اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ کرام ؇ کو انفرادی خصوصیات وبے شمار صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ آج ہماری زندگیوں میں بے چینی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے ان ہستیوں کے حالات وواقعات کو نہیں پڑھاجو ہمہ وقت رسول اکرم ﷺکے قول وفعل کو ہم تک پہنچانے والے ہیں۔یقیناًا صحاب رسول ؇ کا تذکرہ کرنا اور امت کے سامنے ان کا اوصاف اجاگر کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔اسی حوالے سے ایک ایسے صحابی کا تذکرہ ہےجنھیں کاتب وحی ہونے کے ساتھ ساتھ کا راز دار رسول ﷺ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔یہ وہ صحابی ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے قیامت تک آنے والے ہر فتنے کے بارے میں بتادیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے اس صحابی کو مدینہ کے منافقین کے نام بھی معلوم تھے لیکن رسول اللہ ﷺکی نصیحت کے باعث کبھی بھی یہ نام آشکار نہیں کیے۔ اس صحابی رسول میں تین خصوصیات جو اُنہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں۔ اوّل یہ کہ وہ بہت ذہین اور سمجھ دار تھے، مشکل سے مشکل مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالتے۔ دوم، بہت جلد بات کی تہہ تک پہنچ جاتے اور نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہ کرتے۔ سوم یہ کہ راز کو راز رکھتے تھے۔ آپ مدینے کے چند پڑھے لکھے نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ وہ حضرت حذیفہ بن یمان ہیں ۔ آپکا اصل نام ”حذیفہ بن حسل بن جابر“ ہے۔آپ کے والد کا اصل نام ”حسل“ تھالیکن وہ ”یمان“ کے لقب سے مشہور ہوئے۔اس لقب پڑنے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت حذیفہ کے والد ”حسل“ انصار کے ایک قبیلہ ”بنو اشہل“کے حلیف بنے اور وہ قبیلہ چونکہ ملکِ یمن میں رہتا تھا لہٰذا اسی کی طرف نسبت کرتے ہوئے انھیں”یمان“ کا لقب دیا گیا۔ حضرت حذیفہ بن یمان کے والد اور والدہ دونوں صحابہ ؇ میں سے تھے۔آپ کے والد ”یمان“ کی شہادت غزوئہ احد میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہوئی۔ وہ اس طرح کہ حضرت حذیفہ اور ان کے والد دونوں غزوہ احد میں شریک تھے اور مشرکینِ مکہ کے خلاف لڑ رہے تھے اور اس زمانے مین چونکہ خود وغیرہ پہن کر لڑتے تھے۔ اس لیے حضرت حذیفہ کے والد حضرت یمان کو صحابہ ؇ پہچان نہ سکے اور ان پر حملہ کردیا۔حضرت حذیفہ نے جب یہ دیکھا تو انھیں روکنے لگےلیکن تب تک ان کے والد حضرت یمان شہید ہوچکے تھے۔ایک حدیث کے مطابق : ’’حضرت حذیفہ پکارنے لگے کہ اے اللہ کے بندو!یہ میرے والد ہیں، میرے والد ہیںلیکن لوگ نہیں رکے،یہاں تک کہ انھیں شہید کردیا۔‘‘ ( بخاری ) حضرت حذیفہ کے والد کی طرح ان کی والدہ بھی جلیل القدر صحابیہ تھیں اور آپﷺ سے بے انتہاء محبت کرتی تھیں۔اپنے بیٹے حضرت حذیفہ کو بھی حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہونے کی سختی سے تاکید کرتی تھیں۔ جب رسول اللہﷺ ہجرت فرما کر مکہ سے مدینہ تشریف لائے توایک روز حضرت حذیفہ نے آپ ﷺ سے دریافت کیا: ’ ’اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا میں مہاجرین میں سے ہوں یا اَنصار میں سے؟‘‘ اس پر آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’اگر تم چاہو توخود کو مہاجرین میں شمار کرلو اور اگر چاہو تو اَنصارمیں سے۔ ‘‘ اس پر حضرت حذیفہ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولﷺ! میں اَنصاری ہوں‘‘۔ حضور ﷺ نے حضرت عمار بن یاسر اور آپ کے درمیان عقد ِمواخات (بھائی چارے کا معاہدہ) کرایا۔ عہد ِرسالت میں ریاستی سطح کے اہم امور میں بھی شریک رہے۔ مدینہ میں مسلمانوں کی پہلی مردم شماری کی ڈیوٹی آپﷺ نے حضرت حذیفہ ہی کی لگائی۔ اس وقت مدینہ میں مسلمانوں کی تعداد پندرہ سو تھی۔ ایک شخص نے آپ سے پوچھا کہ فتنوں میں سے بڑا فتنہ کون سا ہوگا ؟ تو آپ نے فرمایا : ’’اچھائی اور برائی دونوں تمھارے سامنے ہوںلیکن تمھیں یہ پتہ نہ ہو کہ ہم کس کو اختیار کریں۔‘‘ سیدنا عمر فاروق نے حضرت حذیفہکو مدائن کا گورنر بناکر بھیجا تو آپ نہایت سادگی سے اپنے گدھے پر سوار ہوکر گئے۔ ایک بارسیدنا عمر فاروق نے آپ کو مدینہ بلایا اور جنگل میں چھپ کر دیکھا کہ کتنا مال واپس ساتھ لاتے ہیں؟ دیکھا کہ تن تنہا سواری پر خالی ہاتھ آرہے ہیں۔ سیدنا عمر فاروق آگے بڑھے اور فرمایا: ’’تُو میرا بھائی اور میں تمھارا بھائی‘‘۔ رسول اللہﷺ مختلف مواقع پر بہت سی اہم اور نازک ذمہ داریوں کی ادائیگی میںحضرت حذیفہ کا تعاون حاصل کرتے رہتے تھے لیکن سب سے مشکل اور خطرناک ذمہ داری جس میں ان کی ذہانت، زود فہمی اور راز داری کا زبردست امتحان تھا۔اس وقت ان کے حوالے کی گئی تھی جب غزوہ ٔخندق کے موقع پر دشمن نے ہر طرف سے مسلمانوں کا محاصرہ کر رکھا تھا اور محاصرے کے طول پکڑ جانے کی وجہ سے مسلمانوں کی پریشانیاں اپنی انتہاکو پہنچ گئی تھیں۔ ادھر قریش اور ان کے حلیف مشرک قبائل کی حالت بھی اس سخت گھڑی میں مسلمانوں سے بہتر نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر تیز آندھی کا عذاب مسلط کر دیا تھا جس سے ان کے خیمے اُلٹ گئے، دیگیں الٹ گئیں اور ان کے چولہے بجھ گئے، ہوا کے تیز جھکڑوں نے ان کے چہروں پر کنکریوں کی بوچھاڑ کر دی اور ان کی آنکھوں اور ناک کو گردو غبار سے بھر دیا۔ ایسے نازک حالات میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت حذیفہ کو رات کی تاریکی میں دشمن کے کیمپ میں بھیجا تاکہ حالات سے آگاہی ہو جائے۔ تن تنہا دشمن کے کیمپ جانا موت کے منہ میں جانے کے مترادف تھالیکن جذبہ اطاعت و فرماں برداری کی رہ نمائی میں انہوں نے اس مہم کو کس طرح سر انجام دیا انہوں نے خود اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے: ”اس رات ہم لوگ صفیں باندھے محاذ پر ڈٹے ہوئے تھے۔ابوسفیان ( جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) او ران کے ساتھی مشرکین ہم سے بالائی جانب صف آرا تھے اور بنو قریظہ کے یہودی ہم سے نشیب کی طرف تھے۔ وہ رات، ظلمت، ٹھنڈک اور ہواؤں کی شدت کے لحاظ سے محاصرے کی شدید ترین رات تھی۔تاریکی کا یہ عالم تھا کہ ہمیں اپنے ہاتھ نہیں دکھائی دیتے تھے، ایسی سخت گھڑی میں منافقین رسول اللہ ﷺسے اپنے اپنے گھر لوٹ جانے کی اجازت مانگنے لگے۔ وہ کہتے کہ ہمارے مکانات دشمن کے سامنے کھلے پڑے ہیں ۔ حالاں کہ دراصل وہ کھلے ہوئے نہ تھے۔ منافقین میں سے جو بھی آپﷺ سے جانے کی اجازت مانگتا۔ آپﷺ اسے اجازت مرحمت فرما دیتے یہاں تک کہ محاذ پر صرف تقریباً تین سو آدمی رہ گئے۔اس وقت نبی کریم ﷺ اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور ایک ایک کرکے ہم میں سے ہر شخص کے پاس تشریف لائے۔ آپ ﷺمیری طرف بھی آئے اورسرگوشی کے انداز میں فرمایاکہ تم چپکے سے دشمن کے کیمپ میں جاؤ اور حالات معلوم کرکے مجھے آگاہ کرو۔حکم سن کر انتہائی خوف اور سخت ٹھنڈک کے باوجود میں نے موت کی وادی کی طرف قدم اُٹھا دیے اور آپ ﷺ کی زبان مبارک سے میرے لیے دعا کے الفاظ نکلےـ: ’’اللہم احفظہ من بین یدیہ، ومن خلفہ، وعن یمینہ، وعن شمالہ، وعن فوقہ وتحتہ۔‘‘ ’’اے اللہ ! اس کی حفاظت فرما! اس کے سامنے سے، اس کے پیچھے سے، اس کے دائیں سے، اس کے بائیں سے، اس کے اوپر سے او راس کے نیچے سے ۔‘‘ رسول اللہﷺ کی دعا کے یہ الفاظ ابھی ختم بھی نہیں ہونے پائے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل سے خوف اور میرے جسم سے ٹھنڈک کے اثرات کو زائل کر دیا۔ جب میں جانے کے لیے مڑا تو رسول اللہﷺ نے مجھے پکارا او رفرمایاکہ حذیفہ! دیکھو ان کے کیمپ میں پہنچ کر کوئی اقدام مت کرنا۔میں نے کہا بہت اچھا او رخاموشی کے ساتھ تاریکی کے پردے میں چلتا ہوا مشرکین کے لشکر میں پہنچ گیا او ران کے درمیان اس طرح گھل مل گیا گویا میں انہی میںسےہوں۔میرے پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد ابو سفیان ان کے درمیان میں تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہوا۔ اس نے کہا کہ قریش کے لوگو! میں تم سے ایک بات کہنا چاہتا ہوںمگر مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں یہ بات محمدﷺ تک نہ پہنچ جائے۔ قریش کے لوگو! اب تمہارے لیے مزید یہاں ٹھہرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی، تم دیکھ ہی رہے ہو کہ ہمارے جانور ہلاک ہو رہے ہیں، بنو قریظہ کے یہودی ہم سے کنارہ کش ہو چکے ہیں اور تندوتیز ہواؤں کے ہاتھوں جن پر یشانیوں اور مصیبتوں کاسامنا ہمیں کرنا پڑ رہا ہے، ان کا بھی مشاہدہ تم کر رہے ہو۔ اس لیے اب بہتر یہی ہے کہ سب یہاں سے کُوچ کر چلو۔ میں خود بھی واپس جا رہا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ اپنے اُونٹ کے پاس آیا۔اس کے گھٹنے سے بندھی ہوئی رسی کھولی اور اس پر سوار ہو گیا پھر اسے ایک کوڑا رسید کر دیا، اُونٹ اُچھل کر کھڑا ہو گیا او راپنے سوا ر کو لے کر روانہ ہو گیا۔ اگر رسول اللہﷺ نے واپسی سے پہلے مجھے کسی اقدام سے روک نہ دیا ہوتا تو اس وقت تیر مارکر ابو سفیان کو قتل کر ڈالنا میرے لیے بہت آسان تھا۔ اس کے بعد جب میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا، خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ ﷺازواج مطہرات میں سے کسی کی چادر اوڑھے نماز میں مشغول تھے۔ آپﷺ نے مجھے دیکھا تو اپنے قریب بلایا۔میں جاکر آپ ﷺکے قدموں میں بیٹھ گیا اور آپ ﷺ نے اپنی چادر کا ایک کنارہ مجھ پر ڈال دیا۔میں نے دشمن کے کیمپ کی پوری رپورٹ خدمت اقدس میں پیش کر دی جسے سن کر رسول اللہ ﷺبہت خوش ہوئےاس پر اللہ کی تعریف کی اور اس کا شکر ادا کیا۔“ مدینہ میں رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کے سامنے سب سے مشکل اور ان کے لیے سب سے زیادہ پریشان کن مسئلہ یہ تھا کہ یہودیوں اور ان کے ہم خیال وہم مشرب مشرکین میں منافقین کا ایک گروہ موجود تھاجو اپنی گھناؤنی سازشوں اور مکروہ ریشہ دوانیوں کے ذریعہ نبی کریمﷺ اور مسلمانوں کی راہ میں طرح طرح کی مشکلات کھڑی کرتا رہتا تھا، اس لیے آپ ﷺنے حضرت حذیفہ کو ان تمام منافقوں کے ناموں سے آگاہ کر دیا تھا اور یہ ایک راز تھا جس سے حضرت حذیفہ بن یمان کے سوا کسی دوسرے کو مطلع نہیں کیا گیا تھا اور یہ خدمت ان کے سپرد کی تھی کہ وہ ان منافقین کی سرگرمیوں اور ان کی حرکات و سکنات پر برابر نظر رکھیں او ران کی طرف سے پیش آنے والے خطرات کا سدباب اور تدارک کریں۔ اسی وجہ سے حضرت حذیفہ ”راز دار رسول اللہﷺ “کے لقب سے مشہور ہو گئے۔ حضرت حذیفہ بن یمان زندگی بھر منافقین سے متعلق رسول اکرم ﷺکے رازوں کے امین رہے۔ خلفائے راشدین ؇ منافقوں کے متعلق ہمیشہ ان کی طرف رجوع کرتے رہے۔ سیّدنا عمر بن خطاب کا تو یہ حال تھا کہ جب بھی کسی مسلمان کا انتقال ہوتا تو وہ لوگوں سے دریافت فرماتے کہ حذیفہ اس کی نماز جنازہ میں شریک ہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہوتا تو وہ بھی شریک جنازہ ہو جاتےبصورت دیگر انہیں اس کے مومن مخلص ہونے میں شک ہو جاتا اور نماز جنازہ نہ پڑھتے۔ حضرت حذیفہ اور ان کے والد غزوئہ بدر میں شریک نہیں ہوسکے اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ دونوں حضرات ہجرت کرکے مدینہ منورہ آرہے تھے کہ راستے میں کفار نے انھیں روک لیااور پوچھا کہ کیا تم محمد(ﷺ)کے پاس جانا چاہتے ہو؟ انھوں نے کہاکہ ہم ان کے پاس نہیںبلکہ صرف مدینے میں جانا چاہتے ہیں۔ کفار نے ان سے اللہ کا نام لے کر عہدوپیماں لیا کہ وہ مدینے جائیں اور حضورﷺ کے ساتھ ہوکر نہیں لڑیں گےپھر جب وہ دونوں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ بیان کیا توآپﷺ نے ان سے فرمایا: ’’ تم مدینے چلے جاؤ! ہم ان کا عہد پورا کریں گے اور ان کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد چاہیں گے۔‘‘ حضرت حذیفہ حضورﷺکی بے انتہاء تعظیم اور احترام کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ حالتِ جنابت میں صبح سویرے کہیں جارہے تھے کہ سامنے سے حضورﷺکو تشریف لاتے دیکھا تو ایک طرف کھسک گئے اور پھر غسل وغیرہ کرکے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان سے اس بارے میں استفسار کیاتو انھوں نے بتایا کہ وہ حالتِ جنابت میں تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس حالت میں حضورﷺکو چھوئیں، اس پر حضورﷺنے فرمایا: ’’مسلمان ناپاک نہیں ہوتا۔‘‘ سیدنا عمر فاروق کا قاعدہ تھا کہ عاملوں کے فرمان تقرری میں اپنے احکام اور ان کے فرائض درج کرتے تھےلیکن حضرت حذیفہ کے نام جو فرمان تھا اس میں صرف یہ لکھا کہ تم لوگ ان کی اطاعت کرنا اورجو طلب کریں دے دینا۔ حضرت حذیفہ مدائن پہنچے تو معززین شہر نے استقبال کیا اورجب فرمانِ امارت پڑھا تو ہر طرف سے صدا بلند ہوئی کہ جو مانگنا ہو مانگیےہم لوگ ہر طرح حاضر ہیں۔حضرت حذیفہ بن یمان نے کہا آنحضرتﷺ اورخلفائے راشدین کے قدم بقدم چلتے تھے فرمایا: ’’ مجھے صرف اپنے پیٹ کا کھانا اور گدھے کے چارہ کی ضرورت ہے۔جب تک یہاں رہوں گا تم سے اسی کا طلب گارہوں۔‘‘ حضرت حذیفہ بن یمان آرمینیا کے محاذ پر جہاد میں مصروف تھے۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ لوگوں میں قرآن کریم کی قرأتوں میں اختلاف ہو رہا ہے۔ چنانچہ مدینہ طیبہ واپس آتے ہی انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہ امیرالمؤمنین سیدنا عثمان بن عفان کے پاس آئے اور خدمت میں حاضر ہوکر پوری صورت حال سے آگاہ کیاکہ میں آرمینیا کے محاذ پر جہاد میں مصروف تھا کہ میں نے دیکھا کہ شام کے رہنے والے لوگ حضرت اُبی بن کعب کی قرأت میں پڑھتے ہیں جو اہل عراق نے نہیں سنی تھی۔ اس بنا پر وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں اس سلسلے میں علامہ بدر الدین عینی ؒلکھتے ہیں: ’’ حذیفہ کی ایک غزوہ سے واپسی ہوئی تو واپسی پر وہ اپنے گھر میں داخل نہیں ہوئے تاآنکہ حضرت عثمان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے امیرالمؤمنین ! لوگوں کی خبر لیجئے۔ انہوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہا میں لڑائی کے سلسلے میں آرمینیا گیا ہوا تھا وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ اہل شام حضرت ابی بن کعب کی قرات میں پڑھتے ہیں جسے اہل عراق نے نہیں سنا ہوا تھا اور اہل عراق حضرت عبد اللہ بن مسعود کی قرات میں پڑھتے ہیں جسے اہل شام نے نہیں سنا اس اختلاف کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں۔ ‘‘ حضرت حذیفہ بن الیمان کا واقعہ بخاری شریف میں ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’ حضرت حذیفہ بن الیمان حضرت عثمان کے پاس آذربائیجان کے معرکے کے بعد حاضر ہوئے اور انہیں قرآت قرآن میں باہمی اختلاف نے بہت پریشان کیا تھا۔ حذیفہ نے حضرت عثمان سے کہا اے امیرالمؤمنین! اُمت کی خبر لیجئے قبل اس کے کہ وہ اپنی کتاب میں یہود و نصاریٰ کی طرح اختلاف کرنے لگیں۔ اس پر حضرت عثمان نے حضرت حفصہ کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ ہمارے پاس قرآن مجید کے نوشتے اور صحیفے بھیج دیں۔ہم انہیں نقل کر لیں گے اور ایک مصحف کی شکل میں جمع کر لیں گے پھر انہیں آپ کی طرف لوٹا دیں گے۔ حضرت حفصہؓ نے وہ صحیفے حضرت عثمان کے پاس بھیج دیے۔ حضرت عثمان نے حضرت زید بن ثابت ، عبد اللہ بن زبیر ، سعد بن العاص اور عبد الرحمٰن بن حارث بن ہشام کو متعین فرمایا کہ وہ ان صحائف کو ایک مصحف میں نقل کریں۔ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور حضرت عثمان نے جماعت قریش کے تینوں کاتبوں کو فرمایا کہ جب تم اور زید بن ثابت میں قرآن کریم کی کسی آیت کے لکھنے میں اختلاف ہو تو پھر اسے لغت قریش میں لکھنا کیونکہ قرآن مجید لغت قریش میں نازل ہوا ہے۔ چنانچہ ان حضرات نے اسی پر عمل کیا۔ یہاں تک کہ جب یہ حضرات ان صحائف کونقل کرچکے تو حضرت عثمان نے ان اصل صحائف کو حضرت حفصہؓ کے پاس واپس لوٹا دیا اور ہر علاقے میں ایک ایک نقل شدہ مصحف ارسال کر دیا اور یہ حکم صادر فرمایا کہ ان کے علاوہ جو مجموعے اور صحیفے لوگوں کے پاس لکھے ہوئے موجود ہوں ان کو جلا دیا جائے۔ حضرت حذیفہ بن یمان کا وصال مبارک خلیفہ ثالث حضرت سیّدنا عثمان غنی کی شہادت کے چالیس دن بعد (غالباً) 28 محرم الحرام 36ہجری کو مدائن (سلمان پاک) میں ہوا۔جنازہ کے ساتھ کثیر مجمع تھا ۔یہیں آپ کا مزارِ پُراَنوار ہے۔ وفات سے پہلے ان کی عجیب کیفیت تھی۔ نہایت سراسیمہ خوف زدہ اور شدید گریہ وبکا میں مصروف تھے ۔لوگوں نے رونے کا سبب پوچھا تو بولے کہ دنیا چھوڑنے کا غم نہیں۔ موت مجھ کو محبوب ہے لیکن اس لئے رو رہا ہوں کہ معلوم نہیں کہ وہاں کیا پیش آئے گا اور میرا حشر کیا ہوگا جس وقت انہوں نے آخری سانس لی تو فرمایا خدایا اپنی ملاقات میرے لئے مبارک کرنا کیونکہ تو جانتا ہے کہ تجھے میں نہایت محبوب رکھتا ہوں۔ وفات کے وقت اپنے دو بیٹوں کو وصیت کی کہ سیدنا علی بن ابی طالب سے بیعت کرنا چنانچہ ان دونوں نے سیدنا علی المرتضیٰ سے بیعت کی اور صفین میں قتل ہوئے۔ حضرت حذیفہ نے خود بھی سیدنا علی المرتضیٰ سے بیعت کی تھی۔ سینکڑوں سال بعد غالباً 20ذو الحجہ 1351 ہجری کےدن قبر میں نمی آجانے کے باعث حضرت حذیفہ اور حضرت سیّدنا جابر کے اَجسا مِ مبارکہ کی منتقلی ہوئی تو پوری دنیا سے آنے والے لاکھوں زائرین نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دونوں اصحاب ِ رسول؇ کے اجسامِ مقدّسہ اور پاکیزہ کفن یہاں تک کہ داڑھی مبارَک کے بال تک بالکل صحیح سلامت تھے۔ اجسامِ مقدسہ کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ شاید انہیں رحلت فرمائے ہوئے دو تین گھنٹے سے زائد وقت نہیں گزرا۔

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل