87

جنوبی ایشیا کی بدلتی معاشی پالیسیاں اور خمیازہ(قسط نمبر 2) /تحریر/احتشام الحق باغی

1980 کی دہائی میں سویت کے ٹوٹنے کے بعد دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ جمہوریت اور لبرل معیشت کا ماڈل اپنایا جانے لگا۔ فرانسس فوکویاما سمیت بہت سے محققین یہ دعویٰ کرنے لگے کہ اب چونکہ اشتراکی نظام حکومت کے نظریے کو شکست ہو چکی ہے لہذا سوشلسٹ نظام معیشت بھی قابلِ عمل نہیں رہا اور یوں دنیا بھر کے ممالک میں سرمایہ داریت غالب آنے لگی۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی اسی کی دہائی میں بنگلادیش ، پاکستان ، بھارت ، نیپال ، سری لنکا اور بھوٹان آزاد منڈیوں کی تجارت کا رخ کر چکے تھے۔ اب ریاستی سطح پر یہ مان لیا گیا تھا کہ ملکی ترقی کا واحد ذریعہ لبرل معاشی نظام ہی ہے۔ اسی ضمن میں ان ممالک نے ایسے اداروں کی بنیاد رکھی اور ایسے اقدامات کیے جو ملکی معیشت کو نجی کاری کی جانب گامزن کریں۔ بنگلادیش میں ” پرائیویٹائزیشن بورڈ “ ، ” بورڈ آف انوسٹمنٹ “ اور ” نیشنل کمیشن فار ریفارمنگ گورنمنٹ “ جیسے ادارے قائم کر کے نجی کاری کو فروغ دیا گیا اور بنگلادیش کے ان اقدامات کو عالمی سطح پر عالمی مالیاتی بینک کی رپورٹ ” بنگلادیش: ایجنڈا فار ایکشن (1997) “ میں سراہا بھی گیا۔ بھارتی حکومت نے بھی ” ایڈمنسٹریٹو ریفارمز کمیشن “ ، ” ڈس انوسٹمنٹ کمیشن “ اور ” انوسٹمنٹ اینڈ پروجیکٹ مانیٹرنگ ” جیسے ادارے قائم کیے۔ بھارتی ریاست نے ” انڈین انوسٹمنٹ سنٹر “ کے ذریعے ملک میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کیے۔ نیپال میں بھی ” انڈسٹریل پروموشن بورڈ “ کے ذریعے آزاد معیشت کو فروغ دیا جانے لگا۔ پاکستان نے ” پرائیویٹزشن کمیشن “ اور سری لنکا نے ” پبلک انٹرپرائزز ریفارم کمیشن “ قائم کیے اور سرمایہ کاری کو فروغ دیا ۔ اب چونکے جنوبی ایشیائی ممالک سرمایہ دارانہ نظام معیشت کو ہی واحد مسیحا مان چکے تھے سو ریاست کا معیشت میں دخل کم سے کم کرنے کے لیئے ریاستی ادارے نجی کاری کے ذریعے فروخت کیے جانے لگے۔ اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ ریاستی اداروں میں موجود ملازمین تیزی سے بیروزگار ہونے لگے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق نجی کاری کے اس عمل میں بنگلادیش کی صرف کپڑے کی صنعت سے ہی 7500 ملازمین یکمشت بیروزگار ہوگئے۔ صرف 1990 تک بنگلادیش میں 609 چھوٹی بڑی سرکاری صنعتوں کی نجی کاری کی جاچکی تھی۔ بھارت کی صنعت میں دس سال کے دوران تیس فیصد ملازمین اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مزید برآں 11 بڑی سرکاری صنعتیں اور 97 چھوٹی سرکاری صنعتیں نجی تحویل میں دے دی گئیں۔ پاکستان میں بھی ” پاکستان ٹیلی فون اور ٹیلی گراف “ جیسے ادارے براہ راست سرکاری ملکیت سے آزاد کردیے گئے۔ نیپال کی کانگریس حکومت نے بھی بینک ، نمک ، سیمنٹ ، ایئر لائنز ، چینی ، ٹرانسپورٹ اور کھاد کی صنعتیں نجی تحویل میں دے دیں۔ باوجود اس کے کہ نیپال کی کمیونسٹ پارٹی نے اس ماڈل کی مخالفت کی مگر ہر سو سرمایہء دارایت کی ہوا تھی۔ سری لنکا بھی 1998 تک پٹرولیم ، ریلوے اور ایئر لائنز سمیت 50 سے زائد ادارے نجی کاری کے ذریعے فروخت کر چکا تھا۔ اب اس سارے معاشی نظام کی تبدیلوں نے جنوبی ایشیائی ریاستوں کا معاشی نقشہ بالکل مختلف کردیا تھا۔ مگر ستم ظریفی تو دیکھیے کہ اس نئے سرمایہ دارانہ نظام کی مسیحائی نے بھی کوئی خاطر خواہ نتائج پیدا نہ کیے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کو بہترین معاشی نظام سمجھ کر نجی کاری کرنے والے جنوبی ایشیائی ممالک میں 1990 سے 1998 تک سطح غربت سے نیچے رہنے والے لوگوں کی تعداد حیرت انگیز طور پر 495 ملین سے بڑھ کر 522 ملین کو پہنچ چکی تھی۔ بنگلادیش میں 42.98٪ ، بھارت میں 41٪ ، نیپال میں 42٪ ، پاکستان میں 34٪ اور سری لنکا میں 40.6٪ تک عوام خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوئء۔ اسی سرمایہ دارانہ نظام کو تعلیم و ترقی کی راہیں ہموار کرنے کا اعزاز دینے والوں نے دیکھا کہ نیپال میں شرحِ خواندگی 26٪ ، بنگلادیش اور پاکستان میں 35٪ اور بھارت میں 49٪ ہے۔ اسی نظام کو صحت و سلامتی کا نمائندہ کہنے والے دیکھیں کہ سرمایہ دار بنگلادیش میں 50٪ بچے خوراک کی قلت کے باعث انڈر ویٹ ، پاکستان میں 50٪ غذا کی کمی ، بھارت میں 226 ملین لوگ صاف پانی تک رسائی تک سے محروم ہیں اور نیپال میں یہ تعداد 80٪ تک ہے۔ مجموعی طور پر جنوبی ایشیا میں 260 ملین لوگ صحت ، 337 ملین لوگ صاف پانی اور 400 ملین لوگ مناسب خوراک تک سے محروم ہیں۔ اسی سرمایہء دارایت کو کامیاب ترین معاشی ماڈل کہنے سے قبل یہ مشاہدہ ضروری ہے کہ صرف 1990 سے 1997 تک کے سات سالوں میں جب سرمایہ داریت عروج پر تھی بنگلادیش کا عالمی قرضہ 12.8 بلین ڈالر سے بڑھ کر 15.1 بلین ڈالر تک جا پہنچا ، بھارت کا عالمی قرض 83.7 بلین ڈالر سے بڑھ کر 94.4 بلین ڈالر تک گیا ، نیپال کا 1.6 بلین ڈالر سے 2.4 بلین ڈالر تک ، پاکستان کا 26.7 بلین ڈالر سے بڑھ کر 29.7 بلین ڈالر اور سری لنکا کا 5.9 سے بڑھ کر 7.6 بلین ڈالر تک قرض بڑھ گیا ۔ ان معاشی اشاریوں سمیت بے شمار ایسے حقائق اس دعوےٰ پر دلالت کرنے کو کافی ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام چونکہ مغرب کی ایجاد ہے سو وہ وہاں کے حالات و تناظر میں تو کامیاب نظام سمجھا جاسکتا ہے مگر جنوبی ایشیا کے زمینی اور معاشرتی حقائق اور ڈیمو گرافکس بالکل مختلف ہیں سو اسی نظام میعشت میں اپنے سماج کی مشترکہ ترقی اور کامیابی تلاشنا دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں ۔ سو ان طویل استقرائی دلائل کا منتج یہی ہے کہ ہر سماج کے اپنے پیچ و خم ہیں اور انہیں سمجھے بغیر کسی بھی نظام کو کامیابی کی ضمانت سمجھ کر مسلط کردینا وہی حماقت ہے جس طرح ادویات کے پیکٹ پر منع کی جاتا ہے کہ دوا ڈاکٹر سے مشورے کے بعد اپنی صحت و شخصیت کے مطابق لیجیے کیونکہ عین ممکن ہے جو دوا کسی دوسرے شخص کو آرام دے وہ آپ کے لیئے سم قاتل ثابت ہو۔۔۔!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں