
شخصیات کے حوالے سے ذاتی نقطہِ نظر رکھنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ لیکن مُردوں کو برا کہنے کہ ممانعت اسلامی تعلیمات کا اساسی عنصر ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کہ وہ ایک عوامی لیڈر تھے۔ عوام کے دلوں میں رچتے بستے تھے، عوامی درد کی لپیٹ میں شب و روز بسر کرتے تھے، ان کی بہت سی سیاسی غلطیاں ہو سکتی ہیں، عقلِ کُل کا مالک کسی انسان کو تصور کیا جاتا ہے تو وہ فقط سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم پاکستان کے پہلے اور آخری عوامی لیڈر جناب ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر ان کی چند اہم کارناموں کو خراج تحسین پیش کریں گے جو کسی بھی مضبوط اعصاب لیڈر کی خوبیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے باقاعدہ ذاتی سیاست کا آغاز 1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ کر کیا۔ یہ دور ملکی تاریخ میں انتشاری دور میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی دور اندیشی سے پاکستانی عوام میں موجود غریب طبقے کی مشکلات کا تخمینہ لگایا، انہیں ادراک ہوا کہ یہ وہ طبقہ ہے جو برسوں سے وڈیروں، جاگیرداروں، سیٹھوں، پیشواؤں، اور سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر جی رہا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق تک سے محروم یہ طبقہ دن بہ دن مزید پستیوں میں جا رہا ہے، زندہ رہنے کے لیے روٹی، کپڑے اور مکان جیسی بنیادی ضروریات تک میسر نہیں۔ وہ عوام میں شعور کا عَلم لے کر اٹھے، انہوں نے 1967 سے قبل بہت سی وزارتوں پر اپنے فرائض سرانجام دیے تھے، انہی میں سے ایک وزارت، وزارتِ اقلیتی امور تھی، انہیں پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے مسائل کا بھی واضح ادراک تھا۔ پاکستان کی عالمی سطح پر آئے دن تضحیک اور تذلیل کا سلسلہ بھی ان سے ڈھکا چھپا نہ تھا، سابقہ حکم رانوں کی شاہ خرچیاں عوام کے ناتواں کاندھوں پر جس بارِ مسلسل کا عندیہ تھیں وہ بھی آپ کے علم میں تھیں۔ الغرض عوام کو ایک حکم ران کی نہیں، عوامی لیڈر کی ضرورت تھی، ایک ایسے لیڈر کی جو اپنی عوام کا خون گرمانے اور ملک دشمنوں کا خون منجمد کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہو، اور یقیناً ایسی ایک ہی شخصیت تھیں، اور وہ تھے جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید۔ آپ نے 1970 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے کام یابی کے بعد عوام کی ازخود رہ نمائی کا آغاز کیا۔ آپ نے عوام میں اپنی خطابت ہے ذریعے زندہ رہنے اور آزادی سے سر اٹھا کر جینے کی رمق بیدار کی۔ آپ کے الفاظ سیاسی مخالفین کی غیبتوں سے مغلظ ہونے کے بہ جائے عوام کی مشاکل و مصائب کے حل پر مبنی ہوتے تھے، آپ عوام کو اپنی ذات کا جزو تصور کرتے تھے، عوام آپ کا نعرہ تھا، عوامی نمائندگی آپ کا مقصد حیات تھا اور پاکستان کی اٹھان و اڑان آپ کا خواب و منزل تھی۔ آپ نے ٹکڑوں میں بٹے نہ مکمل اور غیر متفقہ آئین سے عوام کے حقِ خودارادیت کے مجروح ہونے کا ازالہ کیا، اور 1973 میں پاکستان کو ایک متفقہ اور اسلامی آئین فراہم کیا، یہ آپ کی سب سے بڑی کام یابی تھی، آپ کی کام یابیوں اور اصلاحات کی ایک لمبی فہرست تاریخ میں موجود ہے، آپ نے پاکستان کو پہلی ایٹمی طاقت بنانے کے منصوبے کی بنیاد رکھی، آپ نے کسانوں، ہاریوں، مزاروں، مظلوموں، اور تن خواہ دار طبقے کی داد رسی کے لیے اپنا فکر و تحمل سے لبریز کاندھا فراہم کیا، آپ نے عوام کے درد سمیٹے، جاگیر داروں، سرمایہ داروں، سیٹھوں اور مقتدر طبقے کے ظلم و ستم کو نکیل ڈالی، آپ نے 1974 میں قادیانیوں کو قانونی طریقہِ کار کے تحت دلائل کی روشنی میں کافر قرار دلواتے ہوئے ملک کو ایک بڑی خوں ریزی سے بچایا۔ آپ نے 77 اسلامی ممالک کو اسلام کی سربلندی اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتے ہوئے اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا، زرعی اصلاحات، سستی خوراک اور رہائش کی فراہمی کے منصوبہ جات کا قیام عمل میں لاکر در بہ در بھٹکتی عوام کو سہارا دیا۔ برسوں سے ملکی معیشت پر مسلط سرمایہ داروں کے چنگل سے عوام کی گردن کو چھڑوایا، کشمیری عوام کے دکھ درد کی داد رسی کرتے ہوئے عالمی سطح پر ان کے حقوق جی جنگ لڑی، ان کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے دنیا کے مقتدر حلقوں کو للکارا، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مضبوط اعصاب کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس جرات مندانہ طرز تخاطب کا مظاہرہ کیا وہ عالمی طاقتوں کا غرور خاک میں ملا دینے کے لیے کافی تھا۔ یہ الگ بحث ہے کہ سلامتی کونسل میں پھاڑی گئی قرارداد سے پاکستان کو کیا نقصانات ہوئے، اور یہ بھی کہ آیا وہ پولینڈ کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد تھی یا ان کے ذاتی نوٹس، انجام سے قطع نظر یہ اقوام عالم کے لیے واضح اشارہ تھا کہ اب پاکستان اپنے داخلی معاملات میں خود مختار ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی شکست خوردہ عوام کے زخموں کو بھرنے کے لیے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا، بھارت کے ساتھ شملہ معاہدہ ان کی ایک ناقابل فراموش کام یابی ہے۔ پاک چین دوستی کی ڈور کو مضبوط گرہوں میں پرونا بھی شہید ذوالفقار علی بھٹو کے کارناموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ الغرض عوام آپ کی توجہ کا محور تھی، آپ اپنے خطاب میں خود کو عوام اور عوام کو اپنا جزو قرار دیتے، انہیں ان کے فیصلوں میں خودمختاری کا پروانہ تھماتے، اپنے ساتھ جینے اور مرنے کے وعدے پر اختتام فرماتے، آپ نے عوامی جذبات کو زندہ کیا، زندہ رہنے کے جذبات، سراٹھا کر جینے کے جذبات، دنیا کا لوہا بننے کے جذبات۔ آپ نے اقتدار کی آرائشوں سے حتی الامکان کنارہ کشی اختیار کی، آپ کا زیادہ وقت عوام کے درمیان گزرا، آپ واقعتاً عوامی قائد کہلائے جانے کے لائق ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں، 1979 میں آپ پر قتل کے مقدمے کے فیصلے میں سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ آپ نے ایک قائد ہونے کے ناتے اس حکم کو قبول کیا، آپ نے کسی کو خریدا نہیں، اپنی غیرت کا سودا نہیں کیا، تخت و تاراج کے باسیوں کے آگے گھٹنے نہیں بچھائے، کیوں کہ آپ جانتے تھے، کہ آپ جا رہے ہیں، آپ کا مقصد نہیں، آپ جا رہے ہیں، آپ کے وہ الفاظ نہیں جو آپ نے عوام کی روحوں میں تحلیل کیے تھے، آپ جارہے ہیں لیکن آپ کی عوام باقی ہے، آپ کو اندازہ تھا آپ کل بھی عوام کے لیے زندہ تھے، آپ آئندہ بھی عوام کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ آپ نے 4 اپریل 1979 کو راول پنڈی جیل میں تختہ دار سے اپنی عوام کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہا اور پیغام دے گئے کہمیرے ہاتھ میں حق کا جھنڈا ہےمیرے سر پر ظلم کا پھندا ہےمیں مرنے سے کب ڈرتا ہوںمیں موت کی خاطر زندہ ہوں