81

جِدّت پسندی اور شخصِی آزادی کا علمبردار “فیض احمد فیض”/تحریر/طاہرایوب جنجوعہ

اردو شاعری کے کینوس پر غالب اور اقبال کے بعد اگر کسی نے اپنے تخیل و ارتعاد کے رنگ بکھیرے ہیں تو وہ بلاشبہ فیض ہی ہیں, ان کی شاعری میں محبت کے ترانوں، عشق کے افسانوں ہجر کی کڑواہٹوں, اور وصال کی لذتوں سمیت اپنے گرد و پیش کے سماجی و معاشرتی رویوں اور حالات کی عکاسی کے کمال نقش و نگار اور گلکاریاں نظر آتی ہیں۔ ان کا دلکش انداز، نرم نازک الفاظ اور نغمگی سے بھری ہوئی شاعری آج بھی نہ صرف زبان زد عام ہے بلکہ تہذیب و جمالیات کے ہر اک پہلو کا احاطہ کرتی ہے۔
فیض 13 فروری 1911ء کو کالا قادر، ضلع نارووال، پنجاب، برطانوی ہند میں ایک معزز مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سلطان محمد خان اور والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ فیض کے والد پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل تھے اور اپنے زمانہ طالب علمی میں علامہ اقبال کے کلاس فیلو بھی رہے۔ فیض احمد نے ابتدائی تعلیم مدرسہ سے شروع کی، ان کا گھر مسجد کے نزدیک ہی تھا جہاں وہ باقاعدہ نماز کے لیے جایا کرتے, اور جمعہ سمیت دوسری مذہبی تقریبات میں بھی بڑے شوق و ذوق سے شرکت کرتے, مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کا خطبہ بڑی محویت سے سنتے اور ان سے مذہبی تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔
1921ء میں آپ نے سکاچ مشن اسکول سیالکوٹ میں داخلہ لیا اور یہاں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کے امتحانات کے بعد ایف اے کا امتحان مرے کالج سیالکوٹ سے پاس کیا۔ آپ کے اساتذہ میں میر مولوی شمس الحق ( جو علامہ اقبال کے بھی استاد تھے) شامل تھے۔ آپ نے اس اسکول میں فارسی اور عربی زبان سیکھی۔
گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کے بعد 1932ء میں یہیں سے انگریزی میں ایم اے کیا, پھر اورینٹل کالج لاہور سے عربی میں بھی ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر لی۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں فیض صاحب کو اساتذہ میں پطرس بخاری اور صوفی غلام مصطفی تبسم جیسے کئی مشہور شخصیات نصیب ہوئیں۔ آپ اردو کے علاوہ عربی, فارسی، انگلش اور پنجابی سمیت کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ فیض کے والد ایک پڑھے لکھے, باذوق, باشعور اور علم پسند شخصیت تھے۔ وہ امارت افغانستان کے امیر عبدالرحمٰن خان کے ہاں چیف سیکرٹری بھی رہے, بعد ازاں انہوں نے افغان امیر کی سوانح حیات بھی شائع کی۔
شاعری سے رغبت انہیں شروع سے ہی رہی, ابھی دسویں جماعت میں ہی تھے کہ اشعار میں پختگی آنا شروع ہو گئی, ان کے گھر سے کچھ دور ہی ایک حویلی تھی, جہاں منشی سراج الدین کی صدارت میں اکثر محافل مشاعرہ منعقد ہوا کرتی تھیں۔ منشی سراج الدین، مہاراجہ کشمیر پرتاپ سنگھ کے منشی تھے اور علامہ اقبال کے قریبی دوستوں میں بھی شامل رہے۔ آپ ان مشاعروں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے, اور بڑی توجہ اور انہماک سے شعراء کا کلام سنتے, بس ایسی ہی محفلوں کی رونقوں اور چہل پہل نے فیض کے ذوق شاعری کو مہمیز کیا اور ان کے ذہن و دل کی پرتیں کھلتی چلی گئیں۔
فیض صاحب نے اپنے کیرئیر کا باقاعدہ آغاز بطور استاد کیا۔ 1935ء میں آپ نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج، امرتسر میں انگریزی و برطانوی ادب کے لیکچرار کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی, 1936ء میں سجاد ظہیر اور صاحبزادہ محمودالظفر کے ساتھ مل کر انجمن ترقی پسند مصنفین تحریک کی بنیاد ڈالی, فیض اس کے پہلے سیکرٹری منتخب ہوئے, اگرچہ وہ ترقی پسند تحریک کے بانیان میں شامل تھے لیکن اِس تحریک کے بقیہ شعرا میں جو شدت اور ذہنی انتشار پایا جاتا ہے، شاید فیض کے ہاں ایسا رویہ نہیں تھا, وہ ایسی اِنتہا پسندی سے گریز کرتے ہوئے اعتدال کی راہ اختیار کرتے رہے۔
1941ء میں فیض کی زندگی میں ایک اہم موڑ ایلس جارج کی صورت میں آیا, وہ لبنانی نژاد برطانوی شہری تھیں, فیض کے ساتھ ہی شعبہ تحقیق سے وابستہ رہیں اور اِن کی شاعری اور شخصیت سے بے حد متاثر تھیں۔ اگرچہ فیض کے خاندان نے اس سلسلے بہت مزاحمت کی, کیونکہ وہ یوں کسی غیر ملکی خاتون کے حق میں نہیں تھے، لیکن فیض کی ہمشیرہ نے اپنے خاندان کو ایلس کے لیے آمادہ کر لیا, اور یوں دونوں ازدواجی بندھن میں بندھ گئے۔ ایلس فیض, فیض کی صرف شریک حیات ہی نہیں تھیں بلکہ ان کے سیاسی خیالات کی ہم نوا اور ان کی جدوجہد میں بھی برابر کی شریک رہیں۔
1942ء میں فیض نے فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی۔ ان دنوں دوسری جنگ عظیم کا طبل بج چکا تھا, لیکن فیض نے اس سے دور رہنے کے لیے اپنے ڈیوٹی محکمۂ تعلقات عامہ میں لگوا لی۔ آپ فوج میں جنرل اکبر خان کے ماتحت ایک یونٹ میں بھرتی ہوئے تھے۔ جنرل اکبر خان بائیں بازو کے سیاسی خیالات رکھنے والی ایک متنازعہ شخصیت تھے, اور فیض کو خوب پسند تھے۔ 1943ء میں فیض میجر بنے اور پھر 1944ء میں لیفٹیننٹ کرنل بن گئے, لیکن اس کے بعد جلد ہی آپ نے فوج چھوڑنے کا ارادہ کر لیا اور1947ء میں پہلی کشمیر جنگ کے بعد وہ فوج سے مستعفی ہو کر لاہور چلے آئے۔
1947 میں فیض نے میاں افتخار الدین کے اصرار پر ان کے اخبار “پاکستان ٹائمز” میں مدیر اعلی کی حیثیت سے کام شروع کیا, لیکن ان کے افکار و نظریات پر دن بدن کمیونسٹ ازم اور اشتراکیت پسندی کی گرد جمتی چلی گئی جو بعد میں ان کے لیے تکلیفوں اور صعوبتوں کے انبار لیے ہوئے آئی, 1951 میں انہیں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں جسے تاریخِ پاکستان میں “راولپنڈی سازش کیس” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، گرفتار کر لیا گیا, ہوا کچھ یوں کہ لیاقت علی خاں کے امریکہ کی طرف جھکاؤ اور کشمیر کے حصول میں ان کی ناکامی کی وجہ سے فوج کے بہت سے افسر  ان سے نالاں تھے, جن میں میجر جنرل اکبر خاں سرفہرست تھے۔ اکبر خان فوج میں فیض کے افسر اعلیٰ ہی نہیں بلکہ آئیڈیل بھی تھے, 23 فروری 1951 کو اکبر خان کے بنگلے پر ایک خفیہ میٹنگ ہوئی جس میں کئی فوجی افسروں کے ساتھ فیض اور سجاد ظہیر نے بھی شرکت کی۔ اس میٹنگ میں حکومت کا تختہ پلٹنے کی مکمل منصوبہ بندی کی گئی, لیکن اگلے ہی دن شرکاء محفل میں سے ہی کسی نے اس سارے منصوبے کا بھانڈا پھوڑ دیا اور یوں میٹنگ کے تمام شرکا کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ تقریباً چار سال انہوں نے سرگودھا، ساہیوال، حیدرآباد اور کراچی كی مختلف جیلوں میں گزارے, آخر اپریل 1955 میں ان کی سزا معاف ہوئی۔ رہائی کے بعد وہ لندن چلے گئے۔ 1958 میں فیض پاکستان واپس آئے, 1959ء میں پاکستان آرٹس کونسل میں بطورِ سیکرٹری تعینات ہوئے لیکن جیل خانہ ایک بار پھر ان کا منتظر تھا ۔اسکندر مرزا کی حکومت نے کمیونسٹ مواد شائع اور تقسیم کرنے کے الزام میں ان کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا۔ اس بار ان کو اپنے مداح ذوالفقارعلی بھٹو  کی کوششوں کے نتیجہ میں1960 میں رہائی ملی اور وہ پہلے ماسکو اور پھر وہاں سے لندن چلے گئے۔
1962 میں سوویت یونین نے انہیں لینن امن انعام دیا جو اس وقت کی ذوقطبی دنیا میں نوبیل انعام کا بدل تصور کیا جاتا تھا۔ اپنی موت سے کچھ عرصہ پہلے ان کو نوبیل انعام کے لئے بھی نامزد کیا گیا تھا ۔1976 میں ان کو ادب کا لوٹس انعام دیا گیا۔ 1990ء میں حکومت پاکستان نے ان کو ملک کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ”نشان امتیاز” سے نوازا ۔ پھر 2011 کو ” فیض کا سال” قرار دیا۔
فیض کی معروف تصانیف میں “نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، شام شہر یاراں، مرے دل مرے مسافر اور نسخہ ہائے وفا شامل ہیں۔ آپ 20 نومبر 1984 کو جہاں فانی سے کوچ کر گئے اور لاہور میں آسودہ خاک ہیں۔ ہمیشہ جدت پسندی اور جمہوریت کی بات کرنے والے فیض احمد فیض کی ترقی پسند سوچ آج بھی زندہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں