“آج ہم لڑکیوں پر ہوتے ظلم پر کالم لکھیں گے تاکہ ہمارے معاشرے میں ایک عورت کا کیا مقام ہے؟ اس کو کس طرح خود کو مضبوط بنا کر رکھنا ہے۔”
آج کل تقریباً 80 فیصد ایسی لڑکیاں ہیں جو معاشرے میں ظلم و زیادتی کا نشانہ بن رہی ہیں۔ اپنے گھر سے لے کر شوہر کے گھر تک وہ اتنے ظلم و زیادتی، مار پیٹ، سب کی باتیں، طعنے سن کر برداشت کرتی ہیں اور اپنے حق کے لیے آواز تک نہیں اٹھا سکتی ہیں۔ وہ خود پر ہوا ہر ظلم خاموشی سے برداشت کرتی جا رہی ہیں اس لیے کہ وہ ایک عورت ہے اور عورت کو بولنے کا حق نہیں دیا جاتا ہے۔ اس کو بس خاموش رہنا، سب کی عزت کرنا اور خاموشی سے سب سہنے کی سیکھ دی جاتی ہے۔
ایک لڑکی پر ظلم کر کے انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ خود بہت بہادر ہے، اس کے آگے کوئی بول نہیں سکتا ہے۔ جب مرضی وہ ایک عورت کی بے عزتی کر کے اس کو ذلیل و رسوا کر سکتا ہے۔ وہ یہ سوچتا بے کہ عورت تو بے بس ہے مجبور و لاچار ہے وہ کس کو جا کر بتائے گی وہ تو ہم سے بس باتیں سنتی رہے گی اور ہمارے کام بھی کرتی رہے گی۔
“پرانے وقتوں میں جہالت کے دور میں عورت کو کہتے تھے یہ تو ہمارے پاؤں کی جوتی ہے۔” اس کی کیا اوقات ہے ہمارے سامنے بولنے کی؟
لڑکیوں کو پیدا ہوتے ساتھ ہی زندہ دفن کر دیتے تھے یا مار دیتے تھے اور اگر کسی گھر میں لڑکی ہوتی تو اس پر جانوروں کی طرح تشددکرتے تھے۔ اس کو مار پیٹ کر ظلم و زیادتی کا نشانہ بناتے تھے۔ ان کی چھوٹی عمر میں شادی کروا کر اس پر اتنے سارے بوجھ اور ذمہ دارہاں ڈال دیتے تھے اور ان پر ظلم کرتے تھے اور ایک لڑکی خود پر ہوتے سب ظلم برداشت کرتی رہتی تھی۔
آج کل کے معاشرے میں بھی عورت کی قدر نہیں کی جاتی ہے۔ ان پر ظلم کیا جاتا ہے اور وہ کمزور بن کر سب برداشت کرتی رہتی ہے۔ اس لیے کہ وہ ایک عورت ہے۔ عورت اپنے ہر روپ میں چاہے وہ بیٹی، بہن، بیوی، یا ماں بن جائے ہر وقت میں سب کے ظلم سہتی رہتی ہے خاموشی سے اور اپنا ہر رشتہ بہترین گزارتی ہے۔ کئی بار تو اتنے ظلم اور تشدد براشت کرتے کرتے وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔
ایسا کیوں ہے ہمارے معاشرے میں؟ کیوں ایک عورت کی عزت کو عزت نہیں سمجھا جاتا ہے؟ کیوں اس پر اتنا ظلم، زیادتی اور تشدد کیا جاتا ہے؟
ہمارے خیال سے آج کل کے معاشرے میں ایک لڑکی کو اتنا کمزور نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنوں کی، غیروں کی سب کی باتیں، طعنے سن کر برداشت کرے اور اس حد تک وہ صدمے میں یا ڈپریشن میں چلی جائے کہ کبھی اس کی موت بھی واقعہ ہوجاتی ہے اس وجہ سے اور کبھی اسی صدمے میں رہتے ہوئے وہ اپنی مرضی سے جینا ہی چھوڑ دیتی ہے۔ لوگ بس یہی چاہتے کہ ایک عورت سب کے ظلم زیادتی کو خاموشی سے سہتی رہے اور ایک زندہ لاش بن کے رہ جائے بس۔
آخر! ایک لڑکی کا بھی حق ہے اپنی مرضی سے جینے کا عزت سے پیار میں اپنی زندگی گزارنے کا۔ اپنی زندگی کے ہر پہلو کو آرام و آسائیش کے ساتھ بسر کرنے کا۔ اپنے مقاصد اور ارادوں کو پورا کرنے کا۔ پھر کیوں اس سے اس کا یہ حق چھین لیا جاتا ہے؟ کیوں اس کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر اس کو ایک قیدی بنا دیا جاتا ہے؟ کیوں! آخر کیوں!
آج کل کے دور میں اور آج کل کے معاشرے میں ایک لڑکی کو اپنی حق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔ اپنے سب حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ معاشرے کے ظلم و زیادتی کو برداشت کرنے کی بجائے خود کے لیے کھڑی ہو، ثابت کرے کہ وہ کمزور نہیں ہے، وہ مضبوط ہے۔ وہ اپنے ہر اعمال، سوچ اور کام میں بہت خاص ہے وہ ایک عام لڑکی نہیں ہے جو سب سہہ کر برداشت کرے۔ وہ بہت مضبوط ہے خود اعتمادی ہے اس میں کہ وہ سب کا مقابلہ ڈٹ کر کرے اور خود کی عزت برقرار رکھے۔
یقین کریں ہمارے معاشرے میں عورت کی بہت عزت قدر کی جائے گی۔ جب ایک عورت اپنا مقام خود بنائے گی تو یہ معاشرہ اس پر کبھی ظلم و زیادتی نہیں کر سکے گا۔ وہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھا کر میدان میں جب آئے گی تو ہر انسان اس کی عزت قدر کرے گا اور اس پر ظلم کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچے گا کہ اگر ہم مردوں کے خلاف یہ عدالت تک چلی گئی تو ہماری زندگی برباد ہو سکتی ہے۔ اس طرح ہر مرد ہر انسان ایک عورت پر ظلم و زیادتی کرنے سے ڈرے گا۔
“ہماری لڑکیوں، خواتین کو چاہیے خود کو مضبوط بنائیں۔ اپنے حق کے لیے بہادری سے لڑنا سیکھیں، آواز اٹھانا سیکھیں تاکہ ہر بندہ دوبارہ ظلم و زیادتی کرنے سے پہلے سوچے ضرور کہ ایک عورت کی عزت کتنی قیمتی ہے۔”
خود اس معاشرے کا مقابلہ کریں آپ اپنی عزت، جان، آبرو کی حفاظت خود کر سکیں گی اور بہت سے خواتین کو بھی مضبوط بنا سکیں گی۔
