے وراثت کوعمرکے ساتھ جوڑناقرآن کے صریح حکم کی صاف خلاف ورزی ہے،جوبغاوت ہے۔
کوئی کہے کہ ہم نے عمرکی قیدصنف کے تعین کے لیے رکھی ہےتواس کاجواب بھی واضح ہے کہ صنف کا تعیُّن پیدائش کے وقت سے ہی ہوجاتا ہے ،اس کا تعلق کسی کے ’’اپنے گمان وخیال یا خواہش‘‘کے ساتھ نہیں ہے اور اگر اس بارے میں کوئی ابہام ہے اور طبی معائنے سے طے کرنا ہے ،توبھی اس میں اٹھارہ سال یا اس سے کم عمر میں کوئی تفریق روا نہیں رکھی جاسکتی۔
اس قانون کا مقصد یہ ہے کہ اگرکوئی عورت ہوتے ہوئے اپنے آپ کو مرد قرار دے ڈالے ،تو اس کا حصہ عورت کے مقابلے میں دگنا ہو جائے گا۔اگرچہ وہ حصہ لینے کے بعداس سے مُکرجائے۔
دوہزارسترہ میں ہونے والی غفلت کی تلافی کے لیے قائدپی ڈی ایم وامیرجمعیت علمائے اسلام مولانافضل الرحمٰن کا یہ بیان ہواکے تازہ جھونکے اورامیدکی تاب ناک کرن ہے کہ ہم نے اس قانون کی شقوں کا تمام جہات سےجائزہ لے لیاہے،متبادل قانون بھی تیارکرلیاہے اوراکابرعلمائے کرام کی توثیق کے بعداسے پیش کریں گے۔کاش!اس معمالے کوشروع میں ہی سنجیدگی سے لیاجاتااوریہ کام جواب کیاجارہاہے اُس وقت کیاجاتا،خیردیرآیددرست آید،اللہ کرے کہ اُن کایہ بیان محض دفع الوقتی کے لیےنہ ہو،وہ اِس وقت ملک کے طاقت ورترین سیاست دان ہیں اوراگروہ چاہیں تواس قانون کونافذہونے سے نہ صرف روک سکتے ہیں،بلکہ متبادل ایساقانون بھی منظورکراسکتے ہیں جس سے حقیقی خواجہ سراوں کے حقوق کاتحفظ بھی ہواوراللہ کی بنائی ہوئی تخلیق میں تبدیلی،نیزملک میں بے حیائی وہم جنس پرستی پھیلانے کی کوششوں کابھی سدباب ہوسکے۔