93

دیسی معالج، انگریزی علاج/تحریر/حسن معاویہ جٹ

سیف کی بازو فریکچر ہو گئی، اس نے اپنے دوست حیدر کو ساتھ لے کر ایک دیسی ہڈی جوڑ یا یوں کہہ لیں کہ پہلوان جی کا رُخ کیا۔
حکیم نے اپنے طریقے سے ہڈی صحیح کرتے ہوئے سیف کی چیخیں نکلوائیں، پھر پٹی کرکے اسے دوا لکھ کر دی، طریقہ سمجھایا کہ کیسے اور کتنے دن دوا کھانی ہے۔
حیدر سوچ رہا تھا کہ حکیم درد روکنے اور ہڈی جوڑنے کے لیے دیسی ادویات لکھ کر دے گا جو کہ اس کے مطب ہی سے مل جائیں گی۔
” حیدر چلو چلیں ، حکیم نے انگریزی دوا لکھ کر دی ہے، فارمیسی سے لیتے ہیں اور پھر مجھے گھر چھوڑ دینا۔”
سیف نے حیدر سے کہا، حیدر اِدھر اُدھر دیکھتا اس کے پیچھے ہو لیا۔
کئی دن تک حیدر یہی سوچ کر پاگل ہوتا رہا کہ :
“ایک حکیم، ایک دیسی علاج کرنے والا پہلوان آخر انگریزی دوا کیوں لکھ رہا ہے؟ آخر اسے انگریزی دوا تجویز کرنے کا حق کس نے دیا؟ کیا کوئی پکڑنے والا نہیں ہے؟”
آرتھو ڈاکٹر کئی سال کی تعلیم بہت سا پیسہ لگا کر حاصل کرتے ہیں جبکہ دیسی ہڈی جوڑ چند ماہ کسی کی شاگردی اختیار کرکے ہڈیاں جوڑ کر لوگوں کی چیخیں نکلوالتے ہوئے علاج کرتے ہیں۔آرتھوپیڈک ڈاکٹرز کی نسبت دیسی حکیم و پہلوان زیادہ کمائی کرتے ہیں، آرتھوپیڈک والے نفاست پسند ہوتے ہیں جبکہ دیسیوں کو جہاں جگہ مل جائے نظام چل جاتا ہے۔ میری ناقص معلومات کے مطابق آرتھو ڈاکٹر جب ہڈی جوڑتا ہے تو متعلقہ جگہ سُن کر دیتا ہے تاکہ مریض کو تکلیف نہ ہو جبکہ ماہر دیسی ہڈی جوڑ پہلوان بنا سُن کیے ہڈی جوڑتے ہوئے ایسے طریقے سے کھینچا تانی کرتا ہے کہ پورا محلہ آوازیں سُنتا رہتا ہے۔
دیسی ہڈی جوڑ کھینچا تانی کرکے، چیخیں نکلوا کر اور خاص ادویات دے کر جب مریض کو ناکارہ کر دیتے ہیں تو پھر فیملی سے کہا جاتا ہے: “اپنا مریض کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھاؤ۔”
کافی دن کی کھوج، مشاہدات اور پوچھنے پچھانے کے بعد حیدر کو یاد آیا کہ وہ تو جمہوریہ پاکستان کا آزاد شہری ہے اور یہاں سب کچھ آزادی سے کیا جا سکتا ہے۔
حیدر سمجھ چکا تھا کہ جس کے تعلقات وسیع اور جیب بھری ہو تو وہ اپنا قانون خود بنا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں غیرقانونی کام کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ نہ ہونے کے برابر، اگر خوش قسمتی سے کوئی دھر بھی لیا جائے تو یہاں وہاں سے بچانے والے ہر طرح کے اچھے لوگ میدان میں اتر آتے ہیں۔
کُل ملا کر بات اتنی ہے کہ “یہاں سب گڑبڑ ہے۔”

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں