جنوبی ایشیائی ممالک مختلف قوموں ، ثقافتوں اور رنگ و نسل کے لوگوں کا ایک متنوع مجموعہ ہیں جہاں کے زمینی حقائق اور حالات ایک دوجے سے قدرے مختلف ہیں۔ اسی جنوبی ایشیا میں دو لاکھ افراد کی آبادی اور 298 مربع کلومیٹر کے مالدیپ سے لے کر ایک بلین کی آبادی اور 3.3 ملین مربع کیلومیٹر تک کے بھارت تک مختلف ممالک موجود ہیں۔ یہاں کے باسی ہندو ، سکھ ، مسلم ، بدھ اور دیگر کئی مذاہب کے پیرو ہیں۔ مگر باوجود اس تنوع کے ان ممالک کی معاشی پالیسیوں کا رجحان ہر دور میں قریباً ایک سا رہا۔ بھارت اور سری لنکا کی جمہوری حکومتیں ہوں یا نیپال اور بھوٹان کی بادشاہتیں یا پھر بنگلادیش اور پاکستان میں فوجی آمریتیں ، تمام سیاسی ماڈلز مختلف ہونے کے باوجود جنوبی ایشیا کی ریاستیں ہر دور میں ایک سی معاشی پالیسیوں پر گامزن رہیں۔ سب سے پہلے جو معاشی ماڈل زیر انتظام رہا وہ نوآبادیاتی تسلط سے قبل وہ مقامی ماڈل تھا جو ریونیو جمع کرنا ، مقامی عدالتوں کے قیام ، تحصیلی سرکار اور پٹواری سسٹم کی موجودگی پر بنیاد رکھتا تھا۔ اس کے بعد 1857 سے قائم ہونے والے نو آبادیاتی نظام نے معاشی ڈھانچے کو تبدیل کر کے ایک نیا ماڈل متعارف کروایا جو جنوبی ایشیا کی تاریخ میں پہلی بار باقاعدہ اداروں کے قیام اور انتظام پر بنیاد رکھتا تھا۔ اب جنوبی ایشیا میں پہلی مرتبہ فرائض اور ان کے ذمہ داروں کی باقاعدہ درجہ بندی واضح کی گئی اور اس استقرائی ڈھانچے کو ایک مسلمہ حقیقت کی صورت مسلط کردیا گیا۔ اس ماڈل میں میریٹ کو بنیادی پیمانہ وضع کیا گیا اور اداروں کو ان کی زمہ داریاں تفویض کرنا ، ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیئے افراد کی درجہ بندی تشکیل دی جانا ، یہ سب جنوبی ایشیا کے سماجوں کا معاشی ڈھانچہ نہ صرف تبدیل کرچکا تھا بلکہ اسے منظم اور مربوط فریم ورک میں بھی ڈھال دیا گیا۔ یہیں سے باقاعدہ ماہانہ معاوضوں پر ملازمین کو ذمہ داریاں دینے کا رواج قائم ہوا۔ ( یاد رہے کہ اس منظم نظام کا کریڈٹ برطانوی سامراج کو نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس نظام کو قائم کرنے کا مقصد حکومت کرنے میں آسانی پیدا کرنا تھا نہ کہ مقامی عوام کو سہولت دینا ) اس نو آبادیاتی ماڈل کو رائج کرتے ہوئے پرانے مقامی اور جاگیردارنہ تسلط سے ٹکراؤ بھی بہرطور پیش آتا رہا۔ نو آبادیات کے پورے دور میں یہی منظم معاشی ڈھانچہ کام کرتا رہا۔ برطانوی سامراج کے ختم ہوجانے کے بعد جنوبی ایشیا میں معیشت کا جو نیا نظام متعارف کروایا گیا وہ گو کہ نو آبادیاتی دور میں قائم کردہ اداروں اور درجہ بندیوں پر ہی بنیاد رکھتا تھا مگر اب اس تمام معیشت کا چکہ ریاستی حکومتوں نے اپنے ہاتھ لے لیا ۔ معاشی سیاست میں اس نظام کو ” ڈویلپمنٹ ماڈل “ بھی کہا جاتا ہے۔ اس نظام معیشت میں ریاستوں نے معاشی اشاریے اور اداریے خود ترتیب دینے کا فیصلہ کیا۔ نجی معاشی دائرے ریاست کے دست طاقت کے ذیل میں رکھے گئے۔ اس نظام کے بنیادی مقاصد میں غربت کا خاتمہ ، ذرائع آمدن بڑھانا ، شرح خواندگی بڑھانا اور قومیت کی یکجہتی کو مضبوط کرنا تھے۔ سو اسی لیئے اس نظام میں ریاست کو کنڑول کا محور اور مرکز رکھا گیا۔ ریاستوں نے طے کردہ معیشت ( planned economy ) اور نجی املاک کو قومی تحویل میں لینا ( nationalisation ) کی پالیسیاں اپنائیں۔ اس کی اک وجہ سرمایہ داریت اور اشتراکیت میں جاری سرد جنگ بھی تھی ۔ اور پاکستان میں بھٹو حکومت ہو یا 1975 میں بنگلادیش میں سوشلسٹ حکومت قائم ہونا ، جنوبی ایشیا میں اشتراکیت کے قرین معاشی رجحان پایا جاتا رہا۔ جنوبی ایشیائی ریاستوں کا یہ معاشی نظام بیان کردہ مقاصد میں خاطر خواہ کامیابی نہ حال کرسکا اور شومئی قسمت کہ اسی اثناء میں سویت ٹوٹ گیا اور یوں اشتراکیت کو مکمل شکست ہوگئی۔ اب دنیا میں مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام ہی مختار کل تھا سو جنوبی ایشیائی ریاستوں میں بھی اب مارکیٹ بیس اکانومی اور نجی کاری کا رجحان آنے لگا۔ 80 کے اوائل سے بنگلادیش حکومت طے کردہ معیشت سے آزاد منڈی کے ماڈل کی جانب سرکنے لگی۔ خالدہ ضیا اور شیخ حسینہ کی بنگلادیشی حکومتوں نے اب سرمایہ داری نظام کو فروغ دینا شروع کردیا ۔اداروں کی نجی کاری کی جانے لگی اور معیشت کا چکہ آزادی منڈیوں کے سپرد ہوا۔ پاکستان میں بھی ضیاء کے دور میں اس معاشی ماڈل کا رجحان غالب آگیا۔ بھوٹان حکومت بھی 1980 کے بعد نجی املاک پر منحصر ہونے لگی ۔ بھارت میں بھی 1984 سے راجیو گاندھی کی حکومت نے لبرل معاشی ماڈل اختیار کرلیا اور نیپال میں بھی پبلک سیکٹر سے نجی سیکٹر کی جانب رخ ہونے لگا اور جلد ہی سری لنکا بھی اب نجی کاری کی جانب رخ کرچکا تھا ۔۔ سو یوں وقت کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا کی تمام ریاستیں سیاسی ، سماجی ، معاشرتی ، اخلاقی اور مذہبی طور پر ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہونے کے باوجود بھی ہمیشہ ایک سا معاشی نظام اپناتی رہیں۔ ان رجحانات کے کیا نتائج آئے اور کیونکر سالہاسال ایک سا معاشی پلان اپنانے کے باوجود جنوبی ایشیا میں کچھ ریاستیں پاکستان اور سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ کرگئیں اور کوئی بھارت اور بنگلادیش کی طرح ترقی کی شاہراؤں پر بہت آگے نکل گیا ، اگلی تحریر میں اس بابت بھی مدلل گفتگو ہوگی۔

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل