موجودہ زمانہ جدید ترقیوں کا زمانہ تصور کیا جاتا ہے۔ آج کے زمانے میں ہر طرف مصنوعی ترقیوں کا جال نظر آتا ہے۔ انسانوں کی جانب سے نت نئی ایجادات اپنے موجدین کو ہی حیران کیے دے رہی ہیں؛شاید کہ مصنوعی ایجادات کی عمر اپنی انتہاء کو پہنچ چکی ہے لیکن آج بھی انسان اپنی ایجادات اور خدا کی کردہ صلاحیتوں کے بل بوتے اسی کی کائنات کو مسخر کرنے کا خواہش مند ہے اور ستاروں تک کو اپنی قدموں تک دیکھناچاہتا ہے اور اسی کی تگ و دوہ میں آج کا انسان دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہا ہے، بظاہر یہ سب بہت خوش نما نظر آتا ہے لیکن انسانوں کی جانب سے کی جانے والی یہ ساری مصنوعی کاوشیں کائنات کے قدرتی وسائل کو نقصان پہنچارہی ہیں۔
ان من جملہ وسائل میں سے ایک زمین بھی ہے جو جانے ان جانے انسانوں کے مظالم کا شکار ہورہی ہے۔ دنیا کا قانون ہے کہ جو چیز جتنی فائدہ مند ہوتی ہے اس کا خیال رکھنا اتنا ہی ضروری ہوتا ہے لیکن زمین کے ساتھ کو سلوک کیا جارہا وہ اس کی بالکل بھی مستحق نہیں ہے۔ جیسے جیسے ہمارے ماحول کو لاحق ہنگامی صورت حال بدتر ہوتی جا رہی ہے ویسے ویسے زمین کو لاحق خطرات بھی بڑھتے جارہے ہیں اور اس عالمی بحران سے نمٹنے کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ اسی ضرورت کے پیشِ نظر ہر سال 22 اپریل کو ورلڈ ارتھ ڈے یعنی زمین کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد زمین کو درپیش مسائل و خطرات سے آگاہی ہے۔ اس دن کا باقاعدہ آغاز سال 1970 میں ہوا تھا اور تب سے یہ دن باقاعدگی سے منایا جارہا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد کسی قسم کی تقریبات کا انعقاد نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد دنیا بھر میں ماحولیات اور آب و ہوا کے بحران پر کارروائی کی ضرورت پر زور دینا ہے۔ انسانوں کی مصنوعات کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے زمین کے کئی حصے متاثر ہورہے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہی کہ انسان کی بنیادی ضروریات جیسے روٹی، کپڑا اور مکان کا براہِ راست تعلق زمین سے ہے لہذا زمین کی حفاظت ہم سب کی یکساں ذمہ داری ہے۔
بڑھتے ہوئے عالمی درجۂ حرارت کے باعث ارضیاتی تبدیلیوں کے بارے میں پاکستان جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے سابق ڈائریکٹر اور ممتاز ماہر ارضیات ڈاکٹر نیئر ضیغم عالم کے مطابق زمین کی ساخت کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانی سرگرمیوں سے اس کے قدرتی نظام کو کس حد تک نقصان پہنچا ہے۔ ڈاکٹر نیئر کا کہنا ہے کہ انسان نے اپنی ضروری اور غیر ضروری سرگرمیوں سے زمین کے قدرتی نظام پر گہرے منفی اثرات مرتب کئے جن کا خمیازہ ہم آج زلزلوں، سمندری طوفانوں، خشک سالی اور قحط وغیرہ جیسی قدرتی آفات کی صورت میں بھگت رہے ہیں اور اگر مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں قدرتی آفات مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے انسانوں سمیت دیگر مخلوقات کے رہنے کی واحد جگہ روئے زمین ہی ہے لہذا ضروری ہے کہ زمین کو ہر طرح کی آلودگی سے محفوظ رکھنے کی کوششیں کی جائیں۔
قابل حیرت اور لائق افسوس بات یہ ہے کہ سر پر منڈلاتے اس خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے ہر ایک فکر مند نظر آرہا ہے، ہر ایک دوسرے کی توجہ اس طرف مبذول کروارہا ہے لیکن عملی سرگرمیوں میں کمی کے باعث ہم روز بروز اس خطرے کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ زمین کا ایک حصہ خشکی اور تین حصے پانی پر مشتمل ہیں لیکن اس کے باوجود کہیں پر لوگ پانی کو ترس رہے ہیں اور کہیں پر پانی کی وجہ سے موت کے منھ میں جارہے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنے کی اشد ضرورت ہے کہ آخر زمین کی بقاء اور حفاظت میں بے احتیاطی کہاں ہورہی ہے۔ دنیا میں صنعتی ترقی اور قدرتی وسائل کے استعمال میں بے احتیاطی نےموجودہ دور میں زمین پر رہنے والے ہر جاندار کی زندگی داؤ پر لگا دی ہے۔ چاہے وہ جانور ہوں یا پودے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت کرہ ارض واضح طور پر اپنے تحفظ و بقاکے لئے آواز اٹھانےکی اہمیت پر زور دے رہی ہے۔ موجودہ دور میں قدرت بہت سے مسائل جیسےآسٹریلیا کے جنگلات میں بھڑکنے والی آگ، گرمی کی شدت، وقت بے وقت کی بارشیں، آئے دن آنے والے زلزلے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی ایک رپورٹ میں زمین کے ماحول کو سبز مکانی گیسوں کے اثرات سے بچانے کے لئے جنگلات کی کٹائی کو روکنے، غیر محتاط طرز زراعت سے بچنے اور ماحول دوست طریقے اپنانے پر زور دیا گیا ہے۔ آب و ہوا میں تبدیلی، فطرت میں انسان ساختہ تبدیلیاں نیز جنگلات کی کٹائی، زراعت اور مویشیوں کی پیداواربڑھانے کے مصنوعی طریقوں کا استعمال یا غیرقانونی جنگلاتی حیاتیات کا کاروبارجانوروں سے متعدی بیماریوں کی منتقلی کو بڑھاسکتا ہے۔
دنیا بھر میں 22 اپریل کا دن خاص اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا بھر میں اس موقعے پر اپنے ماحول کی صفائی اور فضائی آلودگی پھیلانے سے گریز کے لیے آگہی کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں جبکہ مقامی کمیونٹیز اپنے اپنے علاقوں میں صفائی کرکے اس دن کی اہمیت اجاگر کرتی ہیں۔ بہت سی تنظیمیں شہر میں ساحل ِ سمندر، دریاؤں یا دیگر قدرتی مقامات پرجا کر صفائی کا کام کرکے زمین کو صاف ستھرا رکھنے کی کوششوں میں اپنا حصہ ادا کرتی ہیں۔ پوری دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی اس دن کی اہمیت پر مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں مختلف تنظیموں نے ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے زمین کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں آگہی پھیلائی۔ ان تنظیموں نے یہ بھی بتایا کہ انفرادی سطح پر ہر انسان کس طرح سے اپنے ارد گرد کے ماحول کو صاف رکھ کر اس دنیا کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ زمین کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کا خیال رکھا جائے، اس کے قدرتی ماحول کو تحفظ فراہم کیا جائے، ماحولیاتی آلودگی اسے محفوظ رکھا جائے؛ کیوں کہ زمین محفوظ ہوگی تو ہم محفوظ رہیں گے۔