184

زلزلہ کی پیشین گوئی اور ہمارا ردِعمل /تحریر/ عبدالروف ملک (کمالیہ


کل جرمنی کے ایک سائنسدان “فرانک ہوگربیٹس” نے ایک پیشین گوئی کی کہ آنیوالے اڑتالیس گھنٹوں میں پاکستان کے بیشتر علاقے شدید اور تباہ کن زلزلے کا شکار ہونیوالے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ اتنی زیادہ سائنسی ترقی ہونے کے باوجود دنیا ابھی تک ایسی کوئی مشین یا آلہ ایجاد نہیں کر پائی جو زلزلے کی پیشگی اطلاع دے سکے۔ سائنس ہمیں یہ تو بتا سکتی ہے کہ کسی علاقے میں زمین کے اندر ٹیکٹانک پلیٹس کی حرکت معمول سے ہٹ کر ہے لیکن فرانک ہوگربیٹس کی طرح پیشین گوئی کرنا ابھی تک ممکن نہیں ہوا جس میں جگہ اور وقت کا تعین بھی کیا جاسکے۔
فرانک ہوگربیٹس “سولرسسٹم جیومیٹری سروے” نامی ایک تنظیم کے بانی ہیں جنکا کام ستاروں کی حرکات و سکنات اور اسکے زمین پر اثرات ہیں۔ اپنے اسی علمِ نجوم کے باعث وہ ایسی پیشین گوئیاں اور تھیوریاں پیش کرتے رہتے ہیں جو سراسر مفروضوں اور اندازوں پر مشتمل ہوتی ہیں جو کسی طور پر بھی حقیقت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں۔
الحمدللہ ہم مسلمان ہیں۔ آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سوسال پہلے خدائے لم یزل نے اپنے کلامِ مقدس میں یہ آیتِ مبارکہ نازل فرمائی
“اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کئے پر پچھتاؤ”
اس آیت مبارکہ اور زلزلے کی پیشین گوئی کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ہمارا سر احساسِ شرمندگی سے جھک جاتا ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات سے دوری کی بنا پر کس طرح اقوامِ عالم کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ بغیر تحقیق کے کسی بھی بات کو صدقہ جاریہ سمجھ کر پھیلانا ہماری عادت بن چکا ہے۔ پاکستان میٹروجیکل ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے اس خبر کو ایک افواہ اور لغو قرار دیے جانے کے باوجود ہم اس بےبنیاد خبر کو پھیلا کر لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں۔
اس خبر کے جھوٹا یا سچا ہونے سے قطع نظر ہمیں اپنی سوچ کو ایک مثبت سمت کی طرف متعین کرنا چاہیے کہ قیامت کا زلزلہ بغیر کسی پیشگی اطلاع یا الارم کے آئیگا جس سے پوری کائنات تہس نہس ہوجائے گی پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگیں گے
ارشاد باری تعالیٰ ہے
“یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْۚ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ”
ترجمہ: اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو بیشک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے قیامت کے اس زلزلے کیلیے کیا تیاری کی ہے؟ کیا ہمارے اعمال ایسے ہیں کہ ہم روزِمحشر اس جبّار اور قہّار ذات کے سامنے حاضر ہوسکیں؟
ابھی بھی وقت ہے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنا محاسبہ کریں اور ایسے تمام برے اعمال سے باز آجائیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنتے ہیں ورنہ جب وہ زلزلہ برپا ہوگیا تو پھر اتنی بھی مہلت نہیں ملے گی کہ ہم اپنی قضا نمازیں اور روزے رکھ سکیں، کسی سے لیا ہوا قرض یا کسی سے کی ہوئی زیادتی کا ازالہ کرسکیں یا اللہ پاک سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرسکیں۔
اللہ تبارک تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھے اور اس ملک پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں