قرآن مجید پڑھنے کے آداب/از قلم/لاریب مہر 107

سندھ کا دیہاتی علاقہ/سہولیاتِ زندگی سے محروم کیوں؟؟؟/تحریر/لاریب مہر

میرا دل چیخ اٹھتا ہے جب میں سندھ کے دیہاتی علا قوں کا جائزہ لیتی ہوں۔ اتنے جدید دور میں بھی وہ لوگ جانوروں جیسی زندگی بسر کر رہے ہیں اور موجودہ حکومت ان کی کوئی مدد نہیں کرتی۔سیلاب زندگان لوگ بے بس کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار بیٹھے ہیں کوئی ان کی طرف مدد کا ہاتھ نہیں اٹھارہاہے۔ہمارے حکمرانوں کو پتا ہی نہیں کہ لوگ کن مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کے لوگ اپنے آسائش بھرے گھر میں سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ووٹ لینے کے بعد تو جیسے ان کا تعلق ہی عوام کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ سندھ کے بعض دیہاتی علاقوں میں آج بھی گیس کی سہولت موجود نہیں ہے۔ وہاں کی عورتیں آج بھی سردی ہو یا گرمی لکڑیوں کی آگ پر کھانا بناتی ہیں۔ یہ کام کتنا مشکل ہے اس بات کا اندازہ تو ہم لگا ہی نہیں سکتے ہیں۔ بڑی بات تو یہ ہے کہ سب سے زیادہ گیس پایا بھی سندھ میں ہی جاتا ہے اس کے باوجود آج سندھ کے 90 فی صدعلاقے گیس کی سہولت سے محروم ہیں۔ دیہاتی علاقوں میں بجلی جیسی بنیادی سہولت کا نہ ہونا انتہائی قابل اذیت و تکلیف دہ امر ہے۔ لوگ کس قدر گرمی کا شکار ہوتے ہوں گے؟؟؟ کبھی غور کیا ہے کسی نے؟؟؟دیہاتی علاقوں میں بچوں کی تعلیم کا بڑا مسئلہ درپیش ہے۔ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ان کے بچے چھوٹی سی عمر میں ہی تعلیم چھوڑ کر کام پر لگ جاتے ہیںاور ان کا فیوچر اندھیروں میں گم ہو جاتا ہے۔ضروریات زندگی گندم، چاول، کپاس،فروٹ، سبزیوں سمیت بہت ساری چیزیں ہمیں دیہات ہی فراہم کرتے ہیں مگر حکومت وقت ان کو ہی نظر انداز کرتی ہے۔ان کو کسی قسم کی کوئی بھی سہولت فراہم نہیں کی جاتی جس سے ان کے اندر احساس محرومی جنم لیتا ہے۔صاف پانی تک بھی میسر نہیں ہوتا۔ مضر صحت پانی استعمال کرنے سے لوگ بہت ساری پیچیدہ بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور کچھ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں کیونکہ ان کو صحت کی سہولت کی عدم فراہمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اچھے ہسپتال اور ڈاکٹرز کے نہ ہونے کی وجہ سے شرح اموات میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جوکہ قومی المیہ ہے
سندھ کے دیہاتی علاقے غریبی کی لکیر سے بھی نیچے جا رہے ہیں دیہاتی علاقوں میں لوگ اکثر اپنی بہن بیٹیوں کا نکاح بچپن میں ہی کر دیتے ہیں وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ لوگ اس بات کی بھی پرواہ نہیں کرتے کہ آنے والے وقت میں جو اس کا ہمسفر ہے کیا وہ اس کا محافظ بن سکتا ہے اس کی زمہ داری اٹھا سکتا ہے یا ان کی بہن بیٹی ساری زندگی روتے ہوئے شوہر کی مار کھاتے ہوئے چپ چاپ زندگی بسر کر لے گی؟؟؟ کیا ان پر بیٹی بوجھ ہے اگر بیٹی بوجھ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ تین بیٹیاں عطا نہ کرتا۔بیٹی تو رحمت کا باعث ہوتی ہے یوں ان کا بچپن چھین کر ان کو زندگی میں ہی جہنم رسید کردیاجاتا ہے۔ دورے جاہلیت کی طرح پیدا ہوتے ہی تو نہیں لیکن ایک وقت آتا ہے جب ان کی زندگی کےحسین خوابوں کا قتل عام کر کے ان کو زندہ دفن کردیا جاتا ہے۔ سندھ کے دیہاتی علاقوں میں 60 فی صدلڑکیاں تعلیم کے زیور سے محروم رہتی ہیں۔
بہت کم لڑکیاں ہوتی ہیں جو میٹرک پاس کرتی ہیں۔ اس سے زیادہ ان کو آگے پڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ان کو 14 برس کی عمر میں ہی شادی جیسے بندھن میں قید کر دیاجاتا ہے۔ عورت کو تعلیم جیسے زیور سے آراستہ نہ ہونے دینا اس کے ساتھ ظلم ِ عظیم کے مترادف ہے۔جو لوگ ایسا کرتے ہیں دراصل وہ لوگ ایسا کر کے اپنی آنے والی نسل کو برباد کرتے ہیں ایک عورت پڑھی لکھی ہو تو اس کی نسل بھی پڑھی لکھی ہوتی ہے ورنہ نسل بھی برباد ہو جاتی ہے۔پڑھی لکھی عورتیں ہی اپنے بچوں کی اچھی طرح پرورش کرتی ہیں۔ اسلام بھی کہتا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت کا حق ہے۔ زیادہ نہیں تو ان کو قرآن پاک اور ان کے متعلق احکام کی تعلیم دی جائے۔ دیہاتی علاقوں میں چوری کا ارتکاب بھی بہت زیادہ ہوتا ہے لوگ ہمیشہ ڈر اور خوف میں مبتلا رہتے ہیں ”تھر پارکر“ کے علاقے میں پانی کی کمی بہت زیادہ ہے۔ حکومت لوگوں کو تحفظ فراہم کرے اور دیہاتی علاقوں میں بنیادی سہولیات جو ان کاآئینی اور بنیادی حق ہے فراہم کیا جائے۔ اس طرح گاؤں کی دنیا ہی بدل جائے گی۔ ویسے گاؤں کی زندگی کا ماحول پر سکون ہوتا ہے اگر وہاں گیس بجلی پانی راستہ جیسی بنیادی سہولیات موجود ہوں تو وہاں کی زندگی پر سکون ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ سیلاب میں پھنسے لوگوں کو فوری مدد فراہم کی جائے اور یہ ان کا حق بھی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں