97

شکرِ آزادی/تحریر/محمد زاہد جمیل

محمد زاہد جمیل

1857 کی جنگ کے ٹھیک نوے سال بعد 1947 کو ہم بغیر کسی جنگ اور لڑائی کے آزاد ہو گئے، لیکن آزاد ہوتے ہوتے بہت کچھ چھن گیا، لاشوں کے انبار اور خون کی لہریں کون بھلا سکتا ہے؟ اب ماشاءاللہ تیسری نسل جوان ہے، مگر یادیں ابھی بھی تازہ ہیں اور خون ابھی بھی نظر آ رہا ہے، انگریز بر صغیر چھوڑنے پر مجبور تھا، اس کا ظالمانہ نظام سمٹ رہا تھا اور زمین اس کے قدموں سے کھسک رہی تھی، انگریزوں کی سفاکیت کو کون بھول سکتا ہے، جاتے جاتے بھی اس نے سفاکیت کی وہ آگ دہکائی جس کے شعلوں نے پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، ملک ملا مگر اس کی سرحدیں آپس میں نہیں ملتی تھیں، آزادی ملی مگر شرطیں کڑی تھیں، خزانہ تقسیم ہوا تو اُدھر انبار تو اِدھر کوڑیاں، انگریز کے تمام کالے کرتوتوں ہماری نوجوان نسل کے سامنے آ جائیں تو انگریز بننا تو درکنار کوئی اس پہ تھوکنا بھی گوارا نہ کرے، جلتے تندوروں میں پگھلتی چربی اکثر لوگ بھولتے جا رہے ہیں، انگریزوں کا کردار اور یہ بھیانک چہرہ بہت تھوڑے لوگوں کو یاد ہے کہ ہندو بلوائیوں کو انگریز نے ہی کھلا ہاتھ دیا کہ ہزاروں مسلمان گاجر مولی کی طرح کاٹ دیئے گئے؟ انگریز نے ہی سکھوں کے جتھے منظم کروائے جس کی وجہ سے آج بھی سر زمینِ پنجاب خون اُگل رہی ہے؟ انگریز نے ہی کشمیر کو سولی پر لٹکایا کہ اب تک اس کے زخموں سے خون رس رہا ہے؟ وہ انگریز شیطان ہی تھا جس نے جونا گڑھ کی ریاست کو لہو لہان کیا تھا؟ وہ سازشی درندہ انگریز ہی تھا جس نے بر صغیر کے مسلمانوں کو مسائل کے انگاروں پر ننگے پاؤں کھڑا کر دیا تھا؟ وہ انگریز تھا صرف انگریز، ہاں انگریز۔

ظلم، نفرت اور شیطنت کی علامت، خباثت، نجاست اور غلاظت کا پتلا، سفاکیت، درندگی اور چنگیزیت کی بھیانک صورت، ناپاک، پالید اور مردار سے زیادہ بدبودار، قابلِ نفرت ہی نہیں واجبِ نفرت، صرف وہ خود ہی نہیں بلکہ اس کی ہر چیز اس کا ملک، نظام، تعلیم، نظامِ حکومت و سیاست، انسانیت کے چہرے پر بدنام دھبہ ہے، ہم آزادی کے دن شکرانہ ادا کرتے ہیں، خوشی بھی مناتے ہیں مگر انگریز کی طرف سے لگائے گئے زخم سے رستے خون کو بھی دیکھتے ہیں، ہم بر صغیر کے تاجدار تھے، وشا کھا پٹنم سے خیبر تک ہمارا سکہ چلتا تھا، کشیمر سے کنیا کماری تک ہمارے گھوڑے دوڑتے تھے، ہم مسلمانوں نے ہی اس تاریک خطے کو روشن کیا تھا، ہم نے ہی ظلم و ستم اور چھوت چھات سے ناپاک اس دھرتی کو پاک کیا تھا، حضرات صحابہ کرام سے لیکر محمد بن قاسم تک ہم یہاں آتے رہے اور زمیں کو آسماں سے ملاتے رہے ہیں، کفر و شرک کی غلاظتوں سے متعفن اس دھرتی کو شہداء کے خون اور غازیوں کے پسینے نے ہی عروج بخشا ہے، اس خطے میں جو بھی خیر آئی ہے مسلمانوں ہی کی بدولت آئی اور جو خیر موجود ہے مسلمانوں کی برکت سے موجود ہے، ہندؤ برصغیر کا اقتدار کبھی نہیں لے سکتا تھا بلکہ ہندؤ سماج تو اسلام کے نور سے منور ہو رہا تھا، لاکھوں نہیں کروڑوں انسانوں کو کفر و شرک، چھوت چھات سے نجات مل رہی تھی۔

شامتِ اعمال کہ منحوس انگریز آ ٹپکا، اس نے متحد مسلمانوں کو بانٹ دیا اور بٹے ہوئے ہندؤوں کو جوڑ دیا، وہ برصغیر میں کفر کا راج اور اسلام کا مکمل یا جزوی خاتمہ چاہتا تھا، ممکن ہے وہ خود کو کامیاب سمجھے مگر ایسا نہیں اور ممکن ہے وہ خود کو ناکام گردانے ایسا بھی نہیں ہے، شیطان کی طرح وہ کسی حد تک اپنے ناپاک مشن میں کامیاب رہا، اس کی یہی کامیابی ہمارا رستا ہوا زخم ہے۔

14 اگست کا دن آ رہا ہے ہم چودہ پندرہ کروڑ مسلمان پاکستان کی خوشی منائیں گے، اللہ پاک مبارک کرے، مگر کشمیر، پونچھ، راجوری اور جموں کے مسلمان بندوق کے سائے میں معلوم نہیں مزید کتنی لاشیں اٹھائیں گے؟ کچھ جانباز لال چوک پر پاکستانی پرچم لہرائیں گے اور کچھ سرفروش اپنے گھروں کو اس پرچم سے رونق بخشیں گے، مگر کون ان کو شاباش دے گا؟ کون ان ماؤں کے سر کا آنچل درست کرے گا جو اس دن مزار شہداء کی طرف بے قراری سے دوڑ رہی ہوں گی، کون ان بہنوں کے آنسو پونچھے گا جن کے جوان بھائی خاک کے پیوند بنا دیے گئے، 14 آگست کو ہڑتال کے دن جب کشمیری بچے بھوک سے بلک بلک روئیں گے تو کون انہیں دودھ لا کر دے گا؟ خیر سگالی کے جذبے میں مگن حکمران اپنوں کا ہی خون بھولتے جا رہے ہیں، کیا یہ آزادی ہے؟ غیروں کے خوف سے اپنوں کو قبضہِ غلامی سے نہ چھڑانا کیا یہ ہماری خود مختاری ہے؟

اُدھر بنگلہ دیش کے ستر لاکھ مسلمان 14 اگست کو کیا سوچیں گے؟ وہ کسے یاد کریں گے؟ ان لوگوں کو جو آزادی اور مسلمان ہونے کے جرم میں مارے گئے؟ یا ان کو جو مسلمان ہونے کے باوجود مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے، برہمن سامراج نے وہ کھیل کھیلا جو بھلائے نہیں بھولتا، ہم ایک دوسرے کے ہاتھوں کٹ گئے اور لٹ گئے، خود ہم ہی قاتل اور ہم ہی مقتول تھے، ہم ہی ظالم اور ہم ہی مظلوم تھے، ہائے وہ بنگالی مسلمانوں کو کون کاٹ رہا تھا اور کون کٹ رہا تھا، کاش کوئی ہندوؤں کے مکروہ چہرے کو 1971ء کے شہداء کے خون میں دیکھے، وہی بھیانک لمحہ پھر سے قریب آ رہا ہے، اُس وقت بھی پشت پر گورے قاتل کھڑے تھے اور آج بھی، برہمنی سامراج کشمیر میں میدانی جنگ ہار چکا ہے اب وہ میدان چھوڑ کر سازش کا دسترخوان بچھا رہا ہے۔۔۔۔!

14 اگست آ رہا ہے، ممکن ہے ہجرت کے دوران شہید ہونے والوں کے خون کی خوشبو کا کوئی جھونکا اربابِ اختیار کی ناک تک پہنچ جائے، ممکن ہے کسی روتی سسکتی ماں کا کوئی آنسو سر حد عبور کر سکے، ممکن ہے کسی غمزدہ بہنا کی کوئی ہچکی ہمارے کانوں تک پہنچ سکے اور کشمیر کی فضائیں بھی آزاد ہو جائیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ یومِ آزادی کے دن پٹاخے اسی لیے چھوڑے جاتے ہیں کہ ارد گرد کی آوازوں سے اپنے کانوں کو بچایا جا سکے، لیکن یہ آوازیں سخت اور اونچی ہیں، کانوں تک نہ بھی پہنچ سکیں تو دل کو ضرور چھید دیں گی۔

اے شراب کے جام پر جشنِ آزادی منانے والو! رقص اور موسیقی کے درمیان اس مبارک دن کی نا قدری کرنے والو! شراب و کباب کا نام آزادی نہیں ہے، لاکھوں مسلمانوں نے اپنا خون رقص و موسیقی کے لیے نہیں بہایا تھا، یہ ناپاک کام تو کافر ملکوں میں زیادہ آزادی سے ہو سکتے ہیں، آزادی کا نعرہ اس لیے نہیں لگایا گیا تھا کہ ہم آزادی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کر سکیں، اللہ کے لیے اپنے شہداء کو یاد رکھو، اپنے دین کو یاد رکھو، اپنی زندگی کے مقصد کو یاد رکھو، آج برصغیر میں ہندؤ متحد ہیں جبکہ ہم مسلمان بٹ چکے ہیں، ہمیں تضادات و بے حیائی میں الجھایا جا رہا ہے، اٹھو اور ایک ہو جاؤ، اپنے نبی کے دین پر جمع ہو جاؤ، آزادی کا شکر ادا کرو، آزادی کا شکر یہی ہے کہ ہمیں نماز سے کوئی نہ روک سکے، دیگر فرائض کی ادائیگی سے کوئی نہ روک سکے، زبردستی گناہوں کے دلدل میں کوئی نہ پھنسا سکے، پکے مسلمان بن جاؤ ایسے مسلمان کہ دیکھتے ہی اسلام سمجھ آ جائے کیونکہ ہم آزاد ہیں، ہم آزاد ہیں ہمیں کسی کے دباؤ میں آ کر اپنے مسلمان بھائیوں کے گلے نہیں کاٹنے ہوں گے، یہ وطن رب نے دیا ہے اس کی حفاظت بھی وہی کرے گا، وہ حفاظت تب کرے گا جب ہم اس کو پکے مسلمان اور امت کے سچے غمخوار بن کر راضی کریں گے، ماضی میں کسی ملک کا بیڑہ ہماری مدد کو نہیں پہنچا اور پہنچے گا اب بھی نہیں، خوب سمجھ جاؤ کہ اصل طاقت اللہ کی ہے، ملک کو بھی وہی بچائے گا اور دشمن کا منہ بھی وہی پھیرے گا، ہمارے ذمے یہ بات ہے کہ ہم آزادی کا شکر ادا کرتے ہوئے اللہ کو راضی کرنے کا عزم کریں اور پوری امتِ مسلمہ کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کریں کہ۔۔۔۔۔۔!

اے دنیا بھر کے مسلمانو! ہم آزاد ہیں اور پوری آزادی کے ساتھ ہم تمہارے ساتھ ہیں، میرے پاکستانیو! آج تک کوئی بزدل موت سے نہیں بچ سکا اور کوئی بہادر موت سے پہلے نہیں مر سکا، پھر ہم کیوں بزدلی اور گناہ کے راستے پر چلیں؟ حکمت بھی یہی ہے اور مصلحت بھی یہی ہے ہم پکے مسلمان بن جائیں اور امتِ مسلمہ کے سچے غمخوار بن جائیں، اگر ایسا ہو گیا تو پھر ۔۔۔۔۔

یومِ آزادی زندہ باد : پاکستان زندہ باد۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں