تحریر/اسامہ علی
(صدائے قلم: مکتوب نگاری میں فاتح قرار پانے والا خط)
اسلامی جمہوریۂ پاکستان
سدا سلامت وطن
اس زمانۂ جدید میں خط کی روایت اگرچہ نہیں رہی لیکن پھر بھی تیری اسمبلیوں میں خط کا دور دورہ ہے۔ خیر! میرا خط تیرے جشنِ الماسی کے موقع پر تجھے داد دینے اور سراہنے کے لیے ہے۔ آج تُو پچھتر برس کے نشیب و فراز اپنے اندر سموئے بھی تازہ دم محسوس ہوتا ہے اور خدا کی قسم! مجھے یقین ہے تیرا سر فخر سے تاقیامت بلند رہے گا۔
لیکن مجھے شکوہ ہے تجھ سے۔ تیری ایمانداری سے۔ تیری قوتِ برداشت سے۔ مجھے شکوہ تیرے بھروسے پر ہے جو تو نے اپنے پاسداروں پر کیا۔ مجھے شکوہ تیرے صابر ہونے پر ہے کہ تجھے سرِ بازار نوچا گیا اور تُو خاموش تصویر بنا سہتا رہا۔ مجھے شکوہ تیری عنایات سے ہے کہ تُو اپنے غداروں پر بیش بہا قیمتی انعامات لٹاتا رہا۔ مجھے شکوہ تیرے عاجز ہونے پر ہے کہ تیرے ہی نام لیوا لالچی اور ملک خور لوگ تجھے ہی پیٹھ پیچھے وار کرتے رہے اور زخموں سے چھلنی کردینے کے باوجود بھی چین نہیں پایا اور زخم کریدنے میں مشغولِ عمل ہیں۔ خیر! تجھ سے گلہ بھی کیسا؟ تیرے پرچم میں امن و امان شامل ہے۔ تیرے نغمے میں تیری عالیشان عظمت کا اعتراف ہے۔ تیرا نام پاک ہے تو تُو کیسے کوئی ناپاک عزائم کا حامل ہو سکتا ہے بھلا۔ تُو تو اپنے لوگوں کے لیے جیتی جاگتی مثال ہے۔
سچ بتاؤں تو یہ خط مجھ سے لکھوایا گیا ہے۔ یہ خط تیری دید کے منتظر، تجھے دیکھنے کی حقیقی چاہ رکھنے والے حضرت ڈاکٹر علامہ اقبال رحمتہ اللہ کی سفارش پر تہجد کے اس پہر میں خواب سے بیدار ہو کر لکھ رہا ہوں۔ حضرت اقبال رحمتہ اللہ کی آنکھوں میں مایوسی صاف جھلک رہی تھی۔ شاید وہ مصورِ پاکستان کا لقب سُن سُن کر خود کو مجرم ٹھہرا رہے تھے جیسے انہوں نے تیرے وجود کا خواب دیکھ کر کوئی گناہ سرزد کیا ہو۔ وہ تیرے حال پر سکتے کی حالت میں تھے مگر ساتھ ہی ان کے چہرے پر پُر امید مسکراہٹ نے مجھے حیرانی کی کشتی میں سوار کردیا تھا۔ شاید انہوں نے پھر پاکستان کے لیے کوئی خواب دیکھ رکھا تھا۔
میرے جسم پر کپ کپی طاری ہو چکی تھی۔ میرا کمرہ میرے دل کی مانند تاریکیوں کی لہر میں غوطہ زن محسوس ہونے لگ رہا تھا۔ میں نے کمرے کی کھڑکی کھولی اور میز پر جہاں تیرے بانی قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ کی تصویر رکھی تھی، اس کے پاس کرسی کھسکا کر بیٹھ گیا۔ میرے ذہن کے پردے پر جیسے بابائے قوم مجھ سے مخاطب تھے۔ “اُسامہ! تم میری باتوں کے امین ہو۔ میری باتیں غور سے سننا۔ بیٹا میں نے اپنی زندگی پاکستان کے لیے صرف کردی اور مجھے اب تک فخر ہوتا ہے کہ میں نے گلشن میں ایک ہرا درخت لگایا جس میں ہر طرح کے پھل موجود ہیں اور ہر پھل اپنی جگہ رہتے ہوئے پورے باغیچے کو مٹھاس پہنچا رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں اس کے ساۓ تلے سب ایک رہیں اور اس کی جڑ وقت کے ساتھ مضبوط تر ہوتی جاۓ۔ بیٹا تم مایوس نہ ہو۔ تم نوجوان نسل ہی پاکستان کی سالمیت کا اثاثہ ہو۔ وہ دیکھو کھڑکی سے سورج کی کرنیں آتی ہوئیں۔ ذرا باہر جھانکو! اکیلا سورج ساری دنیا پر غالب آچکا ہے۔ کیا تم اب بھی اداس ہو؟”
میں نے تیری خیریت پوچھنا گوارا نہیں کیا کیونکہ تُو یومِ پیدائش کے آنے کے کںٔی ہفتوں پہلے سے ہی اشک بار ہے۔ تُو شاید اپنے یتیم ہونے کا رونا رو رہا ہوگا۔ یہ زار قطار برسات میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ تیری پیدائش کے دن نوجوان نسل موٹر سائیکل پر شاید اپنا نہیں بلکہ تیرا جنازہ نکالتے ہیں، باجے بجا بجا کر تیرے دکھوں کا علی الاعلان کرتے ہیں، سرِ عام رقص کر کے تیری تذلیل کرتے ہیں۔ تیری تعریف میں نغمے گا کر محبِ وطن کا بیج سینے پر تان کر اکڑتے ہیں۔ شاید یہ تیری نماںٔندگی پوری جہان میں کرتے ہیں۔ مگر اے میرے عزیز دوست! میری جان! پاکستان! یہ تیری نہیں بلکہ اپنی اور اپنے آباء کی عکاسی کرتے ہیں۔ تُو ہرگز قصور وار نہیں۔ میں اپنی جانب سے اور اپنے پاکستانیوں کی جانب سے تجھ سے تہہ دل سے معذرت خواہ ہوں۔ تُو یوں ہماری پہچان رہے گا۔ تُو یوں ہی سرفراز رہے گا۔ تیرا پرچم سدا آباد رہے گا۔ (ان شاءاللہ)
ہے جرأت کس کی جو دیکھے اسے میلی نگاہوں سے
علیٓ پرچم یہ لہراتا سلامت تا قیامت ہے
پاکستان زندہ باد! پاکستان پائندہ باد! تیرا خیرخواہ
اسامہ علی