182

جڑانوالہ سے تعلق رکھنے والی شاعرہ سیماب سحر کی دلچسپ کہانی/تحریر/رانا اسد منہاس

جڑانوالہ صوبہ پنجاب کا ایک تاریخی شہر ہے جو فیصل آباد سے تقریباً 35 کلومیٹر پر واقع ہے۔ یہ فیصل آباد کی مشہور اور سب سے بڑی تحصیل ہے۔ اس کا شمار پاکستان کے بڑی تحصیلوں میں ہوتا ہے۔۔ یہ شہر تقریبا 400 سال پرانا ہے۔ پنجاب کی اس سب سے بڑی تحصیل نے پاکستان کو بہت بڑی بڑی سیاسی و سماجی شخصیات دی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں اردو ادب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھی بہت بڑی تعداد موجود ہے، جن میں نامور اور نوجوان شعراء، ادیب، اور مصنفین شامل ہیں۔ معزز قارئین کرام اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دور حاضر میں علم وادب کی پذیرائی کچھ کم ہوگئی ہے، لیکن ایسے میں کسی خاتون قلم کار کا سامنے آنا بہت بڑی بات ہے۔ گزشتہ دنوں پنجاب کی تحصیل جڑانوالہ کے نواحی قصبے منڈی بچیانہ سے تعلق رکھنے والی شاعرہ سیماب سحر سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، سیماب سحر صاحبہ سے ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پہ گفتگو ہوئی، خاص طور پر اردو ادب کے حوالے سے سیر گفتگو ہوئی جو ایک مختصر انٹرویو کی صورت میں آپ کی نظر کر رہا ہوں۔
س: سب سے پہلے تو اپنے نام کے معنی بتائیں، اتنا نایاب نام کس نے رکھا ؟

ج: میرا نام سیماب سحر ہے۔سیماب کا معنی پارہ ہے جو ہمہ وقت متحرک رہتا ہے
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں یہ لفظ کافی مستعمل رہا
پانی تیرے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب
مرغان سحر تیری فضاؤں میں ہیں بیتاب اے وادی لولاب

اور بقول سلیم کوثر
دلِ سیماب صفت پھر تجھے زحمت دوں گا
دور افتادہ زمینوں کی مسافت دوں گا

س: آپ کی ابتدائی تعلیم کہاں سے ہوئی؟
ج:ابتدائی تعلیم میں پرائمری تک کی تعلیم تحصیل جڑانوالہ کے قصبہ بچیانہ سے حاصل کی اس کے بعد میٹرک ایم سی گرلز ہائی سکول جڑانوالہ سے اور گریجویشن کا امتحان جڑانوالہ ویمن کالج سے پاس کیا جبکہ ایم اے اردو اور ایم اے انگلش کی پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔

س: دوران طالب علمی میں آپ کو کس مضمون سے سب سے زیادہ لگاؤ تھا؟
ج: مجھے کسی کسی خاص مضمون سے انسیت اور لگاؤ نہیں تھا لیکن ایک بات ہے کہ ریاضی اور معاشیات کبھی بھی میرے پسندیدہ مضامین نہیں رہے۔

س:اردو ادب کی طرف آپ کا رجحان کیسے ہوا؟
ج: جب پہلی بار حرف پڑھنا سیکھا تو اس کی سمجھ بھی اللہ پاک نے ودیعت فرما دی۔ جوں جوں میں کوئی کہانی یا نظم پڑھ رہی ہوتی تھی تو مجھے محسوس ہوتا تھا کہ وہ معنی ومفہوم سمیت میرے اندر اتر رہی ہے۔ ان لفظوں کی روشنی میرے اندر ایک اجالا اور نور بھر رہی ہے ایک عجب سرخوشی سر شاری کی کیفیت طاری ہوتی تھی۔

س: آپ ایک شاعرہ ہیں اور آپ کی شاعری آپ کے مزاج کی عکاس ہے آپ کے اندر شاعری کا رجحان کیسے پیدا ہوا اور کس عمر سے شاعری کرنی شروع کی ؟
ج: میں نے باقاعدہ شاعری میٹرک کے امتحان کے بعد شروع کی , ویسے لفظوں کا توڑ جوڑ غیر محسوس انداز میں بچپن ہی سے کر رہی ہوں۔

س: آپ کے شعروں میں آپ کے اپنے جذبات کی ترجمانی کس حد تک شامل ہے اور کہاں تک آپ نے دوسروں کے احساسات کو پرونے کی کوشش کی ہے؟
ج: میری شاعری کافی حد تک میرے اپنے احساسات وجذبات کا احاطہ ہے۔شاعر کو اپنے خیالات کے اظہار پر دسترس ہوتی ہے اور انسانی جذبات چونکہ آفاقی ہیں سو سب کے جذبات کی ترجمانی ہو جاتی ہے

س: کہتے ہیں کسی فن کو تراشنے میں ایک استاد کا بھی اہم کردار ہوتا ہے وہ اپنے علم اور تجربے سے اسے شہکار بنا سکتا ہے میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ کی اپنی ادبی صلاحیتوں کی نشونما میں بھی کسی استاد نے کوئی کردار ادا کیا ہے یا یہ آپ کے ذوق اور از خود محنت کا ثمر ہے؟
ج: جی بالکل کسی بھی فن کو تراشنے میں استاد کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے لیکن میری کہانی تھوڑی سی الگ ہے۔افسوس صد افسوس کہ علم و ادب بلکہ کسی بھی حوالے سے مجھے زندگی بھر کوئی اچھا استاد نہیں ملا۔

س: شاعری میں محبت اور محبوب کو جو مقام حاصل ہے وہ شاید ہی کسی اور موضوع کو حاصل ہے آپ کے خیال میں محبت کی تعریف کیا ہے اور موجودہ وقت کی محبت جو ہر دوسرے انسان سے ہو جاتی ہے اور ختم ہونے کے لئے بھی لمحے کافی ہوتے ہیں اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟

ج: شاعری خصوصی طور پر دل کے جذبات کا اظہار ہے ۔زمین کے سفر میں محبت ہی ایک آسمانی چیز ہے۔ میں روحانی سمبندھ پر یقین رکھتی ہوں آج کل کے بے کار مشاغل کے لیے کوئی اور نام اختیار کرنا چاہیے محبت کی بے ادبی نہ کریں , کوئی بھی ذی شعور شخص حمایت نہیں کرے گا۔

س: ہماری قومی زبان اردو ہے، لیکن ہمارا نظام تعلیم زیادہ ترانگریزی میں ہے۔ آپ کے خیال میں ذریعہ تعلیم قومی زبان ہونی چاہئیے یا پھر انگریزی؟

ج: یہ کمپلیکس ہے ہماری قوم کا, انگریزی ذریعہ تعلیم سب سے بڑی بیوقوفی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام تیزی سے ترقی کرے اور ہمارے طلباء میں ایک انقلابی روح پیدا ہو تو ہمیں اپنا نظام تعلیم اردو میں کرنا پڑے گا۔

س: کیا یہ درست ہے کہ آج کے عہد میں ادب کے سنجیدہ قارئین بہت کم ہو گئے ہیں، اگر ہاں تو اس کی کیا وجہ ہے؟

ج: جی بالکل کتاب دوستی , ادب دوستی بالکل ختم ہو کر رہ گئ ہے, گنتی کے چند نام نوجوانوں کے ہونگے جو ادب سے وابستہ ہوں اور اردو ادب سے محبت رکھتے ہوں، لیکن ان کی تعداد بالکل کم ہے۔ لیکن ایسا صرف ہمارے ہاں ہے باقی دنیا میں نہیں ہے اس کی پہلی وجہ تو ہمارا بےکار رٹو نظام تعلیم ہے جس میں طالب علموں کی سوچ کو پنپنے ہی نہیں دیا جاتا, نصاب کے نام پر ڈھیروں کتابیں لاد دی جاتی ہیں, آج کےاستاد اور والدین بھی اپنا مثبت کردار ادا نہیں کر رہے۔

س: آپ کو کتب بینی سے کس حد تک لگاؤ ہے اور آپ نے اب تک کم وبیش کتنی کتابوں کا مطالعہ کیا ہوگا اور کن موضوع پر کتابیں پڑھنا آپ کی ہمیشہ پہلی ترجیح میں شامل رہا ہے اور نوجوان نسل کو مطالعہ کی طرف کیسے راغب کیا جا سکتا ہے؟
ج: اچھی کتاب ہو اس کا موضوع, مکالمہ, لب و لہجہ منفرد ہو, شاعری, افسانہ, ناول, کچھ بھی ہو، مجھے شہاب نامہ ہمیشہ سے پسند رہا ہے، عمیرہ احمد کے کچھ ناول,امجد اسلام امجد, احمد فراز, فرحت عباس شاہ, فیض ,منیر نیازی
ان سب کی شاعری میں کچھ نہ کچھ پسند ہے

س: آپ اپنے علاقے کی کتنی اردو تنظیموں سے وابستہ ہیں اور ان کی اردو ادب کی تئیں کیا خدمات رہی ہیں اس حوالے سے ہمیں اپنی مشغولیات کے بارے میں کچھ بتائیں ؟
ج: ابھی تک کسی ادبی تنظیم سے تو میں وابستہ نہیں ہوں البتہ اپنے طور پر اردو ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے کافی کوشش کر رہی ہوں۔

س: آپ اپنے پسندیدہ شاعر کے کچھ اشعار ہم سے شیئر کریں اور اپنی کتاب سے کچھ قطعے اور نظمیں بھی ہمیں بہت خوشی ہوگی؟
درد جو دل میں بھر جاتے ہیں
کام یہ اپنا کر جاتے ہیں

لوگ جہاں سے جانے والے
دل کو سُونا کر جاتے ہیں

تیرے سارے لفظ ہیں امرِت
ہم امرِت سے مر جاتے ہیں

تیری کھوج میں جانے والے
شام کو خالی گھر جاتے ہیں

باتیں تیری کرتے کرتے
اپنے آپ سے ڈر جاتے ہیں

تیری یاد کے جگنو جاناں
دل میں روشنی بھر جاتے ہیں

رستے تو ہیں آتے جاتے
ہم ہی لوگ ٹھہر جاتے ہیں

تیرے سارے درد اٹھا کر
کُوچ یہاں سے کر جاتے ہیں

تیری میری پریت انوکھی
آؤ چاند نگر جاتے ہیں

دل کہ لاچار ہے دل کہ رنجور ہے
ہجر کے درد سے دل یہ معمور ہے

کچھ تقاضا وفا کا نباہ کا نہیں
بس سفر میں رہو ساتھ , منظور ہے

رابطوں میں تعطل ہے کچھ روز سے
یہ جدائی محبت کا دستور ہے

ہے یہ دھرتی سے آکاش تک کا سفر
بس یہ دو گام ہی پر کوہ طور ہے

خاک جب تک تہہ خاک ہے خاک ہے
خاک سولی پہ جا ئے تو منصور ہے

س: آج کل بہت انتہاپسندی اور عدم برداشت کا رویہ پروان چڑھ رہا ہے، آپ کے خیال میں اس کے کیا محرکات ہیں؟ اور اس پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے ؟

ج: عدم برداشت کی کئی ایک مادی, معاشی, معاشرتی اورنفسیاتی وجوہات ہیں, جتنا زیادہ ہم اللہ پاک اور مذہب کے قریب رہیں گے اتنا ہی حب جاہ کم ہو گی۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ہم نے حلال حرام میں تمیز کرنا چھوڑ دی ہے جس کا نتیجہ ہم بھگت رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں