تحریر/فیضان قریشی
میرے عزیز وطن
السلام علیکم،
اس 14 اگست پر ہماری آزادی کے 75 برس پورے ہو رہے ہیں۔اس موقع پر سوچا ذرا تم سے ہمکلام ہوا جائے۔ہاں مجھے معلوم ہے تم بہت مشکلات میں گہرے ہوئے ہو اور تمہاری جدو جہد بھی 75 برس کی ہو چکی ہے۔ مجھے یہ سوچ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بھی تمھاری مشکلات ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی وہ عظیم پاکستان بن سکا جس کا خواب ہم نے دیکھا تھا۔تم نے آزادی کے بعد مہاجرین کا سفاک کا سفاک قتل و غارت دیکھا،عوامی بیبسی دیکھی، قائداعظم کی وفات دکھی اور لیاقت علی خان کا قتل دیکھا۔مگر تم مضبوط رہے تم نے بھارت کی بے حسی دیکھی مگر تم جہکے نہیں۔میں تمہیں سلام پیش کرتا ہوں۔
مگر پھر میں نے سنا کہ ملک میں فساد پھیل گیا اور اسلام کے نام پر حاصل کردہ ملک میں مسلمان عوام مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے دستوں گیریباں ہوگئے اور خونریزی کی ایک نئی داستان رقم ہوگی مگر تم نے یہ سب بھی بہت بہادری کے ساتھ برداشت کیا۔ ہاں میں واقف ہوں کہ تم دہائیوں سے ایک رہنما کے لیے ترستے رہے اور جب بھی تمہیں کوئی رہنما ملا اس کو زندہ رہنے کی اجازت نہیں دی گئی خواہ وہ کوئی بھی ہو مجھے ہمارے اس نقصان کا بہت افسوس ہے۔
یاد کرو ایک دور میں ہم بہت ترقی کر رہے تھے ہماری تعلیم و صحت کا معیار بڑھ رہا تھا مگر اچانک کیا ہوا۔ہماری قوم علم کی سیڑھی چڑھتے چڑھتے جہالت کے گڑھے میں گر گئی۔ سائنسی جدد نے ہمیں بہت پروفیشنلس دیے مگر اس سے زیادہ اس نے انسانوں کو پیسے چھاپنے کی مشینوں میں کامیابی سے ڈہلا اور ہمارے معاشرے میں انسان نایاب ہوگئے۔میری قوم حدیث اور سنت کو ایک کونے میں دبا کر مارڈرنایزیشن کی دوڑ میں لگ گئی مگر اس دوڑ میں ہم نے اخلاقیات کے پست ترین درجے کو چھوا۔میرے عزیز وطن یاد کرو علامہ اقبال کا وہ شعر جس میں وہ کہتے ہیں
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
غور کرنے کو تو اس شعر میں بہت سی چیزیں ہیں مگر ستم تو یہ ہے کہ ہم بہٹک گئے اور بھول گئے کہ قائداعظم، محمد علی جوہر، علامہ اقبال کون تھے۔ لیکن سد افسوس مغربی طرز عمل کا ایسا بخار سر چڑھا کر کہ ہم مغربی شخصیات کو اپنے سرپرست سمجھتے رہے اور اپنے حقیقی ہیروز کو بھلا دیا۔
میرے وطن میں تم سے اپنا کچھ غم بانٹنا چاہتا ہوں میں دیکھا کہ ہماری عظیم قوم احساس کمتری میں چلے گئے۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی مغرب رسم و روایت کو زندہ رکھا اور اپنے ہاتھ سے ہی اپنی روایتوں کا گلہ گھونٹ دیا ۔میں نے دیکھا کہ جو اس عزت ہم نے انگریزوں کو دی وہ عزت عبدالقدیر خان، عبدالسلام، عبدالستار ایدھی، رمضان چیپا، ڈاکٹر ادیب رضوی جیسی شخصیات کو نہیں دی دیں نتیجتا پاکستان نے اپنے بہت محسن خود یے ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اب قوم کے نوجوان جو پاکستان کا مستقبل ہے وہ اس بیمار پاکستان کا خیال رکھنے کے بجائے بیرونی ممالک کوچ کرنا چاہتے ہیں اور کچھ کر بھی رہے ہیں۔ یہ ان کی ترجیحات کا حصہ ہے۔
مگر میں ملک کے درد کو بخوبی سمجھتا ہوں اور یہ جانتا ہو کہ ہم بہت سی مہلک امراز میں لپٹے ہوئے ہیں کرپشن اور غیر اخلاقی تو پرانی بیماریاں تھیں مگر میں حیران ہوں کہ ناشکری کا مرض ہم میں کیسے پھوٹ پڑا اللہ ہمیں صحت بخشے۔میں اس بات کو ہرگز نہیں بھولا کہ پاکستان فقط ایک زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ یہ ایک احساس کا نام ہے ،ایک تاریخ کا نام ہے، ایک خون سے رقم کی گئی جدوجہد کا نام ہے۔مگر بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہ تو ہم اپنے نظریے کی حفاظت کر سکیں کی نہ آپ نے قیام کی۔ اس پر مجھے علامہ اقبال کا ایک اود شعر یاد آیا
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
عزیز وطن میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں شاید یہی وجہ ہے کہ میں قوم کے متعلق شکایت کی اتنی لمبی فہرست لیے تم سے ہمکلام ہوں۔ لیکن میں یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ تم اپنے ہر مشکل وقت میں مجھے اپنے شانہ بشانہ پاؤگے۔ تم پہلے بھی ڈٹے رہے اور اب بھئی ڈٹے رہنا۔کوشش سے ہر چیز ممکن ہے یہ محاورہ تو تم نے سنا ہوگا کہ خدا کی راہ میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ قوم جلد ہی تمہارے نقصان کا ازالہ کریں گی۔ اللہ تمہں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
تمہارا خیرخواه
فیضان قریشی۔