“31 مئی” انسداد تمباکو نوشی کا عالمی دن
منشیات کا تدارک انفرادی، معاشرتی، حکومتی اور قومی ذمہ داری ہے
منشیات ایسا قدرتی، طبعی یا کیمیائی مواد ہے جو انسان کی جسمانی و ذہنی صحت کو شدید متاثر کرتا ہے۔ تاریخِ انسانی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زمانہِ قدیم ہی سے منشیات جن میں تمباکو اور شراب نوشی سرِ فہرست ہے کا استعمال چلا آ رہا ہے۔ مصر کے فرعون اور روم کے بادشاہ اپنی عیاشی کی محافل اور شاہی تقریبات میں شراب کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ برِعظیم پاک و ہند میں بھی حکمرانوں اور عوام میں تمباکو، شراب اور بھنگ کا استعمال عام تھا۔ اگرکہا جائے کہ انسان اور منشیات کا چولی دامن کا ساتھ ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ دورِ جدید میں بھی منشیات کی نِت نئی اقسام کی ایجادات اور استعمال میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس مختلف انسان دوست قوتیں جو منشیات کے نقصانات اور مضر اثرات کو بیان کر کے انسانیت کو منشیات سے دور رکھنے میں کوشاں ہیں۔ اس سلسلے میں عوام میں تمباکو نوشی کے نتیجے میں جنم لینے والی بیماریوں اور دیگر نقصانات کے خلاف شعور اجاگر کرنے کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 31 مئی کو “انسداد تمباکو نوشی کا عالمی دن” منایا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں تقریباً بیس فیصد لوگ سگریٹ سمیت مختلف طریقوں سے تمباکو اپنے جسم میں اتارتے ہیں۔ فروغِ منشیات میں تمباکو ہیرو کا کردار ادا کرتا ہے۔ تمباکو ایک ایسا پودا ہے جس کے پتوں میں مختلف گیسیں اور چار ہزار سے زائد کیمیکل موجود ہوتے ہیں جو گلے اور پھیپھڑوں کے کینسر کے علاوہ دل، معدہ، جگر، لبلبہ، سانس اور دیگر بہت سی مہلک بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ ماہرینِ طب کے مطابق پھیپھڑوں کا کینسر ایک ایسی بیماری ہے جس کے دو تہائی مریض ڈاکٹر کے پاس اس وقت پہنچتے ہیں جب مرض شدت اختیار کر چکا ہوتا ہے اور اس کا علاج مشکل ہو جاتاہے۔ سگریٹ، پان اور نسوار تیار کرنے والی کمپنیاں اپنے برینڈ کی عادت ڈالنے کے لیے تمباکو میں ہیروئن اور کوکین وغیرہ شامل کرتی ہیں جس سے تمباکو کی ہلاکت خیزی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔یہ ایک ایسی موت ہے جس کو خود پیسے دے کر خریدا جاتا ہے۔ اس زہر سے نہ صرف سگریٹ پینے والا خود متاثر ہوتا ہے بلکہ اپنے آس پاس موجود دوستوں اور پیاروں کو بھی نادانستہ طور پر نقصان پہنچاتا ہے۔
تمباکو نوشی ایک انتہائی خطرناک نشہ ہے۔جنوبی ایشیاء میں سب سے زیادہ تمباکو استعمال کرنے والا ملک پاکستان ہے۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق پاکستان میں 46 فیصد مرد اور 7 فیصد خواتین حقہ، سگریٹ، پان اور نسوار کی صورت میں تمباکو کا استعمال کرتی ہیں۔ پاکستان میں قانونی طور پر سگریٹ کی تمام اقسام کے ہر پیکٹ پر “تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر ہے” لکھا جاتا ہے۔ پھر بھی ہمارے نوجوان سگریٹ کے کش لگا کر ہیرو بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں منشیات (تمباکو) کی کاشت، تیاری، تقسیم اور فروخت کو کنٹرول اور ختم کرنے کے لیے وفاقی ادارے “اینٹی نارکوٹکس فورس، پاکستان” نے ایک پمفلٹ کے ذریعے پیغام دیا ہے:
“منشیات کا تدارک صرف فرد واحد یا ریاست کی نہیں بلکہ معاشرتی اور قومی ذمہ داری ہے جس کی تکمیل کا فرض ہم سب پر لازم ہے۔ اگر ہمیں انسانی معاشرے بالخصوص نوجوان نسل کو منشیات کی وبا سے محفوظ رکھنا ہے اور منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کو روکنا ہے تو ہمیں نشے کی عادت اور رجحانات کا سبب بننے والے حالات و محرکات کی شناخت کرنا ہو گی اور ان کا پائیدار حل تلاش کرنا ہو گا۔”
اکثر تمباکو نوش افراد یہ ارداہ کرتے ہیں کہ وہ جلد ہی اس بری عادت کو چھوڑ دیں گے لیکن بہت کم لوگ ایسا کر پاتے ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ تمباکو میں نکوٹین کی موجودگی ہے جو دماغ پر ایسے اثرا ت ڈالتی ہے جس سے انسان کو تمباکوکی طلب محسوس ہوتی رہتی ہے۔ اگرچہ اب ایسی ادویات دستیاب ہیں جو اس لت سے چھٹکارہ حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود تمباکو نوش افراد کی قوتِ ارادی سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ بلکہ کئی ایسے مریض جن کے پھیپھڑے کینسر کی وجہ سے تباہ ہو چکے ہوتے ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ سگریٹ چھوڑنا مشکل ہے۔ سگریٹ کی عادت سے چھٹکارہ صرف اس وقت ممکن ہے جب مریض کا اپنا ارادہ مظبوط ہو۔ افسوس کہ پاکستان کی آبادی کا 40 فیصد حصہ سگریٹ، پان، گٹکا اور بیڑی کے ذریعے تمباکو نوشی کا شکار ہے۔
دنیا میں لاکھوں انسانیت دشمن افراد کا گروہ ڈرگ مافیا کی شکل میں موجود ہے۔ جو منشیات کی پیداوار، تیاری، سپلائی اور فروخت میں نہایت کامیابی سے مصروفِ عمل ہے۔ جس نے دنیا بھر کی اینٹی ڈرگز تنظیموں، ایجنسیوں اور اداروں کو بھی مفلوج کر رکھا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر منشیات افغانستان کے ذریعے سمگل ہو کر پہنچتی ہیں۔ جس کا حجم 2 ارب ڈالر ہے۔ دنیا بھر میں پوست کی کاشت میں افغانستان جبکہ اعلیٰ کوالٹی کا تمباکو پیدا کرنے میں پاکستان سرِ فہرست ہے۔ ہیروئن اور چرس کی پیداوار میں بھی افغانستان سب سے بڑا ملک ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق دنیا کی 90 فیصد ہیروئن افغانستان میں تیار کی جاتی ہے۔ افغانستان میں سالانہ تقریباً ساڑھے چار ارب ڈالر کی منشیات پیدا کر کے دنیا بھر میں غیر قانونی طور پر فروخت کی جاتی ہیں۔
معاشرے کو منشیات کی وباء سے پاک کرنا ایک قومی فریضہ ہے جس میں تمام افراد بالخصوص والدین، اساتذہ، سماجی کارکنان اور علماء کو حتیٰ المقدور کردار ادا کرنا چاہیے۔ تاکہ نوجوانوں کو سگریٹ نوشی سے دور رہنے اور تندرستی اور زندگی سے پیار کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔ کرہ ارض پر تمباکو سمیت دیگر منشیات کی پیداوار، تقسیم اور فروخت بہت وسیع پیمانے پر ہو رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں منشیات کی ناجائز تجارت اور سمگلنگ کا حجم 321.1 ارب ڈالر ہے جو دنیا کی کل تجارت کا تقریباً ایک فیصد ہے۔ مذکورہ صورتحال میں بین الاقوامی کنٹرول کے ذریعے منشیات کی پیداوار، ترسیل اور فروخت وغیرہ کو کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں خصوصاً امریکہ اور یورپ میں تمباکو نوشی کی شرح میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس تبدیلی کی ایک وجہ تو لوگوں میں اس حوالے سے آگاہی ہے تو دوسری اہم وجہ وہاں کی حکومتوں کی جانب سے اس حوالے سے سخت قوانین کا نفاذ بھی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اب عوامی مقامات پر تمباکو نوشی کرنا قابلِ سزا جرم ہے۔ اس طرح ان ممالک میں اس عادت کی حوصلہ شکنی کے لیے سگریٹ کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ کیا گیا ہے۔ پاکستان میں بھی قانونی طور پر عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی کرنا جرم ہے۔ آج اس قانون پر عمل درآمد کی اشد ضرورت ہے تا کہ آنے والی نسلیں اس تباہی سے بچ سکیں۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں حکومت کی جانب سے عملی طور پر جامع اور ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جاتے بلکہ صرف اینٹی سموکنگ ڈے منانے پر ہی اکتفاء کیا جاتا ہے۔