فلک زاہد

کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو سدا کے لیے دل پر نقش ہوجاتی ہیں اور وہ ہماری پسندیدہ کتب میں سے ایک ٹھہرتی ہیں۔ صفدر زیدی کی حال ہی میں شائع ہوکر منظرِ عام پر آنے والی نئ تخلیق “بنتِ داہر” بھی ایک ایسی ہی شہکار تخلیق ہے جس نے مجھے اپنا گرویدہ کر لیا ہے۔ یہ کتاب مجھے توقیر ساجد کھرل نے پڑھنے کے لیے دی تھی، وہ پریقین تھے کہ مجھے یہ کتاب بہت پسند آئے گی۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ تاریخ ایک خشک مضمون ہے لیکن اگر اسی تاریخ کو فکشن کی صورت میں ڈھال کر پیش کیا جائے تو پڑھنے والوں کی یا دیکھنے والوں کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے اسکی زندہ مثال دیریلش ارطغرل اور کورولش عثمان سیزنز ہیں۔
بنتِ داہر بھی ایک ایسا ہی تاریخی ناول ہے جو خلیفتہ المسلمین عبدالملک بن مروان، حجاج بن یوسف، محمد بن قاسم، سندھ کے مہاراجہ داہر اور انکی بیٹی سوریا بنتِ داہر کے گرد گھومتا ہے جسکے نام پر کتاب کا نام ہے۔ صفدر زیدی کو پہلی بار پڑھنے کا اتفاق ہوا اس سے قبل میں نے انکی کوئی تحریر نہیں پڑھی اور مجھے خوشی ہے کہ اپنے ساحرانہ قلم سے انہوں نے اس ناول کے ذریعے میرے ذہن پر مثبت اور اچھے اثرات مرتب کیے ہیں۔ میں بھی انہی لوگوں میں سے ہوں جنہیں تاریخ سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تاہم اگر ایسے ہلکے پھلکے دلچسپ انداز میں تاریخ کو ناول کی صورت میں پیش کیا جائے تو مجھ سمیت بہت سے لوگوں کے خیالات و افکار کا رخ ایک نئے زاویے میں تبدیل ہوسکتا ہے اور ہم سب ناول سے محظوظ ہوتے ہوئے اصل حقائق جاننے کی جانب بھی راغب ہوسکتے ہیں۔ ناول میں موجود تاریخی کرداروں کے بارے مجھے زیادہ علم نہیں تھا مگر ناول کا اسلوب اور کہانی اتنی شاندار ہے کہ مجھے کرداروں کی بابت جاننے میں دلچسپی بڑھی۔ ایسا نہیں ہے کہ ناول کی کہانی تمام تر فکشن پر مبنی ہے بقول البرٹ کیمس “فکشن وہ جھوٹ ہے جسکے سہارے سچ بیان کیا جاتا ہے” لہذا اس قول پر عمل پیرا ہوکر مصنف نے مسخ شدہ تاریخ کی یا بقول مصنف تار تار ہوئی تاریخ کی پیوند کاری کی کوشش کی ہے۔ یہ ناول ادبی حلقوں میں درحقیقت ایک علمی بحث کا آغاز ہے جو بہت سے تاریخی حقائق اور پہلوؤں پر ازنوسر جائزے میں معاون ثابت ہوگا۔ ناول کی کہانی محمد بن قاسم کی سندھ کی فتوحات کے گرد گھومتی ہے جن میں دبیل، ملتان، اُچ وغیرہ شامل ہیں۔ ناول کو پڑھ کر بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کا سندھی تاریخ و تہذیب پر مطالعہ بہت عمیق اور گہرا ہے جن میں سندھ میں بسنے والے قدیم مزاہب بھی شامل ہیں جنکو بیان کرنے کے لیے مکالموں کی صورت میں بہترین انداز میں ڈھال دیا گیا ہے۔ ناول کو پڑھتے ہوئے آپکو چاہیے کہ اپنا قلب بڑا اور ذہن وسیع رکھیں۔ معلومات میں اضافے کی غرض سے پڑھیں تاکہ ناول میں موجود کچھ باتیں آپ پر گراں گزر کر آپکی طبیعت بوجھل نہ کر دیں۔ کیونکہ بہت سو کے لیے اس ناول کو ہضم کرنا خاصا مشکل ہوسکتا ہے۔ کتاب میں کربلا اور سادات کے متعلق بھی کچھ پوشیدہ حقائق کو سامنے لایا گیا ہے جسے پڑھ کر طبیعت میں افسردگی اور پرمڏدگی چھا جاتی ہے۔ ناول شروع سے اختتام تک رواں انداز میں چلتے ہوئے ہمیں اس طرح جکڑ لیتا ہے کہ ہم کہانی سے جڑے رہتے ہیں اور دو سے تین نششتوں میں کتاب کو مکمل کر کے دم لیتے ہیں۔ کتاب کو مکمل کرنے کا احساس جہاں خوش کر دیتا ہے وہیں اداس بھی کر دیتا ہے۔ نیز یہ کہ کتاب میں مکالمے، منظر کشی، تاریخی حقائق سب ہی مصنف نے بہت جانفشانی سے قلمبند کیے ہیں۔ اگر آپ سب کسی عمدہ کتاب کو پڑھنا چاہتے ہیں تو میرا مشورہ ہے کہ آپ سب کو اس کتاب کو ضرور پڑھنا چاہیے جو آپکے ذہنوں میں کئ سوالات ابھار دے گا کہ آیا ناول میں موجود چند کردار جنکو تاریخ کا ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے کیا وہ واقعی تاریخی ہیروز تھے یا سفاک ولن؟۔ ان سوالات کے جوابات جاننے کے لیے آپ کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا ہوگا اور میں دعوے سے کہتی ہوں کہ آپ سب کو مایوسی نہیں ہوگی۔ مجھے امید ہے یہ کتاب ادبی حلقوں میں خوب پزیرائی سمیٹی گی۔ اس ناول پر ارطغرل سیریز ہی کی طرح سیزن بننا چاہیے۔ مصنف کے لیے بہت سی داد اور دعائیں۔۔۔۔!!!
عکس پبلیکیشنز
قیمت 1200
صفحات 334