32

سمجھدار حکمران/ تحریر/: محمد ذیشان بٹ

ہمارا دماغ عام طور پر پر تصاویری شکل میں سوچتا ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق، اگر کسی شخص سے کہا جائے کہ آنکھیں بند کریں اور اپنی والدہ کے بارے میں نہ سوچیں، تو اس کا دماغ خود بخود ماں کے بارے میں ہی سوچنے لگے گا۔ ایک سروے میں یہی تجربہ کیا گیا: لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی والدہ کے بارے میں نہ سوچیں اور دنیا کی کسی بھی چیز کے بارے میں غور کریں۔ لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کس کے بارے میں سوچ رہے تھے، تو 90 فیصد لوگوں نے اعتراف کیا کہ ان کے ذہن میں بار بار ان کی والدہ ہی آ رہی تھیں۔یہی اصول ہر موضوع پر لاگو ہوتا ہے۔ جب ہم ” حکمران” کا ذکر کرتے ہیں، تو ہمارے دماغ فوراً زرداری، مشرف یا عمران خان جیسے ناموں پر جا رکتے ہیں۔ لیکن میرا مقصد ان شخصیات کا ذکر نہیں بلکہ ایک عمومی اصول کو سمجھانا ہے، جو ایک بہترین حکمران کی خصوصیات بیان کرتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ایک علاقے میں یہ رواج تھا کہ کسی شخص کو ایک خاص مدت کے لیے بادشاہ مقرر کیا جاتا تھا۔ مدت ختم ہونے کے بعد اس بادشاہ کو ایک خطرناک جنگل میں چھوڑ دیا جاتا، جہاں سے زندہ واپس آنے کی کوئی گنجائش نہ ہوتی۔ جنگل کی وحشت، موسم کی سختی، اور خطرناک جانوروں نے کسی بھی سابق بادشاہ کو زندہ رہنے کا موقع نہیں دیا تھا۔ایک دن، یہ موقع ایک نئے شخص کو ملا۔ جیسے ہی وہ بادشاہت کے تخت پر بیٹھا، اس نے پہلے ہی دن اپنے مشیروں سے پوچھا: “کیا یہ حقیقت ہے کہ مدت ختم ہونے کے بعد مجھے جنگل میں چھوڑ دیا جائے گا؟” مشیروں نے اس کی تصدیق کی۔بادشاہ نے فوراً فیصلہ کیا کہ وہ اپنی بادشاہت کے دوران ایسے اقدامات کرے گا جو نہ صرف اس کی زندگی کو بہتر بنائیں بلکہ اس کی آنے والی زندگی کو بھی محفوظ کریں۔ اس نے مشیروں کو حکم دیا کہ وہ اس جنگل کا تفصیلی جائزہ لیں اور مسئلے کی جڑ کو سمجھیں۔مشیروں کی رپورٹ کے مطابق، جنگل خطرناک جانوروں، سانپوں، اور زہریلے کیڑوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہاں پینے کا پانی نہیں تھا، نہ کھانے کا انتظام، اور نہ ہی کوئی انسانی زندگی کا امکان۔ بادشاہ نے فوری اقدامات کیے:جنگل کے خطرناک جانوروں کو پنجروں میں بند کیا گیا یا دوسرے علاقوں میں منتقل کر دیا گیا۔ایک نہر کھودی گئی تاکہ پینے کے صاف پانی کا بندوبست ہو سکے۔زمین کو زرخیز بنایا گیا اور فصلوں کی کاشت شروع کی گئی۔بے زمین لوگوں کو جنگل میں بسایا گیا اور وہاں ایک چھوٹا شہر آباد کیا گیا۔ایک خوبصورت محل تعمیر کیا گیا تاکہ بادشاہ کے لیے وہاں زندگی گزارنا ممکن ہو سکے۔بادشاہت کی مدت مکمل ہونے کے بعد جب بادشاہ کو تخت چھوڑنا پڑا، تو وہ خوفناک جنگل اب ایک خوبصورت رہائشی علاقے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ لوگوں نے اس حکمت اور دانشمندی کو سراہا اور فیصلہ کیا کہ یہ بادشاہ ہمیشہ کے لیے ان کا حکمران ہوگا۔یہ کہانی ہمیں ایک گہرا سبق دیتی ہے۔ ہم سب اس دنیا میں عارضی طور پر موجود ہیں، جیسے وہ بادشاہ ایک مدت کے لیے تخت پر بیٹھا تھا۔ ہماری زندگی کی مدت ختم ہونے کے بعد ہمیں بھی ایک ایسی جگہ منتقل ہونا ہے جہاں کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ وہ جگہ ہماری قبر اور آخرت ہے۔اگر ہم اپنی زندگی کے دوران صرف عیش و عشرت، حسد، بغض، اور دنیاوی لذتوں میں مبتلا رہیں گے، تو ہماری آخرت بھی اسی جنگل کی مانند ہوگی جہاں ہر طرف وحشت، اندھیرا، اور عذاب ہوگا۔ لیکن اگر ہم اپنی دنیاوی زندگی کو حکمت اور سمجھداری سے گزاریں، دوسروں کی مدد کریں، اپنے اعمال کو بہتر بنائیں، اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں، تو ہماری آخرت روشن ہوگی۔ایک اچھا حکمران وہ ہوتا ہے جو نہ صرف اپنے دورِ حکومت میں عوام کے لیے سہولتیں فراہم کرے بلکہ ان کے مستقبل کے بارے میں بھی سوچے۔ اسی طرح، ایک اچھا انسان وہ ہے جو اپنی دنیاوی زندگی کو بہتر بناتے ہوئے اپنی آخرت کے لیے بھی سرمایہ جمع کرے۔حسد، کینہ، اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کی سوچ ہماری آخرت کو تاریک کر سکتی ہے۔ اس کے برعکس، معاف کرنا، خیر خواہی، اور نیک اعمال ہماری آخرت کو روشن کریں گے۔ ہمیں خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنی زندگی کو کس طرح گزارنا چاہتے ہیںیہ دنیا ایک عارضی ٹھکانہ ہے، اور ہم سب ایک مقررہ مدت کے لیے یہاں موجود ہیں۔ جب ہماری مدت ختم ہوگی، تو ہمیں ایک ایسے مقام پر جانا ہوگا جہاں ہمارے اعمال ہی ہمارے ساتھ ہوں گے۔ اس لیے ہمیں اپنے موجودہ وقت کو دانشمندی اور سمجھداری سے استعمال کرنا ہوگا۔سوچیے، کیا ہم وہ بادشاہ بننا چاہتے ہیں جو اپنی حکمرانی کے نشے میں اپنی موت کو بھول جاتا ہے؟ یا وہ بادشاہ جو اپنی زندگی اور موت دونوں کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرتا ہے؟ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں