ابا جان کسی امیر یا بڑے جاگیر دار گھرانے میں پیدا نہیں ہوئے تھے، عملی زندگی کا آغاز محنت مشقت سے کیا تھا، وہ کنستروں میں مٹی کا تیل بھر کر فروخت کرتے تھے، ریلوے کے ذریعے آئے تیل کے ڈرموں کو ٹانگوں اور ہاتھوں سے رول کرکے اللہ داد بازار میں لانا پھر اسے گھی کے خالی ٹین میں بھر کر انہیں ٹانکے لگانا محنت طلب کام تھا۔
میں نے ہوش سنبھالا تو ایک اچھا گھر تھا، خوشحالی تھی اور گیراج میں گاڑی تھی، اللہ کریم نے ابو جان کی محنت میں ایسی برکت ڈالی تھی کہ وہ چار بڑے آئل ٹینکرز، دو پیٹرول پمپس کے مالک اور پی ایس او کمپنی کے کیرج کنٹریکٹر بن چکے تھے،
استطاعت کے باوجود میں نے پوری زندگی ابو جان کو خود کیلئے کچھ خریدتے نہیں دیکھا، لیکن میرے لئے شہر کا بہترین اسکول، دوسرے شہر میں اعلی تعلیم، مرضی کی شادی، علیحدہ نیا مکان، اپنا کاروبار شروع کرنے کیلئے سرمایہ اپنے وقت پر سب کچھ دستیاب پایا۔ انھوں اپنی زندگی میں ہی جائیداد تقسیم کرکے ایک مثال قائم کردی تھی۔
آج بھی بچپن کی وہ شامیں ذہن پر نقش ہیں جب ابوجان دھوتی پہن کر سونے کیلئے لیٹتے تو انکے ننگے پیٹ پر منہ رکھ کر عجیب آوازیں نکالنے کی کوشش کرتا تو کبھی انکے نپل کو ننھی انگلیوں سے دبا کر انکے منہ سے گاڑی کے ہارن جیسی آواز سنتا، ان آوازوں کو سن کر مجھے خوشی سے نہال ہوتا دیکھتے تو کھینچ کر سینے سے لگا لیتے انکی آغوش میں جو سکون ملتا وہ الفاظ میں بیان کرنا شاید ممکن نہیں۔
وہ کافی عرصہ تک دمہ اور شوگر جیسی بیماریوں سے نبردآزما رہے شاید وہ ان بیماریوں کا مزید مقابلہ بھی کرپاتے لیکن جنوری 2012 میں امی جان کے انتقال نے ان کے حوصلے پست کردئیے تھے، وہ نصف صدی پر محیط زندگی کے کٹھن راستوں کے ہمسفر کی جدائی برداشت نہ کر پائے، صرف چار ماہ بعد مئی 2012 میں جہان فانی سے رخصت ہوئے تو اولاد کے تمام فرائض سے فراغت حاصل کرچکے تھے۔
اس میں شک نہیں اولاد کے لئے آئیڈیل انکا باپ ہی ہوتا ہے لیکن کچھ باتیں جوانی میں سمجھ نہیں آتیں یا ہم سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ،اسلئے کہ ہمارے سامنے وقت کی ضرورتیں ہوتی ہے، دنیا سے مقابلے کا بھوت سوار ہوتا ہے، جلد سے جلد سب کچھ پانے کی جستجو میں ہم کچھ کھو بھی رہے ہوتے ہیں۔ جس کا احساس بہت دیر سے ہوتا ہے،
وقت اتنی تیزی سے گزر گیا آج انہی کہانیوں کو اپنے ارد گرد منڈلاتے دیکھ رہا ہوں. جوانی، پڑھائی، شادی ،اولاد اور پھر وہی اسٹیج وہی کردار جس کو نبھاتے ہوئے ابو جان کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آتا ہے، والد کی ہر سوچ، احساس فکر، پریشانی، شرمندگی اور اذیت کو خود پر عیاں ہوتے دیکھتا ہوں۔
خیالوں میں گم رہنا، منہ میں کچھ بڑبڑاتے ہوئے ہاتھوں کو ہوا میں حرکت دینا، بے وجہ کی خاموشی، دن بھر کی پریشانیوں کو بھلانے کیلئے دوستوں کے ساتھ لڈو کھیلنا، بے وجہ قہقہے، نئے کپڑوں کو ناپسند کرنا، پرانے کپڑے پہن لینا، سوکھی روٹی لسی اور اچار کے ساتھ کھا لینا، اکیلے چار پائی پر تاش کے پتے بکھیر کر سر جھکائے سوچوں میں مگن رہنا اب سمجھ تو آتا ہے، جب ہم خود دوسرے شہروں میں پڑھائی کیلئے گئے بچوں کیلئے رب کریم سے خیر کی التجا کرتے ہیں جب رب کائنات کی بارگاہ میں اٹھے ہاتھ کپکپاتے ہیں تو اپنی دعاؤں کو بھول کر ماضی کے جھروکوں میں گم ہو جاتے ہیں۔
اکثر اولاد کو باپ بہت دیر سے یاد آتا ہے، اتنی دیر سے کہ ہم اسے چھونے، محسوس کرنے، اس کی ہر تلخی، اذیت، فکر کا ازالہ کرنے سے محروم ہو چکے ہوتے ہیں. یہ ایک عجیب احساس ہے، جو وقت کے بعد اولاد کو بےچین کرتا ہے، لیکن یہ حقیقت جن پر عیاں ہوجاتی ہے میری نظر میں وہی خوش قسمت لوگ ہیں۔
ہم جیسے سفید پوش لوگوں کی ہر خواہش، ہر دعا، ہر تمنا، اولاد سے شروع ہو کر اولاد پر ختم ہو جاتی ہے. لیکن کم ہی باپ ہوں گے جو یہ احساس اپنی اولاد کو اپنی زندگی میں دلا سکے ہوں. یہ ایک چھپا، میٹھا میٹھا درد ہے جو باپ اپنے ساتھ لے جاتا ہے ،اولاد کے لئے بہت کچھ کرکے بھی کچھ نہ کرسکنے کی ایک خلش آخری وقت تک اسکو بے چین رکھتی ہے اور یہ سب بہت شدت سے محسوس ہوتا ہے جب ہم باپ بنتے ہیں بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو یہ جذبۂ پدری جیسے قدرت ہمارے دلوں میں منتقل کر دیتی ہے. اولاد اگر باپ کے دل میں اپنے لئے محبت کو کھلی آنکھوں سے وقت پر دیکھ لے تو شاید اسے یقین ہو جائے کہ دنیا میں باپ سے زیادہ اولاد کا کوئی دوست نہیں.
