تحریر/بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد
اس کرۂ ارض پر انسان اپنے ارتقائی لحاظ سے زندگی کے اس موڑ پر پہنچ گیا ہے، جہاں اس نے بہت سی ان ہونی کو ہونی میں بدل دیا رفتہ رفتہ اس نے ستاروں پر کمندیں ڈالنی شروع کردیں، چاند دیو مالائی کہانیوں کا کردار تھا، حقیقت بن گیا اور حضرتِ انسان نے وہاں بھی قدم جما لیے۔ یہی تسخیرِ کائنات ہے۔ پچھلی دو صدیوں میں سائنس نے جو ترقی کے مدارج طے کیے ہیں، ماضی میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ تحقیق و اختراع کے اس لامتناہی سلسلے میں ریڈیو کی ایجاد کو موجودہ دور میں ایک حد تک بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ پہیّہ کی ایجاد کے بعد ریڈیو دوسری بڑی سائنسی ایجاد ہے۔ آج ہر خاص و عام ریڈیو کی وسیع پیمانے پر افادیت سے واقف ہوچکا ہے۔
*ریڈیو کی تاریخ*
انسانی تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ
ریڈیو کی ایجاد کے لیے کئی سائنس دانوں کے نام لیے جاتے ہیں۔ ۱۸۸۰ء میں مارکونی، گراہم بیل، ہارٹر اور میکسویل نے ابتدائی تجربات کرنا شروع کردیے تھے۔ میکسویل نے وائر لہروں کا پتا لگایا اور ۱۸۸۸ء میں ہارٹر نے برقی لہریں پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس سلسلے میں مزید تجربات کرتے ہوئے ۲۴ دسمبر ۱۹۰۶ء کو مارکونی نے صوتی نشریات (Sound Broadcast) کا آغاز کیا۔ بہرحال اطالوی سائنسداں مارکونی کو ہی ریڈیو کا موجد گردانا جاتا ہے۔ جس نے 1901ء میں بحرِ اوقیانوس کے پار اپنے بنائے ہوئے ریڈیائی سسٹم کا پہلا سگنل وصول کیا، جو ایک بڑی کامیابی تھی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایجاد طول و عرض تک پھیلتی چلی گئی۔ امریکی سائنسداں ایڈون آرم اسٹرونگ ریڈیو کی ایجاد سے اس قدر متاثر تھا کہ اس نے ۱۹۳۳ء میں ایف ایم ریڈیو ایجاد کیا اور ۱۹۳۹ء میں پہلے ایف ایم ریڈیو اسٹیشن کی نشریات کا آغاز ہوا۔
*ریڈیو کا مقصد*
ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کا مقصد مقامی زندگی پر مرکوز رہنا اور مقامی افراد سے براہِ راست رابطے میں رہنا ہے، جس کی بدولت بہت سے وہ حقیقی مسائل سامنے آتے ہیں جن کے بارے میں ہماری نوجوان نسل بہت کم شعور اور علم رکھتی ہے۔ جیسا کہ تجارت، سائنس، خاندان، ماحولیات، لسانی، طبقاتی امتیاز، تاریخ، تمدن، فکر ونظر، زبان و بیان، تعلیم، کھیل، نوجوانوں کے مسائل، بچوں کے پروگرام، خواتین کے معاملات، زراعت، صنعت، صحت، معیشت، سماج، علاقائی، قومی اور عالمی واقعات جیسے اہم موضوعات کا احاطہ کرتے ہوئے ریڈیو معاشرے کو زندگی گزارنے کے لیے ایک نیا وجود فراہم کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس معاشرے میں سماجی بیداری اور آگاہی کے ساتھ اخلاق، کردار اور قومی سوچ کو بھی فروغ ملتا ہے اور ہمارے معاشرے کے پسماندہ طبقوں کے خیالات اور ان کے نظریات کو بہتر طریقے سے جانا جاتا ہے۔ اس طرح وہ بھی سماج میں تبدیلیاں لانے کی قوت کے حامل ہوجاتے ہیں۔ اس طرزِ فکر سے ہماری نوجوان نسلوں اور معاشرے کے ذہن کو تازگی ملتی ہے اور ان کی ذہنی صلاحیت کو بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ چونکہ مقامی ریڈیو اسٹیشن ایک نجی ادارے کی حیثیت سے کھولا جاتا ہے اور اس کے پروگرامز، پالیسیاں سیاسی جماعتوں، مذہبی اداروں کی بندشوں سے آزاد ہوتی ہیں اور وہ ریاست و حکومت کے اثرو رسوخ سے بالاتر ہوکر آزادانہ طور پر اپنے فرائض انجام دیتا ہے۔ چند ایک ریڈیو چینلز اپنے سامعین کے ذوق، خواہشات اور مفادات کو پورا کرنے کی خاطر باصلاحیت براڈ کاسٹرز کی مدد سے پروگراموں کی منصوبہ بندی ضرور کرتے ہیں۔ انہی خصوصیات کے حامل افراد کے پروگراموں میں سنا گیا ہے کہ لوگ کس طرح اجتماعی اور انفرادی طور پر اپنی زبان، اپنی آواز، اپنے لب و لہجے میں اپنے احساسات و امیدوں اور اپنے مسائل بیان کرتے ہیں۔
*ریڈیو پاکستان کا ناقابل فراموش کردار*
یہ ریڈیو پاکستان ہے۔”
یہ آواز قیام پاکستان کے ابتدائی دور کے لوگوں کی یادوں کی چلمن میں آج بھی گوشہ نشین ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ریڈیو نشریات کا دائرہ بہت محدود تھا اور آواز پاکستان کے ساڑھے چار فیصد علاقے اور تقریباً سات فیصد آبادی تک پہنچ سکتی تھی۔ ان نامساعد حالات میں ریڈیو کی کارکردگی قابلِ ستائش تھی، جب مہاجرین کے قافلے جوق درجوق پاکستان میں داخل ہورہے تھے۔ ایک عجیب افراتفری کا عالم تھا۔ ریڈیو پاکستان نے لاکھوں مہاجرین کو بسانے میں حکومت کی مدد کی۔ جب بھی دشمن ملک نے جنگ مسلط کی ریڈیو نے اس وقت بہت اہم اور نمایاں کردار ادا کیا۔ ریڈیو سے نشر ہونے نغمات بالخصوص ملکۂ ترنم نورجہاں کے نشر ہونے والے جوشیلے نغمات نے پوری قوم کے اندر ایک ولولہ پیدا کردیا۔ پاکستان میں ریڈیو پاکستان اور پاکستانی ایف ایم نشریات کے علاوہ بھی کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں کی اردو زبان میں نشریات پیش کی جاتی ہیں جن میں وائس آف امریکہ، چائینا ریڈیو انٹرنیشنل، ریڈیو جاپان، ریڈیو صدائے ترکی، سعودی عالمی ریڈیو، ریڈیو کویت، ریڈیو تہران، بی بی سی نیوز وغیرہ شامل ہیں، پاکستان میں ان نشریاتی اداروں کو سننے والے سامعین کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے جو نہ صرف ان نشریاتی اداروں کے پروگراموں کو روزانہ کی بنیاد پر سنتے ہیں بلکہ ان کے نشر ہونے والے پروگراموں پر اپنے تبصرے بھی باقاعدگی سے روانہ کرتے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ریڈیو سننے والے سامعین کے ریڈیو سامعین کلب اور ریڈیو سامعین تنظیمیں قائم ہیں جو مقامی طور پر ان نشریاتی اداروں کو مل بیٹھ کر سنتے ہیں اور ریڈیو کے حوالے سے مختلف تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔
*دور حاضر میں ریڈیو کی اہمیت*
دنیا میں جدید ٹیکنالوجی جس میں ٹیلی ویژن، ڈش انٹینا، موبائل فون، انٹرنیٹ اور ریڈیو کی مختلف ایپس آنے کے بعد ان کو فریکیونسی ریڈیو کی بقاء کے لیے ایک خطرہ تصور کیا جانے لگا تھا اور یہ گمان کیا جارہا تھا کہ شاید اب ریڈیو ماضی کا ایک حصہ بن جائے گا اس کے سامعین جو بہت متحرک ہیں وہ بھی تیزی سے بدلتی اس صورتحال میں مایوسی کا شکار تھے۔ تمام تر جدید ٹیکنالوجی کے آنے کے بعد ریڈیو سننے کے آلات میں ضرور تبدیلی آئی۔ ریڈیو نے اپنی شکل تبدیل کرتے ہوئے نئے ٹیکنالوجی کے دور میں خود کو ضم کیا لیکن اپنا نام تبدیل نہیں ہونے دیا۔ پہلے ٹرانسسٹر پر ریڈیو سنا جاتا تھا پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شکل تبدیل ہوتی چلی گئی میڈیم وویو، شارٹ وویو اور پھر ایف ایم نشریات کا آغاز ہوا۔ البتہ گذشتہ کئی سالوں میں ہونے والی مایوس کن تبدیلی یہ بھی ہوئی ہے کہ نصف صدی تک جاری رہنے والی اور سامعین کے دلوں پر راج کرنے والی نشریات بند کردی گئیں جن میں بی بی سی اردو، وائس آف جرمنی اور صدائے روس ہیں۔ حال ہی میں بی بی سی کی نشریات بند کرنے کا جواز بھی نئی ٹیکنالوجی پر منتقلی بتائی گئی لیکن ان لاکھوں سامعین کو یکسر فراموش کردیا گیا جن کی دسترس میں جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے ان کے پاس دنیا سے باخبر رہنے کا واحد ذریعہ ریڈیو ہی ہے۔ فریکیونسی ریڈیو کی اہمیت کا اندازہ مقبوضہ کشمیر میں لگے طویل ترین کرفیو اور ٹی وی، اخبارات، انٹرنیٹ اور موبائل فون کی بندش سے لگایا جاسکتا ہے جہاں ان کے لیے باخبر رہنے کا واحد ذریعہ ریڈیو ہی ہے۔ کئی قدرتی حادثات میں بھی جہاں تمام نظام درہم برہم ہوجاتا ہے وہاں دنیا سے باخبر رہنے کا واحد ذریعہ بھی فریکیونسی ریڈیو ہی ہوتا ہے۔
کئی طالبعلم جو بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کرچکے ہیں یا کررہے ہیں وہ باقاعدگی سے ریڈیو پر غیر ملکی نشریات کو سنتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ یہ ہمارے لیے نہایت مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔
*ریڈیو کی ثقافت کو برقرار رکھنا ضروری ہے*
ریڈیو کی افادیت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے
پاکستان سمیت تمام دنیا بھر میں تیرہ فروری کو ریڈیو کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ تاہم اس وقت حکومتی سطح پر پروگراموں کے انعقاد کی اشد ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ریڈیو سے روشناس کرایا جاسکے۔
ریڈیو چینل معاشرے میں تبدیلی کے عمل کا آغاز کرسکتے ہیں اور ترقی کو تیز تر بناسکتے ہیں اگر وہ درست سمت میں گامزن ہوں۔ اس سلسلے میں جہاں مقامی ریڈیو چینلوں کے قیام کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے وہیں ترجیحات کے تعین کی بھی ضرورت ہے تاکہ ریڈیو کے مثبت اثرات معاشرے پر پڑ سکیں۔ عوام کے اس سستے ذریعۂ ابلاغ کو ترقی دینے اور اس کو مؤثر بنانے کے لیے ہمارے قومی و مقامی ادارے، حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیں مالی وسائل کے سلسلے میں تعاون کریں تو ریڈیو ثقافت کی بہتر عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم، صنعت، صحت، تجارت، سائنس، ٹیکنالوجی، ماحولیات، لسانی، طبقاتی، سماجی، سیاسی اور معاشی موضوعات پر مبنی پروگرام بھی ترتیب دے سکیں گے جس سے اس معاشرے کے پس ماندہ طبقوں کے خیالات اور نظریات کو ضمانت بھی ملے گی، اور ہمارے نوجوان طبقے میں سماجی بیداری، اخلاقی شعور بیدار ہوگا اور اسی کے ساتھ ملک کی ثقافت کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔