ناظم اعلیٰ مُسلم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان
آقا مدنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نورِ ہدایت، آپ کی تعلیمات اور آپ کی سیرت مطہرہ دو واسطوں کے زریعے امت تک پہنچی ہیں۔ ایک واسطے کا تعلق نبی کے یارانے کے ساتھ اور دوسرے کا تعلق نبی کے گھرانے کے ساتھ ہے۔ نبی کا یارانہ ”صحابہؓ“ کے نام سے معروف ہے اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا پاکیزہ گھرانہ ”اہل بیت“ کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ یہ دونوں گروہ ہی حزب اللہ کے مصداق ہیں۔ دونوں آسمانِ عظمت کے درخشندہ ستارے ہیں۔ نبی کے جانثار اور نبی کے قرابت دار دونوں ہی ”رحماء بینھم“ کی عملی تفسیر ہیں۔ یارانِ نبی اور خاندانِ نبی ایک ہی باغ میں لگے مختلف قسم کے پھولوں کی مانند ہیں کہ سبھی پھول بھی ہوتے ہیں اور خوبصورت، پرکشش، خوشبو دار بھی۔
پھولوں کے ان باغات میں کہیں مختلف رنگوں میں کھلے گلاب نظر آتے ہیں تو کہیں کلی اور چنبیلی اپنی خوشبوؤں سے باغات کی مہکار کو دوبالا کر رہی ہوتی ہیں۔ ان رنگوں اور خوشبوؤں کے مختلف ہونے سے کوئی بھی اہل عقل ان کے پھول ہونے کا انکار نہیں کرتا۔ بعینیہ اسی طرح چمنستانِ نبوت کے ان معطر و منزہ پھولوں کی رنگت اور خوشبو تو الگ الگ ہوسکتی ہے مگر خوشبو کی پھلوار سبھی سے آتی ہے اور سبھی نے ہدایت کی خوشبو سے زمانے کو معطر کیا ہے۔
ہدایت کے خوشبودار پھولوں میں سے ایک پھول وہ ہے جسے خوشبوئے پیغمبر کہا جاتا ہے۔ جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دنیا کی خوشبو قرار دیا۔ جس کے ہونٹوں پر اس عظیم ہستی نے بوسے دیے جس کے لیے اس کائنات کو وجودِ محدود عطا کیا گیا۔ جس کی پیاس کو سید الاولین والاخرین نے اپنی لسان اقدس سے دور فرمایا۔ جن کو دیکھ کر امام الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی چال ڈھال نظر آتی تھی۔ وہ مقدس ومطہر ہستی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد جن کو دیکھ کر جانثارانِ محمد و خاندانِ محمد اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرتے تھے۔ وہ جنتی شہزادے کہ صحابہؓ کرام جن کے لاڈ اٹھاتے تھے۔
سیدنا علی و فاطمہؓ کے وہ لخت جگر جن کے ادب واحترام میں صحابہؓ کرام نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ صحابہؓ کرام نے ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کا لحاظ رکھتے ہوئے ان دونوں شہزادوں سیدنا حسن وحسین اور تمام اہل بیت پیغمبر کو اپنی اولادوں سے بھی مقدم رکھا۔ کتبِ سیر وتاریخ کی ورک گرادانی کیجیے آپ کو نظر آئے گا کہ کسی موقع پر بھی حضرات صحابہؓ کرام نے اہل بیت اطہار کی بے توقیری نہیں ہونے دی۔ چنانچہ بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ کے سامنے اہلِ بیت کا ذِکر ہوا تو آپ نے فرمایا ”اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدْرت میں میری جان ہے! رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قَرابَت داروں کے ساتھ حُسنِ سُلوک کرنا مجھے اپنے قَرابَت داروں سے صِلۂ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے۔“ اور دوسرے موقع پر حضرت سیّدنا صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احترام کے پیشِ نظر اہلِ بیت کا احترام کرو۔
سیدنا عمرؓ فاروق نے اپنے دور خلافت میں جب صحابہؓ کرام کا وظیفہ جاری فرمایا تو حضرات حسن و حسینؓ کا وظیفہ اہل بدر کے برابر پانچ پانچ ہزار درہم مقرر فرمایا حالانکہ امیرالمؤمنین نے اپنے صاحب زادے سیدنا عبداللہ بن عمرؓ جو کئی جنگوں میں شریک ہوچکے تھے ان کا وظیفہ عام صحابہؓ کے برابر مقرر فرمایا۔
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک دفعہ سیدنا حسینؓ عمرے کے لیے تشریف لے گئے، راستے میں حضرت حسینؓ بیمار ہوگئے تو امیرالمؤمنین حضرت عثمان نے حضرت علیؓ کی طرف قاصد بھیجا اور حضرت حسینؓ کی بیماری کی اطلاع دی اور خود عمرے کے لیے روانہ ہوگئے۔ عمرہ سے فارغ ہوکر جب واپس اسی مقام پر آئے تو حضرت علیؓ وہاں حضرت حسینؓ کی تیمارداری کے لیے موجود تھے۔ حضرت عثمان نے حضرت علیؓ سے معذرت کی اور فرمایا کہ مجھے حسینؓ نے قسم دے کر کہا آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ عمرے کے لیے تشریف لےجائیں۔
صاحبِ ابن عساکر رقم طراز ہیں کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ قریش کے ایک شخص کو کسی کام کی غرض سے مسجد نبوی بھیجا، اور اس کو بتلایا کہ جب تم ایسے حلقے کو دیکھو جس پر سکون طاری ہے کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں تو سمجھ لینا یہ حضرت ابو عبداللہ الحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حلقہ ہے، اور ان کی دوسری علامت یہ ہوگی کہ وہ اپنی تہبند نصف پنڈلیوں تک باندھے ہوں گے۔
ابومہزم بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک جنازے سے واپس آرہے تھے تو کیا دیکھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی چادر سے حضرت حُسین رضی اللہ عنہ کے پاؤں سے مٹی صاف کررہے تھے۔ حضرت حسین نے جب روکنا چاہا تو فرمایا آپ اس کو رہنے دیجیے آپ کی جو شان میں جانتا ہوں اگر لوگوں کو پتہ چل جائے تو وہ آپ کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیں۔
فاتح مصر حضرت عَمْرو بن عاص رضی اللہ عنہ خانۂ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے، اتنے میں آپ کی نظر حضرت حُسین رضی اللہ عنہ پر پڑی تو فرمایا اس وقت آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب شخص یہی ہیں۔
یہ چند واقعات ہم نے بطور مثال پیش کر دیے ہیں ورنہ حضرات صحابہؓ کرام کی اہل بیت سے بالعموم اور حضرات حسنین کریمین سے بالخصوص محبت ومودت کے واقعات سے سیرت وتاریخ کی کتب بھری پڑی ہیں۔ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی شان میں آقا نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی لسان اقدس سے جتنے بھی فرامین ادا ہوئے وہ امت تک صحابہؓ کرام نے ہی پہنچائے ہیں۔ تعالیٰ ہمیں صحابہؓ کرام اور اہل بیت اطہار سے سچی محبت نصیب فرمائے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے آمین۔