محمد عثمان انیس درخواستی
فن خطابت اللہ تعالی کا ایک عطیہ ہے جس کو چاہتے ہیں اس سے وافر حصہ عطاء فرمادیتے ہیں پھر ان سے پروردگار عالم اپنے دین متین کی حفاظت اور اشاعت کے لیے کام لیتے ہیں انہی مقبول زمانہ بندوں میں سے حضرت مولانا عبد الشکور دین پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی ہیں ۔
آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ولادت 1931میں تاریخ ساز بستی “دین پور شریف”تحصیل خانپور ضلع رحیم یارخان میں عالم باعمل مولانا محمد عبداللہ رح کے گھر ہوئ ۔ ابتدائی تعلیم آبائی گاؤں میں حاصل کی پھر سندھ کے اہم تاریخی مقامات جو علم و عمل کے مراکز تھے جن میں داد لغاری، میر پور ماتھیلو، بائ جی شریف، پنو عاقل اور جامعہ قاسم العلوم گھوٹکی میں تعلیم حاصل کی اور اسی مدرسہ سے 1953میں دستار فضیلت حاصل کی۔ اور اسی سال تحریک ختم نبوۃ میں مجاہدانہ کردار ادا کرنے پر قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ 1954میں حافظ الحدیث مولانا محمد عبداللہ درخواستی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے دورہ تفسیر القرآن پڑھا اور چار سال تک جامعہ مخزن العلوم خانپور میں احسن انداز سے تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے اور قرب و جوار میں دعوت و تبلیغ کے لیے بھی جاتے رہے ۔ 1958 سے مستقل میدان خطابت و تبلیغ میں قدم رکھا۔
آپ رح ظریف الطبع، خوش مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین علمی، تحقیقی مبلع تھے ۔اپنے ہم زمانہ خطباء میں ایک منفرد انداز کے مالک تھے۔ بیان اور وعظ میں تاثیر بھی ہوتی اور فصاحت و بلاغت بھی ، سجع بندی، قافیہ بندی سے فی البدیہ الفاظ کو ملاتے جوڑتے جاتے جس سے حاضرین و سامعین محظوظ ہوتے جاتے ۔مجمع میں موجود علماء ومشائخ بھی داد دیتے ہوئے نظر آتے۔ جب قرآن وحدیث کے جواہرات، دلائل و براہین سے مزین مسحور کن خطاب کرتے تو اپنے پراے سب متاثر ہوتے ، جوں جوں رات ڈھلتی تھی ان کی خطابت ابھرتی جاتی ۔ آپ رح کی خطابت میں توحید، ارکان اسلام، سیرت النبی ، اتباع قرآن وسنت، فضائل صحابہ و اہلبیت، اور صحیح سیاست کی جھلک نظر آتی تھی۔
آپ رح کے اعلی اخلاق اور عمدہ صفات کے باعث تمام مکاتب فکر کے علماء کرام احترام کرتے تھے، ہر تحریک، ہر دینی موضوع پر آپ کا دل تڑپتا تھا ، لباس میں سادگی ،دوستوں سے نبھاو، اسلوب خطابت میں بے تکلفی، اکابر سے تعلق، اصاغر سے انس اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا ان کی تعریف کرنا دینی پروگرامات میں ان کا بیان کروانا، چھوٹوں کو بڑا بنانا، فخر وغرور اور تکبر سے کوسوں دور رہنا، یہ وہ صفات تھیں جو آپ کے ساتھ خاص تھیں اس دور میں بھی اور آج کل بھی یہ عادات بالکل ختم ہو چکی ہیں۔
آپ رح کو حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سلام بھی کئ مرتبہ پہنچے ۔ایک مرتبہ سندھ کے علاقے سے ایک حاجی صاحب نے بتایا کہ مدینہ منورہ میں نیند کر رہا تھا کہ خواب میں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا وطن واپس جاکر میرے مولوی عبد الشکور دین پوری کی تقریر بھی کرانا اور اس کو سلام بھی کہنا ۔ حاجی صاحب پاکستان آتے ہی سیدھا خانپور آے اور یہ مبارک خواب بتایا اور کہا کہ آپ میرے ہاں تقریر کرنے چلیں وہاں پہنچ کر عظمت رسول و اصحاب رسول پر ایسا پر تاثیر بیان کیا کہ مجمع میں بیٹھے کئ لوگوں نے گناہوں سے توبہ کی اور 300کے قریب لوگوں نے اسلام بھی قبول کیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت کا اقرار بھی کیا ۔
تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی میں شیخ القرآن مولانا غلام اللّٰہ خان نے بیان کے لیے بلوایا اور عظمت امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی سیرت پر بیان کرنے کا بتایا جب حضرت دین پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بیان کا آغاز کیا تو آدھا گھنٹہ تک فضائل ومناقب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ پڑھتے رہے پھر دوگھنٹے تک پر اثر پر مغز علمی و تحقیقی اور ادبی اسلوب خطابت میں یاد گار خطاب کیا جس کا آغاز کچھ اس انداز سے تھا “ہماری تقریر جو بھی ہوگی اللہ کا قرآن ہوگا، کملی والے کا فرمان ہوگا، جونہ مانے وہ بے چارہ نادان ہوگا، جو مان لے ان شاءاللہ پکا مسلمان ہوگا، ۔
علی الاعلان سنو! برسر میدان سنو! او دنیا کے مسلمان سنو! سنوتو قرآن سنو، مصطفیٰ کا فرمان سنو، صحابہ کرام و اہلبیت کا شان سنو، امی عائشہ کا مقام سنو۔
کون عائشہ؟ حبیب خدا کی حبیبہ ، باغ نبوت کی عندلیبہ ، شان میں عجیبہ ، نہایت ہی فصیحہ ، و بلیغہ، قرآن کی حافظہ، دین کی مبلغہ، فقاہت میں فقہیہ ، ازواج میں لئیقہ، کائنات میں باسلیقہ ،علوم نبوت کی امینہ و ناشرہ، صدیق کی بیٹی صدیقہ، عابدہ، زاہدہ، ساجدہ، متقیہ، عفیفہ، پاکدامنہ، طیبہ، طاہرہ، مفسرہ، محدثہ، مومنین و مومنات کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فضائل، خصائل، قرآن کے بیان، آقا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے فرمان عالیشان، دین پوری کی زبان سے بیان کیے جائیں گے۔ اس ایمان افروز بیان کے بعد مجمع میں موجود ایک وزیر کا ضمیر جاگ اٹھا ۔ آنکھوں سے آنسوں رواں تھے، ہچکی بندھی ہوئی تھی، روتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔مولانا! آپ نے میرے دل میں حضرت اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی قدر و منزلت بٹھادی آج سے میں توبہ کرتا ہوں ۔
آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ہر تقریر میں سینکڑوں افراد تائب ہوتے، ہزاروں کے آنسو بہتے، بیسیوں لوگ سنت رسول کے عامل ہوتے اور اپنا ایمان کامل کرتے تھے ۔۔
بر جستہ جواب ، برموقع گفتگو، برمحل کلام ، فی البدیہ علمی ، تحقیقی جواب دینا اور بات سمجھانے کا ملکہ بھی خوب تھا ۔ ایک جلسہ کے موقع پر کسی نے مرزا قادیانی کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فورا بہترین جواب دیتے ہوئے کہا”نبی حسین، مہ جبین، دلنشین، بہترین، بالیقین، نازنین، صادق و امین، میرے نبی رحمۃ للعالمین، سید الاولین والا خرین، راحت العاشقین، مراد المشتاقین، ہیں ۔ دوسری طرف مرزا لعین ، بے دین، بدترین، جہنم کا شوقین، جس کی موت کی جگہ لیٹرین، مرزا نبی نہیں غبی ہے، ظلی نہیں شیخ چلی ہے، بروزی نہیں موذی ہے، یک چشم گل ہے، بدشکل ہے، بے عقل ہے، نہ اصل ہے نہ نسل ہے۔ ۔
سندھ کے کسی علاقے میں دوران سفر ایک جگہ گاڑی کی خرابی کی وجہ سے ایک جگہ رکے تو چند لوگ آگے بڑھتے ہوے نظر آے ان میں سے ایک نے کہا دم مست قلندر علی دا پہلا نمبر تو آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بر جستہ جواب دیتے ہوئے کہا: پہلا نمبر تو اس کا ہے جس نے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو کندھے پر اٹھایا، غار میں پہنچایا، مشکل میں ساتھ نبھایا، غار میں اپنی گود میں سلایا، نبی نے جسے اپنے مصلے پر کھڑایا، علی نے امام بنایا، آج بھی محبوب نے روضہ میں اپنے پہلو میں سلایا،تو نے گندا عقیدہ کہاں سے بنایا، جو نہ قرآن نے بتایا نہ حدیث میں آیا، خدانے، مصطفی نے، مرتضیٰ نے، حسن مجتبیٰ نے ، حسین شہید کربلانے، جس کو پہلا نمبر دیا تم کون ہو جو انکار کررہے ہو۔ سب نے متاثر ہوکر معافی مانگی اور کہنے لگے ہم تمہارے غلام اور تمہارے بڑوں کے بھی غلام ہیں۔
ایک مرتبہ ٹرین میں سفر کررہے تھے اس میں چند نوجوان اسلام اور اہل اسلام کا استہزاء کرنے لگے داڑھی پر تنقید کرنے لگے ۔پھر حضرت سے مخاطب ہوکر کہا۔ مولوی صاحب!آپ کا علاقہ؟فرمایا رحیم یارخان۔ کہاں جارہے ہیں؟ فرمایا ملتان ۔ کون سی برادری؟فرمایا بلوچ خاندان۔ آپ کون ہیں؟ فرمایا مسلمان ۔ کیاکرتے ہیں ؟فرمایا تبلیغ قرآن۔ حیران و پریشاں ہو کر کہنے لگا آپ وہابی تو نہیں ؟فرمایا تیرے دماغ کی خرابی تو نہیں ۔بس اس جواب سے ایسا لاجواب ہوا کہ آخر منزل تک خاموش بیٹھا رہا۔ ۔۔
ایک موقع پر فرمایا: ہم محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پسینے کو کستوری سے بھی افضل مانتے ہیں۔ میں نبی کے اشارہ کو معجزہ مانتا ہوں ، محمد کے چہرے کو جنت کی ضمانت مانتاہوں، ان کی گفتگو کو حدیث ما نتا ہوں ، پیغمبر کی دعا کو مقبول مانتا ہوں ، نبی کے قدم کو سنت مانتا ہوں ، نبی کے عمل کو شریعت مانتا ہوں ، نبی کی مسکراہٹ کو جنت مانتا ہوں، محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے شہر کو مدینہ منورہ مانتا ہوں، نبی کی جاے ولادت کو مکہ مکرمہ مانتا ہوں، جبرائیل سے زیادہ مطہر مانتا ہوں، جس جگہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما ہیں اس خاک کو عرش، لوح و قلم کرسی ، جنت سے افضل مانتا ہوں “۔
میرا اور میرے علماء کا عقیدہ ہے کہ خدا ایک ترازو بنائے’ ایک پلڑے میں میرے دلبر کو بٹھائے ‘ دوسرے پلڑے میں ‘ سجاد ‘عباد’ زھاد ‘اقطاب’ اخیار’ ابدال’ علماء ‘ صلحاء’ اتقیاء ‘ اصفیاء’ ازکیاء ‘اولیاء ‘جن وملک’ حور وفلک ‘چودہ طبق’ عرش و کرسی’ لوح وقلم ‘کعبہ’ فرشتے’ جنت’ حوریں’ سب رکھ دے’ ایک طرف میرے محمد کوبٹھائے’ ترازو کو اٹھائے’ دنیا کو دکھائے’ ساری کائنات کی شان کم ہے میرے محمد کی شان زیادہ ہے ‘
میرا نبی گنبد خضرا میں ہے ‘ میں نے آقا سے پوچھا آپ یہاں لاہور آ جائیں گے؟
فرمایا” المدينه مهاجري وفيها مضجعي ومنها مبعثى”
میں نے مدینہ میں ہجرت کی اور قیامت تک مدینہ میں رہوں گا
میں نے عرض کیا حضرت میں آؤں یا آپ آئیں گے؟
فرمایا” من حج البيت ولم يزرني فقد جفاني”
جو حج پر آئے اور میرے در پر نہ آئے بڑا ظالم ہے
میں نے پوچھا حضرت آپ آئیں گے یا میں آؤں گا؟
فرمایا ،”من زار قبري وجبت له شفاعتي”
جس نے میری قبر کی زیارت کی اس پر میری شفاعت واجب ہوئی
میں نے عرض کیا حضرت آپ ہماری مسجد میں نماز پڑھانے آئیں گے ؟ یا ہم آئیں ؟
فرمایا” صلواة في مسجدي هذا خير من خمسين الف الصلواة و فيما سواه”
میری مسجد میں ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں سے بہتر ہے
میں نے پوچھا حضرت آپ آئیں گے یا میں آؤں گا؟
فرمایا” من دفن في مدينتى فهو من جواري”
جو شخص میرے مدینہ میں آ کر دفن ہوجائے وہ قیامت تک میرا پڑوسی ہے
نبی اشارہ کرے تو چاند دو ٹکڑے ہو جاتا ہے
نبی اشارہ کرے بارش شروع ہو جاتی ہے
نبی اشارہ کرے جلیبیب چمکنے لگتا ہے
نبی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو عمر فاروق کو اسلام مل جاتا ہے ‘پیغمبر سجدہ کرے تو امت بخشی جاتی ہے ‘
نبی سیر کرے تو معرا ج بن جاتی ہے ‘
نبی گفتگو کرے تو حدیث بن جاتی ہے
جو نبی کے نکاح میں آئے وہ مومنوں کی ماں بن جاتی ہے
نبی پیدا ہو تو مکہ مکرمہ بن جاتا ہے
نبی ہجرت کرے تو مدینہ منورہ بن جاتا ہے
جو نبی کے جھنڈے کے نیچے آئے ‘ غازی بن جاتا ہے
مسجد میں آئے نمازی بن جاتا ہے’ غلام قرآن پڑھے تو قاری بن جاتا ہے ‘میدان میں نکلے تو مجاہد بن جاتا ہے ‘ کعبےکا طواف کرے تو حاجی بن جاتا ہے ‘کوئی کلمہ پڑھ کر محمد کا چہرہ دیکھے تو قیامت تک محمد کا صحابی بن جاتا ہے’ ۔
ہمارے نبی حسین’ مہ جبین ‘دلنشین’ بہترین’ بالیقین’ نازنین’ صادق و امین’ رحمت اللعالمین ‘سید الاولین والاخرین ‘ راحت العاشقین ‘ مرادالمشتاقین ہیں’
دوسری طرف مرزا لعین ‘ بےدین’بدترین’ جہنم کا شوقین ‘جس کی جائے مرگ لیٹرین’ مرزا نبی نہیں غبی ہے’ ظلی نھیں شیخ چلی ہے’ بروزی نھیں موذی ہے’ یک چشم گل ہے ‘بد شکل ہے بے عقل ہے’ نہ اصل ہے نہ نسل ہے’۔ دعا کرو اللہ تعالی ہم سب کو عشق رسول عطا فرمائے’ ہماری رفتار میں ‘گفتار میں ‘ کردار میں’ افکار میں ‘ لیل و نہار میں ‘ عادات میں ‘ تاثرات میں’ تصورات میں ‘ جذبات میں’ خیالات میں ‘واقعات میں’ دن رات میں’ حالات میں’ ہر بات میں’ افعال میں’ اقوال میں’ چال اور ڈھال میں’ خیال میں’ ہر حال میں ,اللہ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری فرمانبرداری عطا فرمائے ‘
میرا عقیدہ ہے کہ جو فرماں بردار ہے وہ گر چہ دعوی نہ کرے حبدار ہے’اور جو حبدار ہے اس کا بیڑا پار ہے’
اور جو پیغمبر کا فرماں بردار نہیں’ لاکھ دعویٰ کرے مگر حبدار نہیں اور جو حبدار نہیں اس کابیڑا پار نہیں اور اس جیسا کوئی خوار نہیں ‘
سنو جس کو میرے آقا نے صدیق کہا وہ صدیق رہے گا ‘ جی ہاں وہ صدیق ہے ‘پیغمبر کا رفیق ہے’ نبوت اس پہ شفیق ہے ‘ صحابہ میں لئیق ہے’ میری تحقیق اور تصدیق ہے ‘جو کچھ کہہ رہا ہوں بالکل ٹھیک ہے !
شجاع آباد میں حضرت قاضی احسان احمد شجاع آبادی رحمہ اللہ کی وفات ہوئی تو ان کی تعزیت کے رجسٹر میں مولانا دین پوری نے درج ذیل تاثرات لکھے
“احسان پر اللہ کا احسان تھا ‘کیا عجیب انسان تھا ‘بہادر تھا مرد میدان تھا ‘خادم قرآن تھا’ ذی فہم و ذیشان تھا ‘
علماء کا قدر دان تھا تھا’ عاشق نبی آخر الزمان تھا ‘قاضی پر فضل یزدان تھا’ اس پہ رب مہربان تھا ‘آہ! قاضی مہمان تھا!
مرحوم کئی صفات کا حامل ‘علماء کے زمرہ میں شامل تھا’ دشمنوں کا حبیب تھا خوش بخت و خوش نصیب تھا’ فصیح تھا ادیب تھا’ پاکستان کا خطیب تھا’قاضی غازی تھا نمازی تھا اللہ اس سے راضی تھا’ قاضی کے دست میں سخا تھی’ چشم میں حیاتھی’ طبیعت باوفاتھی ‘ پیاری ادا تھی ‘ قاضی مہمان نواز تھا’ کامیاب تھا سرفراز تھا ‘ طمع سے بے نیاز تھا’ اسلام کا شہباز تھا’
جلسے ہو رہے ہیں واعظ نہیں ‘ منبر ہے زینت منبر نہیں’ مسجد ہے خطیب نہیں’ بچیاں ہیں ابا نھیں رہا’ بیوی ہے سہاگ اجڑ گیا ‘ چمن ہے مالی نہیں’ خزانہ ہے محافظ نہیں’
مکان ہے مکیں نہیں’اب بھی موت پر یقین نہیں’
یا اللہ قاضی مرحوم کو محروم نہ کرنا ” الا تخافوا ولا تحزنوا”کا مژدہ سنانا ‘ ایک مسافر غریب کفن بردوش’ خاموش پر رحم کی نگاہ ہو’
آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی وفات 14 اگست 1987 بروز جمعہ کو ہوئ نماز جنازہ کی امامت حافظ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے کی ۔تدفین دین پور شریف کے قبرستان (احاطہ خاص)میں ہوئ