99

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم/تعارف، مقام ومرتبہ اور عظمت/تحریر/مفتی عبدالصمد ساجد

(مدرس جامعہ فاروقیہ لاہور سابقاً ، استاذ التخصص فی الافتاء ابراہیم اکیڈمی)

بعض لوگ صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم میں مخالفت و عداوت کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم نے انہیں ” رحماء بینھم” باہم محبت کرنے والے، آپس میں مشفق و مہربان قرار دیا ہے وہ سب ہمارے ایمان کا حصہ، آنکھوں کی ٹھنڈک ، دل کا سرور اور ایمان کا مقیاس و معیار ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو “نجومِ ہدایت” اور اہلِ بیت اطہار کو ” سفینہء نجات” قرار دیا لہذا صحابہ کرام نجومِ ہدایت اور اہل بیت سفینۂ نجات ہیں جو اس سفینہ میں بیٹھ کر ان ستاروں کے ذریعہ راستہ تلاش کرے گا منزل پر پہنچے گا۔ر ضی اللہ عنہم وأرضاھم ورضوا عنہ۔

صحابہ کرام اس مقدس و مطہر جماعت کو کہا جاتا ہے جو دامے درمے سخنے حبیبِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے کے ساتھ کندھا اور قدموں سے قدم ملا کر چلتے رہے، ہر کٹھن مرحلہ میں سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت و حمایت پر ڈٹے رہے، ہر مشکل گھڑی میں اسلام کے ساجھی دار رہے، اس امداد و اعانت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، انہوں نے وطن چھوڑا، بیوی اور بچوں کو الوداع کہا، خویش و اقارب کے تعلقات قربان کیے، مال و منال، متاع و زر کو خیر باد کہا، پکی فصلیں ترک کیں، گھر بار کنبہ اور قبیلہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دینِ محمدی کو سینے سے لگایا، اور اس کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا، میدانوں میں ڈٹ گئے، دریاؤں اور سمندروں میں اتر گئے، صحراؤں اور جنگلوں میں چھا گئے،
بقول اقبال مرحوم
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
سبیلِ خدا و اتباعِ رسول میں انہیں ایذائیں اور تکلیفیں دی گئیں، مصائب و آلام کے پہاڑ توڑے گئے، ستانے اور کوسنے کی ہر صورت اختیار کی گئی، لاتیں اور مکے مارے گئے، گلیوں میں گھسیٹا گیا، سولی پر لٹکائے گئے، تیل کے ابلتے ہوئے کڑاہوں میں بھونا گیا، جسم سے کھالیں ادھیڑیں گئیں، دہکتے انگاروں پر لٹایا گیا، آنکھیں نکالی گئیں، مُثلہ کیا گیا، اہل و عیال، مال و دولت اور وطن چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، سرتن سے جدا ہوئے، اس سب کے باوصف وہ بندگانِ خدا و فدائیان ِ رسول عشق و وفا کی راہوں معاونتِ رسولِ خدا سے باز نہ آئے، جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات آگئی ہے وہاں وہ تسلیم ہوگئے، جھک گئے اور بچھ گئے، خالق جل و علا نے جب سے ارض و سما کو پیدا کیا ایسی قربانیاں، ایثار، ہم دردی، اخلاص و للہیت، تقوی و طہارت، ایمان و عمل، شجاعت و ہمت، جود و سخا، رضا و رغبت، انابت و استغفار، ریاضت و مجاہدہ، زہد و رہبانیت، صبر و استقلال، عزیمت و استقامت، خشیت و خوف، امید و بیم، خلوص و محبت، زمین و آسمان نے دیکھی نہیں ہیں۔ پھر انہیں بارگاہِ ایزدی سے مغفرت، رزقِ کریم، جنت و حسنیٰ، اور فضل و رضا، ارضاء و انعام اور رحمت و برکت کے انعامات سے سرفراز کیا گیا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انتخابِ خداوندی ہیں
جس طرح باری تعالیٰ نے نبوت و رسالت و ختمِ نبوت کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چنا اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و معیت اور نصرت و حمایت کے لیے آپ کے اصحاب و رفقاء کو منتخب و مختار فرمایا، پھر ان میں سے بعض کو آپ سے سسرالی اور بعض کو دامادی رشتے عطا فرمائے۔
صحابہ معیارِ ایمان ہیں
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین رشد و ہدیٰ، ایمان و اخلاص کی اس معراج پر پہنچے کہ ایمان کا معیار ، مقیاس اور کسوٹی ٹھہرے، اب ان کے ایمان پر امت کے ایمان کو تو پرکھا جائے گا لیکن ان کے ایمان کو پرکھا نہیں جا سکتا،وہ انتخابِ خداوندی و اختیارِ باری تعالیٰ ہیں، وہ نجومِ ہدایت ہیں جن کے ذریعہ راہیں ملتی ہیں وہ صرف ہدایت پر ہی نہیں بلکہ دوسروں کی ہدایت و اہتداء کا ذریعہ و سامان ہیں۔ ان کے ایمان و تقویٰ اور فلاح و کامرانی کی شہادتیں خود خالقِ کائنات نے اپنی آخری مقدس کتاب و کلام میں دی ہیں، اس لیے ان پر طعن، تنقید اور تنقیص و تقصیر حرام اور تعظیم و تکریم، توقیر و اکرام واجب ہے۔ جس کے فکر و خیال میں ان سے متعلق میل ہو اس کا ایمان تو زیرِ بحث آسکتا ہے لیکن وہ ایسی ایمانی قرآنی شخصیات ہیں کہ جن کا ایمان زیربحث نہیں آسکتا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عادل و متقی اور محفوظ ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح معصوم نہیں ہیں کہ ان سے خطا و گناہ کا صدور نہ ہو، تاہم وہ محفوظ ضرور ہیں یعنی ان کو اولاً تو حق تعالیٰ خطا سے محفوظ رکھتے ہیں تاہم اگر بتقاضائے بشریت کسی غلطی کا صدور ہوجائے تو باری تعالیٰ دنیا میں ہی اس کی معافی کا بندوبست فرمادیتے ہیں پھر ایسی خطاؤں میں بہت سی حکمتیں اور اسباق پوشیدہ ہوتے ہیں جن کا اظہار ان مقدس شخصیات کی خطاؤں سے ہوتا ہے جب باری تعالیٰ نے ان کے لیے عام معافی اور رضوان و جنت کا اعلان فرمادیا، اس لیے وہ سب کے سب عادل، متقی، متقن، پکے مؤمن اور پاکباز ہیں،اب ان پر زبانِ طعن دراز کرنا روا نہیں ہے ان کا ذکر ہمیشہ خیر سے کیا جائے گا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی مشاجرات و اختلافات
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بعض مرتبہ کسی خطا و غلطی کا صدور ہوا تو حق تعالیٰ نے اس کی معافی کا انتظام فرمادیا، نیز کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی منازعات و مشاجرات بھی پیش آئے، مثلاً ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور خلیفہ راشد سیدنا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے مابین مشاجرۂ جَمَل پیش آیا ، اسی طرح سیدنا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان صفین کے مقام پر مشاجرہ و مجادلہ ہوا، ایسے واقعات کو لے کر ان شخصیات کا برا تذکرہ کرنا جائز نہیں ہے بلکہ بدباطنی کا شاخسانہ ہے۔ وہ ایمان و عدالت، صدق و صفا اور اخلاص کے اس درجہ پر تھے کہ جس کا پورے طور پر تصور بھی ممکن نہیں ہے۔
دنیا اور اس کی محبت ان کے قریب بھی نہیں بھٹکی تھی کہ ان کے بارے کے کسی لالچ اور طمع کا خیال کیا جاسکے۔
صحابہ کرام تنقید سے بالا تر ہیں
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بعض مقامات پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بشری لغزشوں پر تنبیہ موجود ہے، مگر ایسی تنبیہات کے بعد قرآن کریم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عام معافی اور جنت کا اعلان فرمایا ہے
اب کسی بھی طبقہ کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تنقید و جرح اور تنقیص و طعن کا قطعاً حق حاصل نہیں ہے اور نہ ہی بطور تبرا ان تنبیہات یا لغزشوں کو دوہرایا جاسکتا ہے جبکہ رب العالمین نے عفو و درگزر فرماکر” وکلا وعداللہ الحسنی” سے جنت کا اعلان فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل السنہ و الجماعہ کا یہ عقیدہ ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تنقید سے بالاتر ہیں
چنانچہ ارشاد نبوی ہے کہ جب میرے صحابہ کا ذکر آئے تو خاموش رہو۔
ان ذوات مقدسہ کی تقدیس و طہارت کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ صحابہ ہیں، جہاں یہ بات آجائے کہ فلاں شخص صحابی ہے پھر طعن و تشنیع کی سب زبانیں بند اور نقد و جرح کے تمام قلم ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس سے آگے مجالِ گفتگو نہیں ہے ،جہاں یارانِ پیغمبر کا ذِکرِ مبارک چھڑ جائے وہاں لفظ لفظ تول کر اور حرف حرف چن کر استعمال کرو۔
صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم
بعض لوگ صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم میں مخالفت و عداوت کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم نے انہیں ” رحماء بینھم” باہم محبت کرنے والے، آپس میں مشفق و مہربان قرار دیا ہے وہ سب ہمارے ایمان کا حصہ، آنکھوں کی ٹھنڈک ، دل کا سرور اور ایمان کا مقیاس و معیار ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو “نجومِ ہدایت” اور اہلِ بیت اطہار کو ” سفینہء نجات” قرار دیا لہذا صحابہ کرام نجومِ ہدایت اور اہل بیت سفینۂ نجات ہیں جو اس سفینہ میں بیٹھ کر ان ستاروں کے ذریعہ راستہ تلاش کرے گا منزل پر پہنچے گا۔ر ضی اللہ عنہم وأرضاھم ورضوا عنہ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں