63

تربیت اولاد (حصہ سوم)/ بچے یا اچھے بچے/تحریر / محمد ذیشان بٹ/راولپنڈی

اللہ پاک کے فضل و احسان بے انتہا ہیں ان کا کوئی شمار نہیں اس نے ہمیں مسلمان بنایا ۔ اپنے آخری نبی کا امتی بنایا – اس کے بعد انسان کا صاحب اولاد ہونا ایک عظیم نعمت ہے.اس نعمت کی قدر ان سے پوچھے جن کے پاس یہ نہیں کیوں کہ خالقِ کائنات نے انسانوں کی بڑھوتی کا عمل بھی انسانوں سے رکھا ہے ۔ تمام مخلوقات کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا ہے۔ خود قرآن پاک میں خالقِ کائنات نے فرمایا ہے کہ ” آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالی ہی کے لئے ہے- وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے اور جیسے چاہتا ہے جمع کر دیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے- وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے-” یہ ایک نعمت کے ساتھ ساتھ عظیم ذمہ داری بھی ہے ۔ ایک اور موقع پر خالق کائنات ارشاد فرماتے ہیں کہ” اور تم اس بات کو جان رکھو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک امتحان ہے اور اس بات کو جان رکھو کہ اللہ تعالی کے پاس بڑا اجر ہے” اس آیت مبارکہ سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ والدین ہونا ایک عظیم ذمہ داری ہے اور اس کو صحیح انجام دینے پر بہت بڑا اجر ہے۔ وگرنہ اس کی سزا دنیا اور آخرت دونوں میں بھگتنی پڑتی ہے ۔ اسی لیے ہمارے اسلاف نیک اولاد کی دعا کرنے کی تلقین کرتے ہیں ۔
اس سلسلے میں اگر ہمارے موضوع کو سوال بنا کر تمام والدین کے سامنے رکھا جائے کہ آپ کو بچے چاہیں یا اچھے بچے ؟ تو اس میں سب کا جواب یہی ہوگا کہ ہر حال میں اچھے بچے چاہیں تو انتہائی ادب سے مجھ سمیت تمام والدین سے گزارش ہے کہ بچے اچھے یا برے ہوتے ہی نہیں ہیں بچے صرف بچے ہوتے ہیں ۔ اگر ہمیں اپنے بچے کو اچھا بنانا ہے تو ہمیں انہیں وہ ماحول پیدا کر کے دینا ہوگا – ماہرین نفسیات اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ بچے تقریری طریقے سے بہت کم سیکھتے ہیں وہ عملی ماحول سے بہت جلد سیکھ جاتے ہیں یہ والدین پر منحصر ہے کہ آپ اپنے بچے کو کیا بنانا چاہتے ہیں ہمارے محترم شفیق استاد مولانا ابو حفص طاہر کلیم صاحب کی جمعہ کی شعلہ بیان عمران خان مخالف تقریر سن کر متاثر ہو کر اپنے بچے کو عالم دین بنانے کا ارادہ کر لینا کافی نہیں کیونکہ اگر آپ اپنی مسجد کی حاضری کو دیکھیں تو وہ صرف جمعہ کے جمعہ ہے اور وہ صرف فرض نماز تک محدود جب کہ استاد محترم کے والد مولانا حسین کلیم وہ ایک بہت بڑے باعمل عالم دین تھے میں نے آج تک کسی ایک شخص سے ان کے بارے میں ایک دن منفی جملہ تک نہیں سنا ان کی محنت اور عمل کا نتیجہ تھا کہ ان کے بیٹے بھی عالمِ دین بنے اس طرح آپ جو خوبی اپنے بچے میں پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ آپ میں ہو۔ اگر آپ کی یہ خواہش ہے کہ آپ کا بچہ والدین اور بڑوں کی عزت کرے تو آپ کو اسے یہ ماحول مہیا کرنا ہوگا ۔
دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ خود اپنے بچے کی عزت کریں جیسے اگر آپ نے کسی بڑے شخص سے یا مہمان کو جگہ تبدیل کرنے کا کہنا ہو یا ٹی وی کی آواز آہستہ کرنے کا بولنا ہوتو عاجزی اور نرم لہجے کا استعمال کریں کہ آپ بُرا نہ مانیں تو آپ یہاں بیٹھ جائیں یا ٹی وی کی آواز کم کر دیں اس طرح آپ کے بچے بھی اسی رویے کی امید رکھتے ہیں بچے کی تربیت میں جو سب اہم غلطی کرتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کی اصلاح کی طرف توجہ دیتے ہیں یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے دھول چہرے پہ ہے اور ہم آئینہ صاف کررہے ہوں تربیتِ اولاد کا مطلب ہی یہ ہے کہ والدین نے خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنی ہیں- اگر آپ کے گھر بڑی گاڑیوں ، نئے موبائل اور نئے ڈیزائن کے کپڑوں کا ذکر رہتا ہے ، رشتے داروں کو نیچا دکھانے پر زور ہے ، تعلقات کی بنیاد دنیا داری ہے ، مریض کی عیادت یا میت کی تعزیت پراس لیے جارہے ہیں کہ کل وہ لوگ بھی آئے تھے تو معذرت کے ساتھ آپ کا بچہ باعمل نہیں بن پائے گا ۔
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ آپ کے گھر میں کتنے لوگ ہیں ان کا آپس میں کیا تعلق ہے خوصوصاً میاں بیوی کا آپس میں اگر وہ ہی ہر روز لڑتے رہتے ہیں بیوی کے شکوے اور خاوند کے طعنے ختم نہیں ہوتے تو بہت معذرت کے ساتھ آپ کی اولاد کبھی بھی معاشرے کے لیے مفید ثابت نہیں ہوسکتی اس میں میں زیادہ ذمہ دار شوہر کو سمجھتا ہوں کیونکہ گھر کے سربراہ کے طور پر اچھا اور خوشگوار ماحول بنا کر دینا اُن کی ذمہ داری ہے اور اس کے لئے کچھ خاص نہیں کرنا صرف یہ کہ برداشت، تحمل، گھریلو کاموں میں مدد ، بیوی کی عزت کرنا اوریقین جانیے یہ سب ضائع نہیں جائے گا کل جب لوگ آپ کے بچے کی تعریف کریں گے کہ بہت اچھا انسان ہے اہل خانہ کا بہت خیال رکھتا ہے اس وقت آپ پھولے نہیں سمائیں گے ۔ میں بچوں کی تربیت کے لیے اکثر یہ مثال دیا کرتا ہوں کہ بچے برف میں چینی گھولنے کے مترادف ہیں۔
وقت تو لگے گا تھوڑا نہیں مکمل غور کیجئے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں