571

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ… ایک روشن تارہ

Muhammad Nazim

محمد ناظم، اوکاڑہ

یکم محرم الحرام کو اسلامی تاریخ کا ایک الم ناک ، دردناک اور اندوہناک سانحہ رونما ہوا- اس یوم الحزن کو فاروق اعظم جیسے عظیم لیڈر و رہنما کی شہادت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے- آپ کا اسم گرامی عمر لقب فاروق , کنیت ابو حفص ہے- آپ کا نسب مبارک نویں پشت میں رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ملتا ہے۔ کعب نامی شخص کے دو فرزند تھے مرہ اور عدی! مرہ کی اولاد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں اور عدی کی اولاد میں فاروق اعظم-

حضرت عمر کی ولادت عام الفیل کے 13 سال بعد مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ عمر آپ کی بھی تریسٹھ برس ہوئی- رنگ آپ کا سفیدی مائل تھا اور قد مبارک دراز۔ جب لوگوں کے بیچ کھڑے ہوتے تو سب سے اونچے نظر آتے – آپ قبیلہ قریش کے معزز ترین خاندان اور باوجاہت لوگوں میں سے تھے۔

بچپن کے بعد جب جوانی کے زینہ پر قدم رکھا تو دیگر اہل قریش کی طرح تجارت کو اپنا مشغلہ بنایا- اس کے ساتھ ساتھ نیزہ بازی ، تیر اندازی ، تلوار چلانا اور گھڑ سواری میں بھی خوب ماہر تھے- نیز پہلوانی اور کشتی کے میدان میں بھی کمال درجہ کی مہارت حاصل تھی- نو عمری میں ہی آپ نے لکھنا ، پڑھنا ، ادب اور عربی لغت سیکھی۔ اس کے علاوہ فن تقریر و خطابت پر بھی خوب عبور حاصل تھا- انہی خوبیوں کی بنا پر قریش مکہ نازک و حساس مواقع پر گفت و شنید کے لئے انہیں کو اپنا سفیر اور نمائندہ بنا کر بھیجا کرتے تھے۔

نبوت کے چھٹے سال تقریبا 27 برس کی عمر میں مشرف با اسلام ہوئے۔ انہوں نے اس وقت اسلام قبول کیا جب مسلمان مظلوم و لاچار تھے۔ اسی وجہ سے اس بے بسی اور کسمپرسی کے دور میں اسلام لانے والوں کا بڑا بلند مقام و مرتبہ اور عظیم بشارتیں ہیں۔ قرآن کریم میں بھی انہیں السابقون الاولون کے نام سے موسوم کیا گیا ہے (یعنی بھلائی میں سبقت کرنے والے)۔ اور یہ عشرہ مبشرہ یعنی ان دس خوش نصیب افراد میں سے تھے، جنہیں دنیا ہی میں نبی اکرم نے جنت کی بشارت سے شاد کام فرمایا تھا-
پیارے آقا سے قرب کے ساتھ ساتھ انہیں آپ کے سسر ہونے کا بھی اعزاز حاصل تھا۔ ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنھا جو حضور کے نکاح میں تھیں، آپ کی ہی صاحب زادی تھیں۔
آپ حضرت ابوبکر صدیق کے بعد 22 جماد الثانی کو مسند آراۓ خلافت ہوۓ- دس برس چھ مہینے پانچ دن تخت خلافت کو زینت بخشی- آپ کی خلافت خدا کی قدرت کاملہ کا عجیب نمونہ تھی- اگر آپ کے دور خلافت کے کمالات اور کارناموں کو تفصیل سے بیان کرنے کے لئے ایک بڑا دفتر درپیش ہے- آپ نے اپنے عہد خلافت میں ایک ہزار چھتیس شہر مع ان کے مضافات فتح کیے۔ نو سو جامعہ مسجدیں اور چار ہزار پنج وقتی نماز کے لئے بنیں- تھوڑے سے عرصہ میں ایران و خراسان جیسی بڑی بڑی سلطنتوں کو اپنے زیر نگین کر لیا۔ اپنی رعایا کی اس طرح نگہداشت کی جس طرح پلکیں آنکھوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ اس روۓ زمین پر اگر ایک عمر اور آ جاتا تو دنیا بھر میں اسلام کے علاوہ کوئی اور مذھب باقی نہ رہتا-
ان کی بہادری اور دلیری کی مثال کہیں نہیں ملتی- شیطان بھی آپ کو دیکھ کر بھاگ جاتا تھا۔ آپ کا عدل و انصاف بھی ضرب المثل ہے- اپنے فرزند ابو شحمہ کے شراب پینے پر حد جاری کی بیٹے کی بیماری اور رونے کے باوجود قاعدہ کے مطابق سزا دی۔ سزا دینے سے بیماری بڑھ گئی اور ایک ماہ بعد ان کا انتقال ہو گیا-
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: “جتنے پیغمبر مبعوث ہوۓ ہر نبی کی امت میں ایک محدث ضرور ہوا ہے!
اگر میری امت کا کوئی محدث ہے تو وہ عمر ہیں۔”
صحابہ کرام نے عرض کیا ، محدث کون ہوتا ہے؟
تو آپ نے فرمایا : “جس کی زبان سے فرشتے گفتگو کریں-“
میرے مدنی کریم آقا کا ارشاد ہے :
“میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہی ہوتے۔”
حضرت ابو سعید سے مروی ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :
“جس شخص نے عمر سے بغض و کینہ رکھا ، اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے عمر سے الفت و محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی-“
حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی پاک نے فرمایا .”بتحقیق اللہ نے عمر کی زبان اور ان کے دل پر حق کو قائم کر دیا ہے وہ جو کہتے ہیں وہ حق ہوتا ہے-“
انہیں سے مروی ہے کہ رسول پاک ایک روز گھر سے نکل کر مسجد تشریف لے گئے حضرت ابوبکر و عمر بھی آپ کے ہمراہ تھے ایک آپ کی دائیں جانب اور دوسرے بائیں جانب، اور آپ دونوں کا ہاتھ پکڑے ہوۓ تھے تو آپ نے فرمایا :” ہم تینوں بروزمحشر اسی طرح اٹھیں گے-“
حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ “حضرت عمر کی فضیلت و بزرگی چند باتوں سے ظاہر ہے- بدر کے قیدیوں کے بارے میں آپ نے فدیہ کی بجاۓ قتل راۓ دی تو آیت مبارکہ نازل ہوئی جس سے حضرت عمر کی راۓ کی تائید کی گئی-آپ نے ازواج مطہرات کے پردے کی بابت اپنی راۓ کا اظہار کیا-چناچہ قرآن مجید میں ان کے لئے پردے کا حکم آگیا- آپ بار بار یہ آرزو کرتے تھے کہ مقام ابراھیم کو مصلہ بنایا
آخر قرآن پاک میں حکم آگیا ، مقام ابراھیم کو مصلہ بناؤ –
شراب کے حرام کئے جانے کی بڑی تمنا تھی تو قرآن میں شرب خمر کی حرمت کا حکم آگیا۔
ہجری تقویم کے بانی بھی فاروق اعظم ہی ہیں-“
اتنی فضیلتوں اور دنیا ہی میں جنت کی بشارت ملنے کے باوجود کہتے” کاش میں کوئی گھاس کا تنکا ہوتا ، کاش میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا-” سادگی اور تقوی اتنا کہ کھانا بھی سادہ سا ہوتا، خشک روٹی کبھی دودھ کے ساتھ کبھی سکھاۓ ہوۓ گوشت کے ساتھ مہینہ میں ایک دفعہ تازہ گوشت استعمال کرتے-
لباس کا یہ حال تھا کہ جو کرتہ پہنا ہوتا اس کو پیوند لگے ہوتے ایک مرتبہ شمار کئے تو آپ کے کرتے پر سترہ پیوند لگے ہوے تھے جب ملک شام گئے تو ایسا ہی لباس پہنا ہوا تھا-
ایک مرتبہ امی عائشہ نے رسول پاک سے پوچھا کہ کوئی شخص ایسا بھی ہے جس کی نیکیاں تاروں کے برابر ہوں؟ تو آپ نے فرمایا “عمر کی نیکیاں تاروں کے برابر ہیں-“
خشیت الہی اور امید کا یہ عالم تھا ، فرمایا کرتے تھے “اگر قیامت کے دن یہ اعلان ہوا کہ ایک شخص کے علاوہ باقی سب کو جہنم میں لے جاؤ تو مجھے امید ہے کہ وہ خوش نصیب میں ہی ہوں گا-
اور اگر یہ اعلان ہوا کہ ایک انسان کے علاوہ باقی سب کو جنت میں لے جاؤ اور ایک کو دوزخ میں لے جاؤ تو مجھے خوف ہے کہ کہیں میں ہی نہ ہوں وہ شخص-“
حضرت ابوبکر نے اپنے آخری وقت میں وصیت لکھوائی کے میرے بعد میرے نائب حضرت فاروق اعظم ہوں گے اور پھر فرمانے لگے” اگر خدا نے مجھ سے پوچھا کس کو اپنا خلیفہ چھوڑا تو عرض کروں اس شخص کو جس بہتر روۓ زمین پر کوئی نہیں-“
آخر کار یہ چمکتا سورج بھی ڈوبنے کے قریب ہوا-
ایک روز آپ معمول کے مطابق فجر کی نماز پڑھانے گئے اور مصلی پر کھڑے ہوۓ، ابھی تکبیر تحریمہ ہی کہی تھی کہ ابو لولو مجوسی کافر جو محراب میں چھپا بیٹھا تھا اس نے زہر آلود خنجر آپ کے شکم مبارک میں تین مرتبہ مارا آپ بے ہوش ہو کر گر گئے – 27 ذوالحجہ کو بروز چہار شنبہ(بدھ) کو زخمی ہوۓ تھے اور پانچویں دن یکم محرم الحرام کو بروز یک شنبہ(ہفتہ) بعمر تریسٹھ سال رحلت فرمائی-
حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور روضئہ رسول میں حضرت ابوبکر کے پہلو میں آپ کی قبر مبارک بنائی گئی-
اللہ تعالیٰ آپ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے راضی ہو گیا۔ استاذ محترم حضرت مولانا شاکر فاروقی صاحب فرماتے ہیں:

عمر ہمارے ہیں دیں کے رہبر ،عمر ہمارے لیے نشاں ہیں
عمر ہمارے دلوں کی دھڑکن، عمر ہمارے لیے جہاں ہیں
جہانِ حکمت میں بسنے والے عمر کو مانیں عمر کو جانیں!
عمر فراست کے بادشاہ ہیں، عمر عدالت میں بھی عیاں ہیں
اذان، اِفک و حجاب، خمر و فریبی ہوں یا اسیر کافر
ہر اک جگہ میں ہر اک مکاں میں، عمر صداقت کے ترجماں ہیں
کبھی جو نیلِ مصر کے دھارے زمیں پہ چلنے سے منحرف تھے
عمر کے مکتوبِ سرزنش پہ ہزار سالوں سے خود رواں ہیں
علی کے خویش و سسر نبی کے، حسین و زہرا کے نین تارے
وہ اہلِ بیتِ رسول اکرم سے اُلفتوں کا حسیں نشاں ہیں
نگاہیں پھر سے عمر کی طالب، ہیں ڈھونڈتی پھر اُسی سا حاکم
الہی شاکر کی یہ دعائیں، زباں زباں پر ابھی رواں ہیں


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں