پیغام رسانی روز اول سے ہی انسان کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ پرانے وقتوں میں وادیوں اور جنگلوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پیغام پہنچانے کا واحد ذریعہ انسان کی اپنی آواز تھی۔وہ زور سے چیخ چیخ کر دور کھڑے انسان تک اپنا پیغام پہنچاتا تھا، اسی طرح ایک پیغام یا خبر انسان سے انسان تک منتقل منتقل ہوتے ہوتے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی تھی۔ جیسے جیسے وقت بدلتا گیا انسان ترقی کرتا گیا اور پیغام رسانی کے ذرائع میں بھی جدت آتی گئی۔موجودہ دور میں ٹیلیویژن سمیت کئی جدید ترین ذرائع پیغام رسانی کے لیے استعمال ہو رہے ہیں اور توجہ کا مرکز ہیں لیکن ایک زمانہ تھا کہ صرف ریڈیو ہی خبروں اور تفریح کا واحد ذریعہ تھا۔آج بھی بیشتر دیہی علاقوں میں جہاں ابھی تک بجلی میسر نہیں ہے وہاں ریڈیو کو وہی اہمیت حاصل ہے۔اس حساب سے اندازہ لگائیے کہ ریڈیو کی ایجاد سے پہلے لوگ کیسی زندگی بسر کرتے تھے اور ریڈیو ایجاد ہونے کے بعد لوگوں کو کتنی حیرت اور خوشی ہوئی ہو گی۔19ویں صدی عیسوی میں ریڈیو دیکھ کر لوگ حیران ہوجایا کرتے تھے۔ٹیلی فون اور ٹیلی گراف کے بعد 19 ویں صدی کے آخری عشرے میں ایجاد کردہ ریڈیو نے خاص کر عالمی جنگوں کے دور میں کروڑوں انسانوں کے لیے خبر رسانی کا واحد ذریعہ تھا۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 13 فروری کو ریڈیو کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن کو عالمی دن کے طور پر منانے کا اہتمام اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جانب سے کیا گیا۔یہ دن منانے کا مقصد ریڈیو کی اہمیت و افادیت کے بارے میں شعور پیدا کرنا ، ریڈیو کے ذریعے معلومات تک رسائی میں مدد دینا اور نشریاتی اداروں کے درمیان رابطوں میں اضافہ کرنا ہے۔2010ءمیں اسپین کی جانب سے یہ دن منانے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔لہٰذا یہ دن پہلی بار13 فروری2012ءکو منایا گیا۔ریڈیو کو عوام تک معلومات پہنچانے کا سب سے قدیم ذریعہ ہے۔اسی ریڈیو کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست پاکستان بننے کی خبر بھی سنائی گئی۔
قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے حصے میں تین ریڈیو اسٹیشن آئے جن میں لاہور، ڈھاکہ اور پشاور کے ریڈیو اسٹیشن شامل ہیں،قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلا ریڈیو اسٹیشن کراچی میں 14 اگست 1948ء میں قائم ہوا، ریڈیو پاکستان سے غیرملکی نشریات کا آغاز 14 اگست 1949ء کو کراچی اسٹیشن سے کیا گیا، یہ نشریات عربی، فارسی اور پشتو میں تھی۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اِس وقت ملک بھر میں 150 سے زائد ایم ایف ریڈیو اسٹیشن اپنی نشریات باقاعدگی کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔پاکستان میں ریڈیو پاکستان اور پاکستانی ایف ایم نشریات کے علاوہ بھی کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں کی اردو زبان میں نشریات پیش کی جاتی ہیں جن میں وائس آف امریکہ،چائینا ریڈیو انٹرنیشنل،ریڈیو جاپان، ریڈیو صدائے ترکی، سعودی عالمی ریڈیو، ریڈیوکویت، ریڈیو تہران اور ریڈیو فیبا وغیرہ شامل ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والے کئی نیوز چینلز بھی ایف ایم ریڈیو سروس اپنے سامعین کو فراہم کررہے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ آج دنیا میں ذرائع ابلاغ میں بے انتہا جدت آجانے کے باوجود ’ریڈیو‘ نہ صرف ایک موثر ترین اور سستا ذریعہ ابلاغ سمجھا جاتا ہے بلکہ اس کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔کیونکہ جہاں ٹی وی اور انٹرنیٹ کی رسائی نہیں وہاں ریڈیو ہی لوگوں کو دنیا کے حالات سے آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تفریح بھی فراہم کر رہا ہے۔ریڈیو خاص طور پر غرباء اور ناخواندہ افراد تک معلومات پہنچانے کا سستا ترین ذریعہ ہے۔ریڈیو کی نشریات اس وقت دنیا کی 95 فیصد آبادی تک پہنچ رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 44 ہزار ریڈیو اسٹیشنز 24 گھنٹے اپنی نشریات پیش کر رہے ہیں اور اس وقت پوری دنیا میں 5 ارب لوگ ریڈیو سنتے ہیں جو دنیا کی مجموعی آبادی کا تقریباً 70 فیصد ہیں۔اس وقت ریڈیو سننے والوں کی سب سے زیادہ تعداد امریکہ میں موجود ہے جہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق ریڈیو سامعین کی تعداد 24 کروڑ 42 لاکھ ہے اور ایک امریکی سامع اوسطاً روزانہ اڑھائی گھنٹے ریڈیو سنتا ہے۔
ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ دنیا میں معلومات و تفریح کی بدلتی روایات اور ذرائع کے باوجود ریڈیو کی اہمیت سے کسی طور بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ریڈیو ہی وہ ذریعہ ابلاغ ہے جو معاشرے کے اندر شعور پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر قوموں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جو بیک وقت زیادہ سے زیادہ لوگوں تک آسان رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اگر دور حاضر کی بات کی جائے تو ریڈیو کی اہمیت مسلمہ ہے خاص کر ان حالات میں جہاں آئے دن رابطے کا ذریعہ یعنی موبائل فون اب بند ہونے لگا ہے اس کے علاوہ بڑے شہروں میں ہڑتالیں ہوتی ہیں رابطے کا کوئی اور ذریعہ نہیں بچتا لوگ کہتے ہیں کہ ٹی وی پر خبریں دیکھنے کو مل جاتی ہیں لیکن ٹی وی تب ہی چلے گا جب بجلی ہو گی۔ لوڈشیڈنگ ہمارے ہاں کا بہت بڑا مسئلہ ہے ایسی صورتحال میں ریڈیو کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اتنا اہم میڈیم ہونے کے باوجود ریڈیو کو قومی سطح پر بری طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ریڈیو کا عالمی دن ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم صرف ایک روز کے لیے ہی سہی، اپنے خاندان کے ساتھ انہی روایات کو دوبارہ دہرائیں جنہیں ہم نے ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں نظر انداز کر دیا ہے اور ریڈیو کو وہ اہمیت دیں جس کا یہ مستحق ہے۔