107

شجر سایہ دار تھا! محسن/تحریر/پیام امداد/امداداللہ طیب

علمائے کرام کی زندگی کے حالات ان کی سیرت و سوانح کے تذکرے سے کئی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔
پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ اس سے برکتیں نازل ہوتی ہے۔
دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ان کی سیرت و کردار کو لکھنے والا گویا اس بات کا اظہار کرتا ہے، کہ مجھے ان شخصیات سے محبت ہے۔ اور میں ان کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہوں۔اور اللہ رب العزت کے ارشاد,, اولئک الذین ھدی اللہ فبھداھم اقتدہ،،
اور اللہ کے نبی صلی اللہ وسلم کا ارشاد عالی ,,المرء مع من احب،، کو ذہن میں رکھتے ہوئے اللہ تعالی سے ان اکابر کی بدولت اپنی ہدایت اور آخرت کی نجات اخروی کے لیے درخواست کرتا ہے۔
تیسرا فائدہ یہ ہے کہ علماء صلحاء کی زندگیاں پڑھنے سے پڑھنے والے کے دل پر عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اور اس سے انسان کی اپنی سیرت کی تکمیل ہوتی ہے۔
انسانی سیرت و کردار کی تقریر کے لیے اولیاء کرام کی صحبت ہمنشینی ایک اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔

حضرت مولانا محمد یحییٰ خان محسن ایک جید عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ جرات ، بہادری، دلیری کے حامل گوناگوں شخصیت تھے۔نڈر اور بے باک طبیعت تھی۔ خدارانہ مزاج تھا۔
میں نے اپنے شعور میں ان کی زیارت پہلی دفعہ اپنی حفظ کی دستار بندی پر کی تھی۔جناح کیپ پہنے رعب دبدبہ والی شخصیت کا تعارف مولانا محمد یحیی خان محسن کے نام سے ہوا۔

آپ 2مارچ 1947ء کو موضع راجکوٹ ضلع مظفر آباد میں پیدا ہوئے۔ناظرہ قرآن مجید اور ابتدائی دینی تعلیم قاری محمد یونس صاحب سے مانسہرہ میں حاصل کی۔ درس نظامی کے 1959ء کے شروع میں حضرت مولانا مفتی بشیر احمد پسروری سے دارالعلوم عربیہ حنفیہ پسرور ضلع سیالکوٹ سے اکتساب فیض حاصل کیا۔1968ء میں جامعہ مدنیہ لاہور کریم پارک سے سند فراغت حاصل کی۔بعد ازاں مدرسہ بدرالعلوم رحیم یارخان سے مولانا غلام اللہ خان سے سند فراغت ترجمہ قرآن کریم اور دورہ تفسیرحافظ الحدیث حضرت مولانا عبداللہ درخواستی رحمۃ اللہ سے پڑھا۔آپ کا شجرہ نسب مختلف واسطوں سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ملتا ہے۔مترنم مزاج خطیب تھے۔

ہمارے سالانہ ختم نبوت کورس اونچہ کلاں میں حاضری تادم حیات رہی۔ جلسہ میں صدارت ان کی ہوتی تھی۔ سالانہ ختم نبوت کانفرنس ظفروال میں بھی شفقتوں کا اظہار فرمایا کرتے تھے۔اکثر ملاقاتوں میں اپنے اکابر کے واقعات بڑے مزے سے سنایا کرتے تھے۔ دورہ دیوبند، دورہ کابل کے حالات مجھے بارہا دفعہ ان سے سننے کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت مفتی بشیر احمد پسروری صاحب السیف کی صحبت نے انہیں کندن بنا دیا تھا۔ناموس رسالت و ناموس صحابہ و اہل بیت پر مولانا عبدالشکورلکھنوی،
مولاناعبدالستارتونسوی، علامہ ڈاکٹر خالد محمود پی ایچ ڈی (لندن) کی فکر کے حامل تھے۔جس کا اظہار بابانگ دہل اسٹیج پر کیا کرتے تھے۔
حضرت مفتی بشیر احمد پسروری کے حکم پر ساری زندگی جولائی 1968ء سے لے کر اپریل 2020 تک جامعہ حنفیہ قاسمیہ نارووال میں گزار دی۔قانون ساز اسمبلی آزاد کشمیر کے رکن بھی رہے۔
سیاسی تعلق قائدجمعیت،شہید ناموس رسالت حضرت مولانا سمیع الحق سے تھا۔ ضلع نارووال جمیعت علمائے اسلام کے امیر اور انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سرپرست اعلی تھے۔وفاق المدارس العربیہ نارووال کے ضلعی مسئول بھی تھے۔ڈسٹرکٹ و ڈویژن امن کمیٹی نارووال گوجرانوالہ کے ممبر تھے۔ نارووال ایلمنٹری کالج کے پروفیسر تھے۔آج ان کے بہت سارے شاگرد ملکی لیول ملک و ملت کے لیے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔سیالکوٹ، نارووال کے جید علماء کی لڑی کے قافلہ سالار تھے۔ جنہوں نے حق و صداقت کی آواز کو ہمیشہ بلند کیے رکھا۔ فاضل دیوبند حضرت مولانا عبدالحق صاحب، شہید ختم نبوت حضرت مولانا محمد انذر قاسمی، مفتی بشیر احمد پسروری،پروانہ ختم نبوت حضرت مولانا فیروز خان ثاقب فاضل دارالعلوم دیوبند، مفتی رشید احمد پسروری رحمہم اللہ تعالی علیہم اجمعین کے قافلہ حق کے آخری سالار تھے۔مسلک حق کے بے باک اور نڈر ترجمان تھے۔آپ کی ساری زندگی اعلائے کلمة اللہ سے تعبیر ہے۔ 53 سال جامعہ حنفیہ قاسمیہ کے ممبر سے توحید و سنت کی صدا بلند کی۔ہزاروں لوگوں کے عقیدے درست ہوئے۔
بارہ اکتوبر 1980ء سے والد ماجد کے ساتھ شروع ہونے والے دوستی کے اس سفر کی تکمیل ۔2020۔12اپریل پر ہوئی۔ اپنے چالیس سالہ دوستی کے اس سفر کی مثالیں اکثر بیان فرمایا کرتے تھے۔
وفات سے ایک ماہ قبل مفکراسلام استاذ العلماء مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا زاہدالراشدی حفظہ اللہ تعالی نارووال ایک پروگرام میں تشریف لائے۔ تو ملاقات میں بڑے فخر سے استاد جی سے فرمایا، حضرت اس بندے نے میرے ساتھ دوستی کا حق ادا کیا ہے۔اور میرے ساتھ دوستی نبھائی ہے۔ خاندان امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بڑا گہرا تعلق تھا۔ اپنی تعلیم کے زمانہ میں گھر کے ماحول کا حصہ بھی رہے۔ اس وجہ سے امام اہلسنت کے خاندان میں ان کا بڑا احترام تھا۔ جس کا عملی مظاہرہ اکثر ملاقاتوں میں دیکھنے کو ملتا۔

حضرت مولانا یحیی خان محسن علیہ الرحمہ نے اپنی چالیس سالہ رفاقت کو جس طرح نبھایا۔ یہ انہی نفوس قدسیہ کی حامل شخصیات کا خاصہ تھا۔ زندگی میں دکھ، سکھ، خوشی، غمی کے ساتھی رہے۔

مجھے یاد ہے کہ ہمارا سالانہ ختم نبوت کورس جو ہر سال 5 شعبان المعظم سے 20 شعبان المعظم تک رمضان کی چھٹیوں میں منعقد ہوتا ہے۔ 2007ء میں حکومتی سطح پر مرزائیوں کی طرف سے شرارت ہوئی۔ لاہورسے اداروں کی جانب سے ایک فیکس آئی۔اونچہ کلاں کورس کی انکوائری کی جائے۔ جمعہ کا دن تھا ایس ایچ او تھانہ ظفروال والد صاحب کو اپنی گاڑی میں لے کر نارووال اعلی افسران کے سامنے پیش ہوئے۔ میں نے اس ساری پریشان کن صورتحال سے حضرت جی کو آگاہ کیا۔ والد صاحب فرماتے ہیں، ابھی دفتر میں بیٹھے مجھے سات منٹ نہیں گزرے تھے، کہ مولانا دفتر میں پہنچ گئے۔فرمایا شاکر صاحب خیر ہے؟میں آگیا ہوں۔گھبرانا نہیں۔
چالیس سالہ دوستی کے سفر کو اپنے اس چھوٹے سے کالم میں کیسے قلمبند کروں۔ حضرت کی شخصیت ان کی وفا، محبت، شفقتیں ہم پر اتنی ہے کہ ہم ان کا قرض نہیں اتار سکتے۔ دوران سال ملاقات کے علاوہ سالانہ ختم نبوت کانفرنس ظفروال کی اجازت کے لئے حضرت کے ہاں حاضری لازمی ہوتی تھی۔ ایک تو کانفرنس کی دعوت کے لئے، اور دوسرا کارگزاری کے لئے۔

8 فروری 2020ء بروز ہفتہ کو اپنے درینہ دوست حضرت مولانا عثمان اکرام کے ساتھ حضرت جی کے دولت کدے پر حاضری ہوئی۔ بڑی محبت و شفقت کا اظہار فرمایا۔ فرمانے لگے کہ حضرت مولانا حامدالحق حقانی صاحب نے مرکزی شوریٰ میں منتخب فرما لیا ہے۔ اور پھر وہ لیٹر بھی دیکھایا۔ جو مرکز کی طرف سے حضرت کے نام جاری ہوا تھا۔فرمانے لگے کہ عنقریب قائدجمیت کے ضلع دورے کی ترتیب بناتے ہیں۔ ساتھ ڈسٹرکٹ باڈیاں بھی تشکیل دیں گے۔ عرض کیا حضرت جیسے آپ کا حکم۔
انٹرنیشنل ختم نبوت نارووال کے سرپرست اعلی ہونے کی حیثیت سے نئے علمائے کرام کا بڑا اعزازواکرام فرماتے، محبتوں سے نوازتے۔ حوصلہ و ہمت دلاتے۔ اپنے بڑوں کے ساتھ مل کر بے فکر ہو کر کام کرنے کی ترغیب دیتے۔ انشاء اللہ آپ کا مرکز آباد ہے۔
وفات سے ایک جمعہ قبل کرونا حالات میں جب مساجد کے لاک ڈاون کی بات چلی۔ تو بڑی جرات کے ساتھ فرمایا کہ مسجد بند نہیں کریں گے۔ البتہ حفاظتی تدابیر ضرور اختیار کریں گے۔ عوام الناس کو مسجد سے روکنا یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ خطیب و امام کی ذمہ داری نہیں۔ شاید حضرت جی کا یہ اعلان حق تھا، کہ جس کی سزا حالت بیماری،جنازہ میں یہ دی گئی۔کہ ریاستی ظلم و پراپیگنڈا کا شکار ہوئے۔اور عام و خواص کو جنازہ سے روک دیا گیا۔ ورنہ نارووال کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ ہوتا۔
وفات سے ایک جمعہ قبل فون پر مفتی شکیل احمد صاحب، والد صاحب سے حال احوال پوچھا۔تسلی دی۔آخری عمر میں
عوامی جلسوں میں شرکت بہت کم رہی۔ البتہ علماء کے اجلاس جہاں بھی ہوئے، وہاں ضرور پہنچے۔ علماء کو تسلی دیتے۔ان کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ دینی حوالے سے کام کی تعریف فرماتے۔ خود داری کے ساتھ کام کرنے کی ترغیب دیتے۔
غرض یہ کہ حضرت جی کی شخصیت ایک شجر سایہ دار جیسی تھی۔ خود تو دھوپ میں رہ کر دوسروں کو چھاؤں دیتے تھے۔ آخری عمر میں اپنوں بیگانوں کی طرف سے تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن دکھ سہہ کر بھی سکھ بانٹتے رہے۔
حضرت جیسی شخصیت کی شفقتوں، محبتوں، اور سرپرستی کی ہم جیسوں کو اس دور میں بہت ضرورت تھی۔ لیکن شاید کڑے وقتوں کا یہ مسافر اب تھک چکا تھا۔ اسے آرام کی ضرورت تھی۔ بہت ستایا تھا نا تم نے۔ بڑے دکھ دیے تھے۔ لیکن ہم صحراؤں میں بھی تمہیں چھاوں دیتے رہے۔ حضرت جی کے انتقال کے بعد تو محسوس ہوا۔کہ واقعی آپ کی شخصیت ایک شجر سایہ دار کی سی تھی۔ حضرت جی کے بغیر اب تو ہماری مثال صحرا میں کھڑے اس اکیلے مسافر جیسی ہے۔ جسے دور کا سفر در پیش ہے۔ راستہ مشکل ہے۔ کانٹے ہیں۔جھاڑیاں ہیں۔ صحرا کے مسافر کو سوائے سراب کے دور دور تک کوئی شجر سایہ دار نظر نہیں آ رہا۔ پرکھٹن راستے نے منزل کا حصول ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بنادیا ہے۔

آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کا قول ہے۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ اس وقت شہید ہوئے،جب روئے زمین کا کوئی بھی شخص ایسا نہ تھا جو ان انکے علم کا محتاج نہ ہو۔
علاقائی صورتحال کے تناظر میں،میں یہ جملہ حضرت مولانا یحیی خان محسن کے لیے کہوں گا مولانا دنیا سے اس وقت رخصت ہوئے، کہ جب اہل علم، اہل دانش، اہل جمعیۃ کو ان کے فہم و تدبر کی احتیاج تھی۔ اہل سیاست ان کی قیادت و زعامت کے حاجت مند تھے۔ ان کی وفات بیک وقت علم و دانش، سیاست و قیادت، فہم و تدبر، شجاعت و بسالت کا ماتم ہے۔ ان کی وفات سے دین اور خیر کے کئی شعبے اور مراکز ان کی سرپرستی میں چل رہے تھے۔ ان کی وفات پر مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، ملک و بیرون ملک جید علماء و مشائخ نے اظہار تعزیت کیا۔
ہمارے بعد کہاں یہ وفا کے ہنگامے
کوئی کہاں سے ہمارا جواب لائے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں