راشد منہاس پاکستانی تاریخ کے ایک عظیم ہیرو ہیں، جن کی خدمات کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا، کیونکہ ان کی آئیڈیل شخصیات میں حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم شامل ہیں۔
راشد منہاس 17 فروری 1951 کو کراچی میں پیدا ہوئے، آپ کے خاندان کے متعدد افراد پاکستان کی بری بحری اور فضائی افواج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ انہوں نے بھی اپنا آئیڈیل فوجی زندگی کو بنایا۔ اور اپنے ماموں ونگ کمانڈر سعید اور اپنے بہنوئی میجر ناصر احمد خان سے بہت زیادہ متاثر تھے جنہیں ستارہ جرات سے نوازا گیا تھا”۔
آپ کے والد ماجد عبدالماجد منہاس نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ راشد منہاس اپنی پیدائش سے ہی پاک فضائیہ سے جڑا ہوا تھا کیونکہ اس کی پیدائش کراچی کے ڈرگ روڈ پر واقع پی اے ایف ہسپتال میں ہوئی ” میرے بیٹے نے اتنی بڑی قربانی دے کر میرا سر فخر سے بلند کردیا ہے”۔
راشد منہاس کے والد اسے انجینئر بنانا چاہتے تھے لیکن انہوں نے بیٹے کے عزم کے سامنے اپنی خواہش سے دستبرداری اختیار کر لی تھی۔ راشد منہاس نے A اور O لیول کے امتحانات اعزازی نمبروں کے ساتھ پاس کیے اور 18 برس کی عمر میں پی اے ایف کالج لوئر ٹوپا میں داخل ہو گئے۔ اس زمانے میں ان کا شمار کالج کے بہترین مقررین میں ہونے لگا۔
راشد منہاس زمانہ طالبعلمی میں جنگوں پر لکھی جانے والی کتابوں کو پڑھنا پسند کرتے تھے اور ان کے اہم اقوال اپنی ڈائری پر نقل کرلیتے تھے۔
راشد منہاس کی ڈائری پر درج اقوال میں سے ایک میں کہا گیا تھا ” ایک شخص کے لیے سب سے بڑا اعزاز اپنے ملک کے لیے قربان ہونا اور قوم کی امیدوں پر پورا اترنا ہے”۔ابتدائی تربیت کے لیے پہلے کوہاٹ اور پھر پاکستان ایئر فورس اکیڈمی رسالپور تشریف لے گئے۔ فروری 1971ء میں پشاور یونیورسٹی سے انگریزی، ائیر فورس لا، ملٹری ہسٹری، الیکڑونکس، موسمیات، جہاز رانی، ہوائی حرکیات وغیرہ میں بی۔ ایس۔ سی کیا۔ بعد ازاں خصوصی تربیت کے لیے کراچی تشریف لے گئے۔ اور اگست 1971ء میں پائلٹ آفیسر بنے۔
راشد منہاس نے میری کیمبرج اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور سنیئر کیمبرج کراچی سے کیا۔ راشد منہاس نے پاک فضائیہ 1968 میں پاک فضائیہ کا حصہ بنے اور پی اے ایف اکیڈمی سے سائنس کے مضمون میں گریجویشن کی ڈگری اعزاز کے ساتھ حاصل کی۔ انہوں نے طیارہ اڑانے کی ابتدائی اور پرائمری تربیت Havard اور T-37 ایئر کرافٹ پر حاصل کی اور اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
پاکستان کی مسلح افواج کے جوان اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور شجاعت کے اعتبار سے دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتے ہیں۔ اُن کی صفوں میں زبردست نظم و ضبط قائم ہے، اُن کی اہمیت کا اعتراف عالمی سطح پر مختلف انداز میں کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا دفاع اُن کی اوّلین ذمے داری ہے اور وہ اِس مقدس فریضے کی ادائیگی میں ہر وقت مستعد اور چوکس رہتے ہیں۔ اُن کی امتیازی شناخت اُن کا جذبۂ شہادت ہے اور اُن کے ماٹو میں ’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ ایک بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی روحِ شجاعت افسروں اور جوانوں کو وطن کی ناموس پر کٹ مرنے کے اعلیٰ جذبوں سے سرشار کئے رکھتی ہے۔ ہمارے ہزاروں جانباز جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں اور داخلی اور خارجی چیلنجوں کے سامنے ناقابلِ تسخیر دیوار بنے ہوئے ہیں۔
راشد منہاس شہید جیسے جری جوان جانتے ہیں کہ امن کے حصول اور اُس کی حفاظت کے لئے پیہم قربانیاں دینا پڑتی ہیں اور عسکری استعداد میں اضافہ ضروری ہے۔ ہماری فوج کے جوان جذبۂ جہاد سے سرشار ہیں اور وطن کی خاطر جانیں نچھاور کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں۔ اُن کے اندر نعرۂ تکبیر سے جو بے پناہ قوت پیدا ہوتی ہے اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا جو عزم اُبھرتا ہے، وہی اُن کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ بھارت کی فوج پر اُن کی سرفروشی سے ایک لرزہ طاری ہے۔ اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ قرآنِ حکیم کی سورۂ بقرہ میں ارشاد خداوندی ہے کہ جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں “اُنہیں مردہ نہ کہو” بلکہ وہ زندہ ہیں اور تمہیں اِس کا شعور نہیں۔
وہ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کے اِس تصور سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن۔ اُنہیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شہید کے ہونٹوں پر جو مسکراہٹ رقص کرتی ہے ٗ وہ اﷲ تعالیٰ کوسب سے زیادہ پسند ہے۔ وہ لوگ بڑے خوش نصیب اور پوری قوم کا سرمایۂ افتخار ہیں جو اپنے وطن کی حفاظت سمندروں، صحراؤں، جنگلوں اور مشکل پہاڑی علاقوں میں کرتے اور امن کے قیام کے لئے اپنی زندگی اور آسائشیں تج دیتے ہوئے موت کی ابدی نیند سو جاتے ہیں۔ اُن کی قربانیوں سے ہمارا وطن سلامت ہے، ہماری آبروئیں محفوظ ہیں اور ہمارا مستقبل اُمید کی قوس و قزح میں نمودار ہو رہا ہے۔ ہم سب کو مل کر انتہا پسندی کے اندھیروں کو میانہ روی، عالی ظرفی اور باہمی خیر خواہی کے اُجالوں میں تبدیل کرنا اور اپنی زندگی سے شہادتِ حق کا فریضہ ادا کرتے رہنا ہو گا۔
28 اگست 1971 کو دیئے جانے والے ایک انٹرویو میں عبدالماجد منہاس نے کہا کہ ان کا بیٹا شروع سے ہی ایسے کرئیر میں دلچسپی رکھتا تھا جس کے ذریعے وہ ملک و قوم کی خدمت اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ کرسکے۔
مورخین کا کہنا ہے کہ وطن دشمن غداروں کا تعاقب کرنے کیلئے ہمیں آج بھی راشد منہاس شہید جیسے افراد کی ضرورت ہے، جو مختصر وقت میں کوئی اہم فیصلہ کرسکیں، ہمارے دشمن بھارت کی طرح اس کا آلہ کار انسٹرکٹر مطیع الرحمٰن بھی شاطر دماغ تھا، جس نے جذبہ جہاد و شوق شہادت سے سر شار مرد مجاہد سے پنگا لیا تھا، مگر اسے یہ خبر نہیں تھی کہ مملکت خداداد پاکستان کے فوجی جوان قوم کے کل کیلئے اپنا آج قربان کرنے سے نہیں گھبراتے، بلکہ دشمن کو عبرتناک شکست سے دو چار کرنے کیلئے وہ اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کردیتے ہیں الحمدللہ
یوم شہادت
20 اگست 1971 کو راشد کی تیسری تنہا پرواز تھی۔ وہ ٹرینر جیٹ طیارے میں سوار ہوئے ہی تھے کہ ان کا انسٹرکٹر سیفٹی فلائٹ آفیسر مطیع الرحمان خطرے کا سگنل دے کر کاک پٹ میں داخل ہو گیا اور طیارے کا رخ بھارت کی سرحد کی طرف موڑ دیا۔ راشد نے ماڑی پور کنٹرول ٹاور سے رابطہ قائم کیا تو انہیں ہدایت کی گئی کہ طیارے کو ہر قیمت پر اغوا ہونے سے بچایا جائے۔ اگلے پانچ منٹ راشد اور غدار انسٹرکٹر کے درمیان طیارے کے کنٹرول کے حصول کی کشمکش میں گزرے، مطیع الرحمٰن نے راشد منہاس سے طیارے کا کنٹرول حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن راشد منہاس نے اس کو ناکام بنا دیا۔ مطیع الرحمان کی تجربہ کاری کی بنا پر جب راشد منہاس نے محسوس کیا کہ طیارے کو کسی محفوظ جگہ پر لینڈ کرانا ممکن نہیں تو انہوں نے آخری حربے کے طور پر جہاز کا رخ زمین کی طرف موڑ دیا اور طیارہ زمین سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔ جس کے نتیجے میں راشد منہاس اور مطیع الرحمان دونوں وفات پا گئے۔ لیکن! ایک نے قابل رشک موت یعنی شہادت کا درجہ پایا اور تاریخ میں اپنا نام امر کر لیا جبکہ دوسرا غدار کہلایا۔ راشد منہاس کے اس عظیم کارنامے کی وجہ سے انہیں سب سے بڑا فوجی اعزاز نشانِ حیدر دیا گیا۔
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
شہید کا ہے جو لہو وہ قوم کی زکوٰۃ ہے
